شاہ بانو کی نویں کتاب پاکستان میرا عشق میرا جنون


شاہ بانو کی نویں کتاب پاکستان میرا عشق میرا جنون
تبصرہ شازیہ عندلیب
یہ تبصرہ میں نے پیرس میںپاکستان کی یوم آزادی پر کی گئی تقریب میں شاہ بانو میر کی کتاب کے لیے پڑھا۔قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔
آج کے ترقی یافتہ الیکٹرانک دور میں بھی کتاب اپنے خیالات اور پیغام کے اظہار کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ابتدائے آفرینش سے ہی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا پیغام مقدس صحیفوں کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچاتے رہے ہیں یعنی کہ دنیا میں انسان کی آمد کے ساتھ ہی کتاب کی بھی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ایک اچھی کتاب جس میں قوم کے نام نہ صرف پیغام عمل ہو ،پر خلوص جذبات اور درد بھی ہو تو وہ کسی قیمتی اثاثہ سے کم نہیں۔شاہ بانو میر کی کتاب پاکستان میرا عشق میرا جنون بھی ہماری پاکستانی کمیونٹی کے لیے کسی قیمتی اثاثے سے کم نہیں۔اگر ہم اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اچھی کتابوں سے محبت کرنا ہو گی۔اور انہیں مشعل راہ بنانا ہو گا۔میرا تعلق ناروے جیسے ترقی یافتہ ملک سے یہاں پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا شمار دنیا میں بہترین ٹیکنالوجی میں ہوتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نارویجن قوم نہ صرف مادی ترقی بلکہ شعوری بالیدگی میں بھی ہم سے بہت آگے ہیں۔نہ صرف کمپیوٹر ہر بچے کی پہنچ میں ہے بلکہ وہ اسے استعمال کرنا بھی جانتے ہیں مگر اس کے باوجود ان میں کتب بینی کے شوق کو اجاگر کیا گیا ہے۔ناروے ہر سال کتابوں کی فروخت کی مد میں کئی ملین کرائون ٹیکس وصول کرتا ہے جو کہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ایسا ہوبھی کیوں نہ ناروے کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے ذیادہ کتابیں پڑہی جاتی ہیں۔لیکن اس کے بر عکس ہماری قوم کتابوں سے دور بھاگتی ہے۔ہمارے ہم وطن جوتوں اور کپڑوں پر تو ہزاروں روپئے خرچ کر دیتے ہیں مگر کتابوں پر چند سو روپئے خرچ کرنا مشکل نظر آتا ہے۔نارویجن قوم کے برعکس ہماری قوم کتابوں سے دور بھاگتی ہے حتیٰ کہ قرآن جیسی مقدس اور اعلیٰ کتاب کو بھی پڑھنے سے کتراتی ہے سوائے رمضان شریف کے۔اگر ہمارے ہم وطن قرآن حکیم کو پڑھ بھی لیں تو سمجھتے نہیں ہیں۔یعنی قرآن فہمی نہیں ہے۔میں اسلامی اسکالر محترمہ عفت مقبول کی اس بات سے متفق ہوں کہ ہمیں قرآن حکیم سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔اور پڑھ کر عمل کرنا چاہیے۔اس لیے کہ بقول قومی شاعر علامہ اقبال کے
عمل سے زندگی بنتی ہے
جنت بھی جہنم بھی
اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہے مگر میں ایک ایسی ہستی کو جانتی ہوں جو سونے کا قلم لے کر پیدا ہوئی ہے۔وہ تحریریں جو دل کی گہرائیوں میں اتر جائیںاور آپکے سوئے ہوئے جذبہء حب الوطنی کو جگا دیںوہ تحریریں سنہرے حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔اور یہ سنہری حرف کسی عام قلم کی نوک سے نہیں نکل سکتے وہ سنہری قلم فرانس کی شاہ بانو میر کا ہی ہو سکتا ہے۔
جب شروع شروع میں میں نے شاہ بانو کی تحریر پڑہی تو میں چونک گئی کہ یہ کون شخصیت ہیں جو وطن سے دور رہ کر بھی اس قدر وطن کی محبت میں ڈوبی ہوئی ہیں۔یورپ میں لوگ فکر روزگار کے لیے آتے ہیں مگر انہیں ابھی تک وطن کی فکر دامن گیر ہے۔
ابھی شاہ بانو کے میگزین در مکنون کا ہی انتظار تھا کہ انکی نویں کتاب بھی منظر عام پر آگئی۔اس کتاب میں ان کے تمام مضامین اور کالم یکجاء کر دیے گئے ہیں۔گویا یہ کتاب مضامین کا جیولری باکس ہے۔جس میں قاری کو وطن کی محبت میں پور پور ڈوبی تحریریںملیں گی۔شاہ بانو ایک ایسی لکھاری ہیں جو اپنے مضامین میں بھاری بھرکم الفاظ کی تراکیب اور استعارات استعمال کر کے قاری کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ بڑے ہی سلیس اور دلنشیں انداز سے وطن کی مٹی میں گندھے الفاظ میں اپنی بات قاری تک پہنچا دیتی ہیں۔
