مرتبہ: ڈاکٹر شہلا گوندل
شعبان کی پندرھویں(15) رات”شب برأت“کہلاتی ہے۔ یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔
(جامع ترمذی: حدیث نمبر 739)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ نصف شعبان کی رات آۓتو اس رات کو قیام کرواوردن میں روزہ رکھاکرو-اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ پہلے آسمان پر نزول فرمالیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے گناہوں کی بخشش مانگنے والا ہےکہ میں اسے معاف کردوں؟کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہےکہ اسے وسعت رزق دوں؟کیا کوئی مصیبت زدہ ہےکہ میں اسے عافیت عطا فرما دوں ؟“
(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر 1388)
ایک اور روایت ہےکہ ”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“
ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:
1- اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔
لیکن
نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔ یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔
2۔ دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(13،14،15) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توباعث اجروثواب ہوگا۔
لیکن
اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔ شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔
3۔ قبرستان جاکر ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کرنا۔ لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔
لیکن
پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااوراس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنا ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اسی کانام اتباع اوردین ہے۔
شب برأت ان کے لیے ایک دستک ہے جو آخرت کی زندگی کو بھول کر دنیاوی زندگی کے گورکھ دھندوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ رات ان کے لئے اپنے رب کی طرف بلاوہ، اور اسے منانے کی رات ہے۔ جب کوئی شخص کماحقہ اس رات کو اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں بسر کرتا ہے، تسبیح وقیام کرتا ہے، درود و سلام پڑھتا ہے، گناہوں سے معمور دامن ذکر الہٰی سے صاف کرتا ہے تو یہ رات اسکے لئے بہت سے انعام و اکرام لاتی ہے۔ تقدیریں بدل جاتی ہیں، زندگی کے حالات بدل جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس ایک عظیم رات کو اس میں کار فرما روح کے مطابق گزارنے کے بدولت ہی ممکن ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے۔
ﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔ (سورہ الرعد، 13: 39)
شب برأت ہمارے احوال کو بدل سکتی ہے۔ اگر انسان احسن طور پر اس کے لوازمات پورے کرے تو یہ رات گناہوں کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگربندہ اس رات اپنے رب کے حضور ندامت کے آنسو بہائے اور نالہ و فریاد کرے، اپنے صغائر و کبائر گناہوں کے لئے معافی کا خواست گار بنے تو اسکی بدحالی، خوشحالی میں اور تنگی، آسانی میں بدل جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے ایک بے حد گناہگار شخص نے صرف توبہ کا ارادہ کیا، ابھی مکمل طور پر توبہ بھی نہ کر پایا تھا کہ اسکی موت ہو گئی مگر نیت و ارادہ کے سبب اسکی تقدیر بدل دی گئی اور جنت میں پہنچایا گیا۔ اگر آج حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا ایک گناہگار اور سرکش شخص توبہ کرے تو کیا اس کی تقدیر نہیں بدل سکتی؟ بالخصوص شب برأت کا تو اور افضل مقام ہے جہاں حضورصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کی رو سے اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگنا اور آہ و زاری کرکے اپنے رب سے آئندہ گناہوں سے سچی توبہ کرنا ہے۔ شب برأت ہمیں اس عمل کی طرف دعوت دے رہی ہے کہ اس رات محاسبۂ نفس، توبہ اور تجدید عہد کے ذریعے دنیاوی اور اخروی فلاح کا سامان تیارکریں۔
اگر ہماری روزمرہ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے اور عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ ہم نے اپنے بہت سے عزیز و اقارب اور دوست احباب کو کل نفس ذائقۃ الموت کے ارشاد کے مطابق رخصت ہوتے دیکھا ہے ۔ اُن کا رخصت ہونا اصل میں ہمارے لئے دعوتِ فکر ہے کہ ہم نے اپنے لئے کیا سامان تیار کررکھا ہے-
شب برأت دنیا و آخرت کے سنوارنے کے لئے ایک فکر کا نام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری کو ختم کرکے قربت کی طرف بلانے کا ایک ذریعہ ہے۔ حب الہٰی اور محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک دعوت ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوکر انسان اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکتا ہے۔ شب برأت ہمارے لئے ایک تحفہ ہے جسکی بدولت ہم اللہ کی رحمت اور کرم کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہوکے اپنے قلب وروح کو سیراب کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس کے برعکس اس رات کو پٹاخوں اور آتش بازی یاان جیسی دوسری خرافات کی نذر کردیتے ہیں تو ہم دوہرے نقصان کے ذمہ دار ہیں ۔ شب برات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اسلام کے اصولوں سے عاری لوگوں کے خلاف ایک نقارہ ہے جس میں باور کروایا جارہا ہے کہ یہ نا امیدی، مایوسی اور قنوطیت تمہارے کیے ہوئے اعمال کی بناء پر ہے۔ اس رات میں اپنے اعمال کی اصلاح کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہمیں اپنے اعمال کو درست کرنے اور اس قیمتی رات سے مستفید اور مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرماۓ۔ (آمین)