کالم نگار شاہد جمیل اوسلو
غیر ملکی خبررساں اداروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شام میں غیر ملکی جنگجوئوں کا رخ ہے جو باغیوں کے ساتھ مل کر شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کریں گے۔جن کو امریکہ سمیت برطانیہ یورپ اور بعض عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کی خاص حمائیت حاصل ہے۔
شام میں موروثی حکومت کے خلاف احتجاج طول پکڑ گیا۔جو اب جنگ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔جس میں اب تک 100,000 سے ذائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔شام کی اس جنگ میں سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اور اسرائیل اٹھا رہا ہے۔اب تک دوسال سے جاری اس جنگ میں یہ دو عرب سے زائد رقم خرچ کر چکے ہیں۔جب کہ شامی حکومت پر یہ الزام تھا کہ وہ عوام پرظلم کر رہی ہے اور کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کر رہی ہے۔اسرائیل کا گولڈن ہائیٹس (Golden heights ) پر قبضہ ہے۔جس کو اسرائیل کبھی نہیں چھوڑنا چاہتا جو شامی حکومت کا علاقہ ہے اور تقریباً ّ اٹھارہ سو کلومیٹر پر مشتمل ہے۔
خود فرانس میں جو مالی میں القائدہ کے خلاف جنگ کر رہا ہے اور اس کے بر عکس شام میں اس کی مخالفت کر رہا ہے سمجھ سے بالا تر ہے۔یہ بحران جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔چند ماہ پہلے دمشق میں مقدس مقامات پر حملہ کرنے کی دھمکیوں سے حزب اللہ بھی ان مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے میدان میں کودپڑا ہے۔یہ لڑائی اب شام سے نکل کر ہمسایہ ملک لبنان تک بھی جا پہنچی ہے۔باغیوں کے یہ جنگجو جو زیادہ تر ترکی کے بارڈر سے پیش قدمی کر رہے ہیںترکی ان کی سب سے بڑی رسدگاہ ہے۔ان غیر ملکی باغیوں میں پاکستان کی مختلف انتہا پسند تنظیموں کا نام بھی سر فہرست ہے۔جن کا یہ موقف ہے کہ اب پاکستان سے ذیادہ شام کو ان کی ضرورت ہے۔اس لیے یہ مختلف گروپس میں اب شام کا رخ کر رہے ہیں۔جو خطرے سے کم نہیں لگ رہا ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ القائدہ اور حزب اللہ کی جنگ لگ رہی ہے۔
اور یہاں امریکہ کھلم کھلا القائدہ کی سپورٹ کر رہا ہے۔آخر امریکہ اصل میں کس کے ساتھ ہے؟شام مشرق وسطیٰ کا افغانستان بنتا چلا جا رہا ہے۔جہاں کئی دہائیوں تک امن ممکن نہیں نظر آتا۔اس لمحہء فکریہ میں پاکستان سے انتہا پسند تنظیموں کے رکن یہاں باغیوں کی مدد کے لیے پہنچ رہے ہیں۔جو قطعی امن کا پیغام نہیں لا رہے۔اور پھرامریکہ بہادر اسکی مدد کر رہا ہے۔جبکہ پاکستان اور افغانستان میں اس کے مخالف کام کر رہے ہیں۔امریکہ سب کو ہی بیوقوف بنا رہا ہے۔اصل میں امریکہ کس کے ساتھ ہے!!!