جب میں نے انکی پہلی کتاب متاع مریم نیٹ پر کھولی جب تک پوری کتاب نہیں پڑھ لی میں بے چین ہی رہی۔یہی ایک کامیاب لکھاری کی خوبی ہے کہ اسکی تحریر کا قاری خود کو تحریر کے سحر میں گرفتار محسوس کرتا ہے۔وہ جب تک اس طلسم کدہ کے آخری سرے تک نہ پہنچ جائے وہ اسے چھوڑتا نہیں۔اس ناول کی نہ صرف کہانی مربوط تھی بلکہ کردار بھی جیتے جاگتے تھے۔
شاہ بانو میر ایک ایسی لکھاری ہیں جو اپنی تحریروں میں ڈوب کر لکھتی ہیں۔وہ قاری کو بھی اس میں ڈبو دیتی ہیں ہوش تو اس وقت آتا ہے جب اوون میں رکھے کیک کیک رس اور روسٹ کے پکوڑے بن چکے ہوتے ہیں۔مگر انکی تحریریں مزید تشنگی بڑہا دیتی ہیں۔میں اکثر جذبہ ڈاٹ کام پر ان کی تحریر سب سے پہلے تلاش کرتی ہوں۔
شاہ بانو صرف دلنواز اسلوب لکھنے والی لکھاری ہی نہیں بلکہ ایک دلآویز اور ہر دلعزیز دوست بھی ہیں۔فون پر ان سے ہونے والی چند ملاقاتوں نے ہی مجھے انکا گرویدہ بنا دیا۔پچھلے سات برسوں سے یورپ کی ویب سائیٹس پر خواتین لکھاریوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جو چند ایک تھیں ان میں سے بیشتر محبوب کی جدائی میں تڑپتی ہوئی بیقرار شاعرات تھیں۔جن کی شاعری کبھی کبھار منظر عام پر آ جایا کرتی تھی۔اس عالم شاہ بانو کی تحریریں صحراء میں بوند ثابت ہوئیں۔بس پھر کیا تھا ادب کا یہ لق و دق صحراء انکی تحریروں کی محبت سے جل تھل ہو گیا۔میں نے انکی یہ تحریریں اردو ویب سائٹ جذہ ڈاٹ کام اور اردو لنک پر پڑہیں۔اگر شاہ بانو کو یورپ میں موجودہ اردو ادب کی خواتین کی خاتون اول کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا اسی طرح جذبہ ڈاٹ کام بھی ویب سائیٹس کے ہراول دستے میں شامل ہے جو پاکستانی کمیونٹی کی بے لاگ خدمت کر رہا ہے۔اس سائٹ کی وجہ سے ہمیں معیاری تحریریں پڑھنے کو ملیں۔خاص طور سے شاہ بانو سے بھی تعارف ہوا۔ورنہ اس سے پہلے کوئی خاتون نمایاں تحریریں سائٹ پر نہیں لکھتی تھیں۔جو لکھتی تھیں انہیں مرد سمجھا جاتا تھا۔
انکی تحریروں کی وجہ سے پیرس میں پاکستانی کمیونٹی اجنبی نہیں رہی۔وہ اپنی بیشتر تحریروں میں پاکستانی کمیونٹی کو بھی ساتھ لیکر چلتی ہیں۔انہوں نے قارئین کو اپنی دوستوں اور یہاں کی نمایاں شخصیات سے بھی ملوایا ہے۔پھر تحریک انصاف کو انہوں نے سوشل میڈیا پر ریکارڈ پذیرائی دلوائی۔یورپ میں اس کی مقبولیت میں شاہ بانو کا بڑا ہاتھ ہے۔آج میں اس شخصیت کی پر خلوص دعوت پر پیرس میں موجود ہوں ورنہ اس سے پہلے میں راولپنڈی کے پیرس بازار سے ہی واقف تھی۔
شاہ بانو کی تحریریں نہ صرف معاشی و معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ وہ یہاں کی تقریبات کا تذکرہ بھی بڑی خوبی سے کرتی ہیں۔شاہ بانو کی یہ کتاب اپنے قاری کے لے وطن کے جذبے سے سرشار ایک بھرپور تحفہ ثابت ہو گی۔میرے لیے تو شاہ بانو میر کی تحریریں ایک متاع عزیز کی حیثیت رکھتی ہیں۔امید ہے انکی کتاب قارئین پورے ذوق و شوق سے پڑہیں گے
آخر میں میں یہی کہوں گی کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

3 تبصرے ”شاہ بانو کی نویں کتاب پاکستان میرا عشق میرا جنون

  1. Assalam u Alaikum
    i hope you will be fine
    aap ke tabsiry se pata chal raha hai ke ye waqai mufid kitab hai. ye bataiye ke ye Pakistan mein available hai ya nahi…?
    ye baat bohtkhush aind hai ke Pakistan se bahir reh kar bhi logon kadil watan ke saath dharakta hai…..
    Thanks Regards

    Raja Muhammad Attique Afsar

  2. Shazia ji mashaAllah bhot payary aor achay andaz say ap nay shah bano.ki kitab Pakistan mera isq mera janon pay bhot k.waqt main comprehensive tabsra kia hy.main.yahan yeah samjta hon k agar kisi nay yeah book parni ho aor ua k.pass sirf dasmint hon to woh ap ka tabra parlay to wohkafi had k iskitab k mandarjat ko samaj.jay ga.shukria.shazia ji ap.log hi pakistan ka kul.Asasa ho.shukria

اپنا تبصرہ لکھیں