یہ 19 سالہ پرانی تحریر ہے -مسلمانوں کے لحاظ سے حالات کافی تبدیل ہوچکے ہیں اپنوں اور غیروں کی سازشوں
نے انکو کافی الجھا دیا ہے اور قدرے کمزور کر دیا ہے- لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام اسکے باوجود
ان ملکوں میں خوب پنپ رہا ہے-–
مستقبل میں ایک موثر قوت بن کر ابھریں گے
1996ء کے ایک سفر شمالی امریکہ کے تاثرات
از
عابدہ رحمانی
گزشتہ چند ماہ امریکہ اور کینیڈا میں گزرے۔ رمضان کا مہینا تھا جب میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں داخل ہوئی میرا پہلا پڑاؤ ٹیکساس آسٹن میں تھا۔ شروع شروع میں تو بیحد قلق ہوا کہ نہ اذان کی صدائیں، نہ سحر و افطار کی رونقیں یا اللہ تو اس ملک میں بھی اپنے دین کو غالب کر دے یہاں بھی تیرے دین کا بول بالا ہو، دل کے اندر سے دبی ہوئی خواہشوں کا اظہار دعاؤں کی صورت میں ہوتا تھا۔
یہاں کی مسلم ایسوسی ایشن نے سحر و افطار کا چارٹ تقریباً سب مسلمانوں کوبھجوایا تھا۔ نمازوں کے نظام اولاقات بھی تھے یا پھر مسلمان خود ہی جا کر مسجد سے لے کر آئے تھے۔ آنے کے بعد افطار پارٹیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو بیحد خوشی ہوئی کہ الحمد للہ مسلمان آپس میں کافی مربوط ہیں۔ اگرچہ گھریلو قسم کی دعوتیں تو پاکستانی گھرانوں میں ہوتیں لیکن مسجد میں دعوت میں مختتلف رنگ و نسل کے مسلمان نظر آئے۔ عرب، ہندوستانی، بنگلہ دیشی، مصری، فلسطینی اور دیگر قرآن کی آیات اور حضوؐر کے آخری خطبے کی بازگشت سنائی۔ اللہ کے نزدیک سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے متقی ہو (الحجرات)۔ عربی کو عجمی پر اور نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے اگر فضیلت ہے تو تقویٰ اور پرہیزگاری کی بدولت ہے۔ آسٹن کی اس مسجد جو کہ یونیورسٹی آف ٹیکساس کے قریب ہے گرجا گھر کی عمارت لے کر بنائی گئی ہے۔ افطار، نماز اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مسجد کی مزید تعمیر اور توسیع کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی جس میں مسلمان مردوں اور خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کئی ہزار ڈالر جمع ہوئے یہاں چھوٹے، بڑے بچوں اور خواتین کی تدریس کا بھی انتظام ہے جس میں مزید توسیع کی جائے گی۔ یہاں پر اکثرخواتین پورے پردے سے تھیں جبکہ دیگر نے سکارف اوردوپٹے اوڑھ رکھے تھے۔
فرانسیسی نو مسلم لڑکی سٹیفنی نے بہت متاثر کیا۔ سٹیفنی نے اپنے ایک بنگلہ دیشی دوست سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ کاش کہ ہم اپنے کردار اوراخلاق کی بدولت اسی طرح دیارِ غیر میں غیر مسلموں کو متاثر کر سکیں۔ سٹیفنی وہاں سے امریکہ آ گئی جہاں پر وہ ایک جگہ فرانسیسی مترجم کی ملازمت کر رہی ہے۔ اپنا زیادہ وقت مسلمانوں سے ملنے جلنے میں اور مسجد میں گزارتی ہے۔ اسلام کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کر رہی ہے، سوتے ہوئے چھوٹے بچوں کو اٹھا کر وہ بہت پیار سے چپ کرا رہی تھی کاش کہ سٹیفنی کو ایک مخلص مسلمان ہمسفر مل جائے۔ بنگلہ دیشی بہن مسز نور الدین بھی اپنی بیٹی اور نواسی کے ہمراہ موجود تھیں وہ اور میں ایک ہی جہاز سے دبئی سے آسٹن تک پہنچے تھے اور اس طرح آپس میں بات چیت اور دوستی ہو گئی تھی۔ مسز نور الدین نے برقعہ اوڑھ رکھا تھا اردو بھی بہت اچھی بول رہی تھیں ان کے شوہر نے جب ان سے بنگالی میں باتیں کیں تب ان کی زبان کا اندازہ ہوا جب پاکستان تقسیم ہوا تو افغانستان میں تھیں ان کے شوہر پاکستانی سفارتخانے میں سیکنڈ سیکرٹری تھے بعد میں بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے اچھے عہدوں پر فائز رہے۔ حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے ان کی صاحبزادی بھی پردے میں تھیں۔ مسز نور الدین میں بیحد دینی شعور اور جذبہ تھا۔ 1971ء کے سانحے پر افسردہ تھیں کہ بھائی نے بھائی کا گلا کاٹا، خواتین حکمرانوں کی بنگلہ دیشی، پاکستانی دونوں کےخلاف تھیں ۔حسینہ کو بھی ناپسند کرتی تھیں۔ جماعت اسلامی کی ہم خیال بلکہ متفق تھیں ان سے مل کر اور باتیں کر کےبےحد خوشی ہوئی ۔ان کو میں نے بتایا کہ ڈھاکہ میں، میں نے بھی عمر عزیز کے آٹھ سال گزارے ہیں اور ڈھاکہ میں قیام کی بیحد خوشگوار یادیں ہیں جو کہ 1971ء کے سانحے کے بعد تکلیف دہ یادوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں یہ بات مشاہدے میں آئی کہ الحمد للہ مسلمانوں میں اپنی شناخت کا جذبہ شدت سے ابھر رہا ہے اور اس کی بدولت اب وہاں کے معاشرے میں مسلمانوں کی پہچان کوئی مشکل نہیں رہی۔
ایک شاپنگ مال میں خریداری کرتے ہوئے سیلز گرل میرے لباس کو دیکھ کر مخاطب ہوئی کیا تم مسلمان ہو- پاکستانی ہو؟ کہنے لگی کہ تم مسلمان عورتیں اپنے آپ کو اس لیے ڈھکتی ہو کہ مرد تمہاری طرف متوجہ نہ ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہارے مذہب میں بھی تو یہی ہے تم دیکھتی ہو کہ تمہاری نن اپنے آپ کو کیسے ڈھانپتی ہے۔
اگرچہ وہاں پر رہائش پذیر بیشتر مسلمان خواتین خاص کر جو کام کرتی ہیں انہی جیسا لباس پہنتی ہیں یعنی پتلون، ٹی شرٹ وغیرہ اور اکثر سکارف نہیں پہنتیں تاکہ وہ ان سے الگ نظر نہ آئیں یہ ایک قسم کا احساس کمتری ہے۔ وہاں کے معاشرے میں سکارف سے ڈھکا ہوا سر مسلمان عورت کی نشانی بن چکا ہے۔ اس لباس کو دیکھ کر اگلا مسلمان آگے سے السلام علیکم کہتا ہے۔ مجھے تو چلتے پھرتے مختلف جگہ مسلمان خواتین اور مردوں نے سلام کیا۔
سیاہ فام لیڈر لوئی فراخان کی تقریر میں نے شکاگو ٹی وی سے سنی ان کی جماعت کا نام نیشن آف اسلام ہے۔ یہ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کی عورتیں پوری طرح سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہیں صرف چہرے کھلے ہوتے ہیں۔ شعلہ بیان مقرر ہے انہی دنوں لیبیا، سوڈان، ایران، عراق، شام، نائجیریا اور سعودی عرب کے دورے سے واپس گئے تھے کافی لمبی تقریر تھی۔ سعودی عرب میں انہوں نے عمرہ ادا کیا، امام کعبہ اور امام مسجد نبویؐ سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے اقوام متحدہ اور امریکہ کی پابندیوں کے باعث عراقی قوم کی حالت زار ہے۔ بمباریوں کے اثرات کے علاوہ غذا کی قلت، جان بچانے والی ادویات کی قلت اور جان توڑ مہنگائی ہے۔
