شامی پناہ گزین اور پاکستانی نو بیاہتا جوڑے

تحریر شازیہ عندلیب
ایک محفل میں ایک پاکستانی نارویجن حکومت کی پالیسی کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔انہوں نے بہت دکھی انداز میں بتایا کہ نارویجن حکومت شامی پناہ گزینوں کو تو ناروے آنے کی اجازت دے رہی ہے ۔انہیں لیگل کر رہی ہے لیکن جو لیگل ہیں ان کے نو بیاہتا بچوں کے ساتھیوں کو ناروے نہیں آنے دے رہی۔گذشتہ چند برسوں سے وہ پاکستانی جو اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں کر کے آ رہے ہیں ان کے ساتھیوں کی ناروے میں آمد کو مشکل سے مشکل ترین بنایاجارہا ہے۔ان کے راستے میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ویزہ جاری کرنے میں کئی کئی سال لگا دیے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ چار پانچ سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔حالانکہ امیگریشن کے تمام تقاضے پورے کر دیے جاتے ہیں۔اس وجہ سے کئی نو جوان جوڑے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک پاکستانی ماں جس کا بیمار بچہ بھوک کی وجہ سے موت کا شکار ہو گیا تھا۔اسکا بھی یہی مسلہء تھا کہہ اس کے شوہر کو کئی برس سے ناروے کا رہائشی ویزہ نہیں ملا تھا۔جبکہ ایک انڈین لڑکی نے اپنے شوہر کو ناروے کا ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے خود کشی کر لی۔یہ تما م حقائق افسوس ناک تو ہیں مگر یہاں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔نارویجن حکومت نے پاکستانیوں اور انڈین لوگوں کے لیے قوانین اتنے سخت کیوں کیے؟ان نئے قوانین کے پیچھے کون سے عوامل اور مقاصد کارفرماء ہیں؟آخر نارویجن حکومت کو پاکستانی اور انڈین لوگوں سے ایسی کیا دشمنی ہو گئی جو ایسے سخت قانون بنا ڈالے؟ان کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔
۔پاکستانی اور انڈین ایک خطے کے باشندے ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے دشمن ہی نہیں بلکہ پنجابی کی مثال کے مطابق اٹ وٹے کے بیری ہیں۔
۔پاکستانی کمیونٹی کے لوگ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے انہیں نیچا دکھانے،کمتر جاننے ،حسد کرنے اور لگائی بجھائی میں با کمال ہیں۔
۔بیشتر پاکستانی اس قدر مادیت پرست اور خود غرض ہیں کہ کسی بھی فائدے کی خاطر اخلاقی حدود کو پامال کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔۔پاکستانی اور انڈین کمیونٹی دوسرے ممالک میں جا کر اور تہذیب یافتہ معاشروں کا حصہ بن کر بھی اپنی روائتی تنگ نظری چھوڑنے کے لے تیار نہیں۔کاروباری اور سماجی مصروفیات میں ایک دوسرے کی مدد پسند نہیں کرتے۔پاکستانی پھر بھی اپنے ہم وطنوں سے بعض اوقات انڈین کو ذیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن انڈین پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے وہ اپنی وہی ستر سالہ پرانی متعصب سوچ پر قائم ہیں۔ورنہ ایک جیسی زبان اور تہذیبیں تو انسان کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں۔
پاکستانی کمیونٹی کے افرادکسی دوسرے کو ترقی کرتے ہوئے یا اپنے سے بلند ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں تا قتیکہ فریق مخالف اپنی جگہ سے ہل یا گر نہ جائے۔مثلاً اگر کسی کے پاس اچھی ملازمت اچھا حلقہء احباب یاکسی بھی قسم کی آسودگی ہے تو اسے اس سے محروم کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔اس کے بعد یہ توقع بھی رکھی جائے گی کہ جسے حقیر سمجھا جا رہا ہے وہ ان کے پاؤں دھو کر پیے۔کسی کو نیچا دکھانے کی مہم کو بعض لوگ کسی مشن کی طرح تکمیل کرتے ہیں۔جیسے امریکہ اور روس چاند کو سر کرنے کے مشن کی تکمیل میں مصروف تھے۔اس کے بعد اس مشن کا دلچسپ پہلویہ ہےء کہ جس شخص کو کمتر اور حقیر سمجھا جاتا ہے اسی سے مدد کی توقع بھی رکھی جاتی ہے۔اس وقت پاکستانی یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ مسلمان بھی ہیں اور ہمارا دین شر اور فساد پھیلانے کی کتنی مذمت کرتا ہے۔

