مشاعرے وسیلہ ء علم و آگہی ہیں ۔مشاعرے کا انعقاد فروغ ادب کے لئے بہت ضروری ہے تاکہ سنجیدہ،پروقار شاعری اور تجزیاتی کلام عام سامعین تک پہنچتا رہے۔29مارچ 2014ء کو شریف اکیڈمی جرمنی کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر پروفیسر محترمہ آر کے نیازی کے اعزاز میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین میانوالی میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔اس محفل مشاعرہ میں خصوصی طور پر شریک ہونے والی مہمان شاعرات میں محترمہ راشدہ ماہین ملک جو اسلام آباد سے تشریف لائیں ۔راشدہ کا حال ہی میں شعری مجموعہ ”شال میں لپٹی رات” منظر عام پر آکر پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔اور دوسری مہمان شاعرہ محترمہ ایڈووکیٹ سعدیہ ہما شیخ تھیں جو سرگودہا سے تشریف لائیں۔سعدیہ کا شعری مجموعہ ”وصل میں تشنگی” منظر عام پر آچکا ہے۔مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر لبنیٰ آصف نے کی۔مشاعرے کی ابتدا تلاوت کلام پاک سے ہوئی۔اس کے بعد نعت رسول مقبول ۖ پیش کی گئی۔ ڈاکٹر لبنیٰ آصف نے حمدیہ نعتیہ کلام پیش کیا۔نظامت کے فرائض محترمہ رابعہ قریشی اور ارم ہاشمی نے سرانجام دیئے۔شریف اکیڈمی میانوالی کی ڈائریکٹر ِ، ڈاکٹر عالیہ خان نے شریف اکیڈمی کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ پیش کی ۔اس موقع پر سالگرہ کا کیک کاٹا گیااور شریف اکیڈمی کی روایت کے مطابق علم کی روشنی پھیلانے کے عزم کے اظہار کے لئے شمع روشن کی گئی۔اور شریف اکیڈمی کے ممبرز کو نامزدگی لیٹر دیئے گئے۔ دوران تقریب شفیق مراد (چیف ایگزیکٹو شریف اکیڈمی جرمنی) نے ٹیلفونک خطاب کیا ۔اور سامعین کی بھرپور تالیوں میں اہل میانوالی کے لئے علمی و ادبی پرچہ تحریک کے اجراء کا بھی اعلان کیا۔یہ محفل مشاعرہ محترمہ آر کے نیازی کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔محترمہ آر کے نیازی معروف ادیبہ،شاعرہ اور تجزیہ نگارہ ہیں۔وہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین میانوالی میں اردو کی پروفیسر ہیں۔اور منبع علم و کمال ہیں۔مشاعرے کا باقاعدہ آغاز بلقیس خان کی آزاد نظم سے ہوا۔
وہ مجھ سے پوچھتا ہے
رتجگوں سے کیوں بجھاتی ہو
یہ روشن مدھ بھری آنکھیں۔۔۔
شنزیلہ رصین جدید ذہن کی شاعرہ ہیں۔انہوں نے اپنی غزل کو جدید ذہن کی احساس و فکر سے مالا مال کیا ہے۔
شمع گل ایک نوآموز شاعرہ ہیں ۔
سنو اے کانچ کی لڑکی!
تمہیں یہ کس نے کہہ ڈالا
کہ تم!
صحرا کی تپتی ریت پر۔۔۔
خالدہ گل اور یاسمین نیازی کوبھی غزلوں پر بہت داد ملی۔
راشدہ ماہین ملک باکمال شاعرہ ہیں۔وہ جب اپنے فنکارانہ ترنم میں غزل سرا ہوتی ہیں تو لفظ بولنے لگتے ہیں۔وہ یوں ہمکلام ہوئیں اور بے ساختہ داد سمیٹی۔
میرے چہرے پہ کیا جائے تہجد کا سنگھار
کاش سرکار کی آمد پہ سنواری جائوں
سعدیہ ہما شیخ ایوارڈ یافتہ شاعرہ ہیں۔انہوں نے بہت پر اثر کلام سامعین کی نذر کیا اور خوب داد پائی۔
ڈاکٹر عالیہ خان نئے طرز احساس ،نئی قوت و توانائی سے شعر کہنے والی شاعرہ ہیں۔انہوں نے شنزیلہ رصین کی فرمائش پر اپنا منتخب کلام”بادل” پیش کیا۔
رابعہ قریشی کی شاعری میں تنہائی کی شدت اور خیال کا کرب کا ستعارہ نئی معنی آفرینی کے ساتھ نظر آتا ہے۔
معمہ ہو ریاضی کایا منطق کا کوئی نقطہ
تیرے کلیوں ،اصولوں کو بڑی مشکل سے سمجھیں گے
محترمہ آر کے نیازی کی شاعری آئینہ زندگی بھی ہے اور آئینہ ء جمال بھی۔وہ اپنے عہد کے فکری رویوں کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ قلم بند کرتی ہیں۔
بچپن بچھڑ کے باپ کے آنگن میں رہ گیا
اس کی خبر بھی میکے سے بھیجا کرے کوئی
ڈاکٹر لبنیٰ آصف بنیادی طور پر جمالیاتی شاعرہ ہیں۔انکی غزل یاس،امید کا مرقع نظر آتی ہے۔وہ سامعین کی بھرپور یالیوں کی گونج میں یوں غزل سرا ہوئیں۔
کبھی میں تھی تیرے سپنوں کی رانی بادشاہا
تیرے دل پر تھی میری راجدھانی بادشاہا
اسے تیری رعایا اپنے خوں سے لکھ رہی ہے
تجھے سننی پڑے گی یہ کہانی بادشاہا
صدر محفل ڈاکٹر لبنیٰ آصف نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ”میانوالی کوسنگلاخ چٹانوں ،سیاہ پہاڑوں اور خشک میدانوں کا خطہ ہے لیکن ادبی اعتبار سے یہ ایک بے حد زرخیزسرزمین ہے۔جہاں بے مثال ادب تخلیق ہو رہا ہے”۔ آخر میں رابعہ قریشی نے شرکاء محفل اور شاعرات کا شکریہ ادا کیا۔اور یوں یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