اس زمانے میں امریکہ ٹی وی کے مختلف چیلنجز پر لوئی فراخان کا یہ فقرہ دکھایا جاتا تھا۔
America would be destroyed by the hands of Muslims. امریکہ مسلمانوں کے ہاتھ تباہ ہوگا۔
لوئی فراخان نے بتایا کہ اس کے خلاف یہودیوں کا پروپیگنڈہ ہے پھر انہوں نے اپنی تقریر میں جس طرح امریکن حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جو اس نے نائیجیریا، سوڈان، ایران اور عراق کے خلاف اپنی معاندانہ کارروائیاں اختیار کی ہیں۔ کس کس طرح مسلمانوں کو اپنے ستم کا تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ فراخان نے کہا کہ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ امریکہ مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ ہو گا میں نے کہا ہے جیسے فرعون کے لیے اللہ نے حضرت موسیٰ کو پیدا کیا تھا ویسے امریکہ کے لیے مجھے پیدا کیا ہے۔ یہ فقرہ میرے دل کو بہت لگا ہر فرعون راموسیٰ- واقعی عالم اسلام کے کسی لیڈر کی جرات نہیں کہ وہ امریکہ کے قلب میں کھڑا ہو کر اسے کچھ کہ سکے۔ جبکہ یہ امریکہ حکومت پر اس قدر کڑی تنقید کر رہے تھے۔ امریکی لگ تو میرے اپنے لوگ رہے ہیں لیکن امریکی حکومت اگر راستے سے بھٹک گئی ہے تو اسے سیدھے راستے پرآنا ہو گا۔ لوئی فراخان کو واشنگٹن ڈی سی میں دس لاکھ آدمیوں کے مارچ کے بعد سے بےحد شہرت حاصل ہوئی۔
تقریر کے اختتام پر ٹی وی سے اذان نشر ہوئی۔ امریکن ٹی وی سے اذان سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اس کا ترجمہ سنایا گیا کہ اللہ اکبر Allah is the greatest پھر سورہ فاتحہ سنائی گئی، سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفراخان نے اس کا ترجمہ کیا اور پھر دعا ہوئی۔ یہ سب دیکھ کر میرے قلب و دماغ پر ایک سرشاری طاری ہوئی۔ اگرچہ فراخان پر دیگر مسلمان طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں لیکن مجھے یہ سارا سلسلہ ایک نئی صبح کی نوید لگ رہا ہے۔
ٹورنٹو کینیڈا میں مسلمان برداری بہت بڑی تعداد میں ہے اور مسلم تنظیمیں کافی مستعدی سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ رمضان میں ٹورنٹو کی جامع مسجد طارق مسجد میں نمازوں، تراویح اور شب بیداریوں میں مسلمان مرد، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی رہی۔ کینیڈا کیحکومت مذہبی روادای کی قائل ہے اس لیے یہاں پر اسلام کے فروغ اور ترویج کے لیے کافی کام ہو رہا ہے۔ مسلمان تنظیمیں کافی مربوط ہیں۔ سکولوں میں اگر بچے اور ان کے والدین باعمل مسلمان ہیں تو بچوں کو نمازوں کے نظام اولاقات میں وقفہ دیا جاتا ہے اس کے علاوہ جمعہ کی نماز میں بھی شرکت کے لیے چھٹی دی جاتی ہے۔ یہاں پر بھی مسلمانوں کے ہاں افطاریوں کی دعوتیں ہوتی ہیں۔