اسی پر بس نہیں بلکہ متاثرہ فرد یا گروہ جب ان شر پسند افراد سے بجائے مقابلے کے کنارا کر لے تو بھی اسے چین نہیں لینے دیا جاتا۔اسے طرح طرح کے القابات سے نوازا جاتا ہے اور آپس میں گروہ بندی کی جاتی ہے۔دلچسپ صورتحال تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب فریقین کا اچانک کہیں سامنا ہوتا ہے اور قصور وار لا شعوری طور پرنگاہیں چرانے لگتا ہیں یابغلیں جھانکنے لگتا ہے۔ہمارے مذہب اور ضابطہء اخلاق کی رو سے ایسے شخص کو سخت نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے ڈر سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس شخص کے خلاف سازش کی جا رہی ہوتی ہے اسے سازشی لوگوں کی ساری نیکیاں مل جاتی ہیں اور برداشت کرنے کا انعام علیحدہ بونس میں ملتا ہے۔پھر یہ کیا اللہ تبارک و تعالیٰ کا کم انعام ہے کہ برداشت کرنے والے کو اطمینان و سکون کی وہ دولت ملتی ہے جو لاکھوں کرڑوں خرچ کر کے بھی نہیں ملتی۔پھر کیا سچ ہے ؟کیا جھوٹ ہے؟کیا صحیح ہے کیا غلط ہے کسی کو پتہ چلے یا نہ پتہ چلے اللہ کو تو سب پتہ ہے۔اللہ تو سب دیکھ رہا ہے اور ایک نہ ایک دن وہ ان سب شیطان کے چیلوں کو دیکھ لے گا۔جس دن اسکی لاٹھی پڑی اس روز کوئی کسی کے کام آنے والا نہیں۔یہ اللہ کی لاٹھی انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک سب کی ٹھکائی کرنے والی ہے۔ کبھی تو یہ سخت قوانین کی شکل میں ہوتی ہے تو کبھی کسی نہ کسی آفت کی صورت یا ظالم جابر حکمران کی صورت میں۔اس طرح کی بے اعتدالیاں کرنے والی پاکستانی قوم کو نارویجن حکومت نے بھی خوب نظر میں رکھا ہوا تھا۔اس پر طرہ یہ کہ پاکستانی کمیونٹی میں کئی واقعات جبری شادی کے ہوئے۔جس کی وجہ سے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے ۔بلکہ قتل کی وارداتیں بھی سامنے آئیں۔ہمارا مذہب بے شک بے راہ روی کے خلاف ہے مگر پسند کی شادی کا اختیار تو دیتا ہے تو پھر یہ اختیار کیوں نہیں استعمال کیا جاتا۔پھر یہاں پاکستان سے آئے ہوئے دامادوں اور بیٹیوں کے ساتھ بھی ناوا سلوک رکھا گیا۔یقیناً سب ایسے نہیں ہیں لیکن جو ایسے ہیں وہی قابل مذمت ہیں اور انہی کی وجہ سے نارویجن حکومت نے سخت قانون بنائے ہیں تاکہ معاشرے میں امن و سکون ہو۔ان مشاہدات کی روشنی میں نارویجن حکومت نے نہ صرف پاکستان سے شادی کرکے لانے والوں کی حوصلہ شکنی کی بلکہ متنازعہ گھرانوں کے بچے بھی ادارہء تحفظ اطفال کو تعلیم تربیت کی غرض سے دے دیے۔ناروے کا ادارہء تحفظ اطفال نہ صرف بیمار نشئی والدین کے بچوں کو پالتا ہے بلکہ ایسے متناعہ خاندانوں کو بھی بچوں سے محروم کر دیتا ہے۔جن کے والدین نا چاقی کاشکار رہتے ہیں۔اور وہ بچوں کو مناسب تربیت اور تحفظ نہیں دے سکتے۔آج جب ان مسائل کے حل کے لیے پاکستانیوں کو بلایا جاتا ے تو سب اپنے گھروں میں سروں کو چھپا کے اور منہ میں گھنگنیاں ڈال کے بیٹھ جاتے ہیں۔جب خو دکو تکلیف پہنچتی ہے تب شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔اسوقت پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے اور زمین پیروں تلے سے نکل رہی ہوتی ہے۔آج وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم سب مل کر انفرادی اختلافات کو چھوڑ کر ان مسائل کو حل کریں۔اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلیں مزید مسائل کا شکار نہ ہوں۔

اپنا تبصرہ لکھیں