عیدالفطر کی نماز کے لیے کینیڈا کی ایک بڑی نمائش گاہ Canadian Exhibition Center میں انتظام کیا گیا تھا۔ اس میں ماشاء اللہ لگ بھگ بیس مسلمان
مرد، خواتین اور بچے شریک ہوئے۔ رنگ برنگے عید کے ملبوسات میں ملبوس مرد و خواتین اوربچے مسلمانوں کی انفرادیت کو ظاہر کر رہے تھے۔ ہر رنگ، نسل، زبان اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے مسلمان صرف اور صرف ایک پہچان رکھتے ہیں کہ وہ مسلم ہیں۔ولولہ انگیز تقریر اور خطبے کے بعد نماز عید ادا کی گئی۔ نماز کے بعد عید میلن کا سلسلہ شروع ہوا۔ بچوں نے آٹھ ڈالر کے ٹکٹ سٹمپ لگائے اور مختلف کھیلوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔
شمالی امریکہ کے مسلمانوں نے یہ بہت اچھا طریقہ شروع کیا ہے کہ وہ عیدین کے مواقع پر بچوں کو کھلونوں وغیرہ کے کافی تحائف دیتے ہیں۔ تاکہ ان کوعیسائی بچوں کے مقابلے میں کوئی کمتری نہ ہو جن کو کرسمس اور ایسٹر کے تہواروں پر تحائف دیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بچوں کو اس کی تلقین کرتے ہیں کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ہماراتہوار ان کے تہواروں سے مختلف ہوتے ہیں۔یہاں پر کھانے پینے کے کافی سٹال لگے ہوئے تھے جن سے لوگ اپنی پسند کی اشیاء خرید رہے تھے غرضیکہ ایک میلے کا سماں تھا۔
عید کے بعد عید ملن پارٹیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں پر جس اپارٹمنٹ بلڈنگ میں میرا قیام تھا وہاں پر بنگلہ دیشی مسلمان خاندان بھی آباد تھے۔ ایک خاندان کی بزرگ خاتون (گائے بندھا ضلع رنگپور) میں جماعت اسلامی کی ناظمہ تھیں، انہیں کافی دینی شعور تھا۔ مولانا مودودیؒ کی کتابوں کے بنگلہ تراجم ان کے پاس تقریباً سب موجود تھے۔ تفہیم القرآن بھی بنگلہ ترجمے کے ساتھ تھا۔ وہ اپنے خاندان میں اسلامی اقدار کی پابندیوں کے لیے کوششیں کرتی تھیں۔ ساتھ ہی وہ بنگلہ دیشی خواتین کے حلقوں میں درس قرآن دیتی تھیں۔ انہوں نے اپنے ہاں جب دعوت کی تو لگ بھگ، 80,90 افراد تھے۔ مرد ایک طرف اور خواتین دوسری طرف تھیں آنے والی تمام خواتین نے سکارف باندھ رکھے تھے اور مناسب طور پر ساڑھیاں پہنی تھیں۔ میں نے پہلی مرتبہ بنگلہ دیشی بہنوں کو اس اسلامی اہتمام کے ساتھ دیکھا۔نمعلوم یہ اماں کی صحبت کا اثر تھا یا اسلامی بیداری کا کہ وہ بنگلہ دیشی بہنیں جو کہ ایک ہندوانہ اثر لیے ہوئے تھیں اب مکمل مسلمان نظر آ رہی تھیں۔
میرے بھائی جو کہ جمعیت اورجماعت اسلامی کے دیرینہ کارکن اور ریاض (سعودی عرب) میں رکن کی حیثیت سے تھے، اب ٹورنٹو میں اپنے دینی خدمات اکنا کے ممبر کی حیثیت سے انجام دے رہے ہیں۔ ICNA سے مراد اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ ہے۔ انہی کے پاس میرا قیام تھا اور ان کی وجہ سے دیگر مسلمانوں سے بھی ملاقات رہی۔
ہمارے اوپر والی منزل میں مقیم بنگلہ دیشی بہن شاہانہ کا خاندان تھا۔ وہ اور ان کے شوہر تبلیغی جماعت سے متاثر تھے اور الحمد للہ بہت اچھے مسلمان تھے۔ شاہانہ پردے کی پوری پابندی کرتی تھیں اور زیادہ تر شلوار قمیض میں ملبوس رہتی تھی وہ اس کو زیادہ اسلامی لباس سمجھتی تھی۔ پاکستان آ کر رائے ونڈ کے اجتماع میں شرکت کی ان دونوں کی بیحد خواہش تھی۔ ان کو اردو نہیں آتی تھی میں نے جب ان سے بنگلہ زبان میں گفتگو کی تو بیحد خوش ہوئیں۔ یہ دونوں خاندان اپنے روایتی محبت اور مہمان نوازی سے پیش آئے۔ مجھے بھی ایسا لگا جیسے کہ 1971ء سے پہلے کے زمانے میں چلی گئی ہوں۔وہی خلوص، وہی محبت، وہی جذبے، انقلابات زمانہ اور سیاسی چالوں اور سازشوں نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا لیکن الحمد للہ ہم سب مسلمان ہیں اور یہ سب سے مضبوط رشتہ ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں جمعے اور عیدین کے مواقع پرخواتین مساجد یا عیدگاہوں میں نہیں جاتیں لیکن یہاں پر اس کی اہمیت نظرآتی ہے اس لیے مردوں کے ساتھ خواتین بھی جاتی ہیں۔
عیسائیوں کے تہوار گڈ فرائیڈے کے موقع پر دو روز کی مسلسل برفباری کے بعد صبح سے دھوپ نکلی تھی۔ دھوپ میں تمازت کافی کم تھی لیکن پھر بھی موسم صاف تھا۔ طارق مسجد میں چونکہ اندر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اس لیے باہر بہت بڑے احاطے میں پلاسٹک کی شیٹیں بچھائی گئی تھیں جن پر ایک طرف مرد اور دوسری طرف خواتین تھیں۔خطبہ اور تقریر سفید فام عالم عبدالحکیم کوئیک کر رہے تھے۔ انہوں نے گڈ فرائیڈے کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور میڈ کاؤ (Mad cow)بیماری پر۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے گائے کی غذا سبزہ چارہ رکھا ہے اور نباتاتی اشیاء میں اس کی غذا ہے لیکن جب اسے حیوانی غذا دی جانے لگی تو وہ پاگل ہو گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ انگلستان میں مری ہوئی بھیڑوں کا چارہ بنا کر گائے کو کھلایا جاتا تھا تاکہ وہ فربہ ہوں۔ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کو جب تبدیل کیا جاتا ہے تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
گڈ فرائیڈے پر چونکہ یہاں عام تعطیل ہوتی ہے اس لیے ہزاروں کی تعداد میں مسلمان نماز جمعہ میں شریک ہوئے اور یوں یہ مسلمانوں کا گڈ فرائیڈے ہو گیا گڈ فرائیڈے کی حیثیت عیسائی مذہب میں یہ ہے کہ یہ نعوذ باللہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام مصلوب کیا گیا تھا تو تیسرے دن ان کی قبر سے وہ آسمان کی طرف اٹھا ئے گئے تھے یہ جمعے کا دن تھا اور اس کی یہ خوشی مناتے ہیں۔ اسلامی عقیدے کے مطابق ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا۔
عالم صاحب نے بتایا کہ اس کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے۔ ٹھنڈے علاقے کے لوگوں نے سردی کے موسم کی مناسبت سے کرسمس کا تہوار منایا جس میں برفانی علاقوں کے درخت کرسمس ٹری، رینڈیئر (بارہ سنگھے کی ایک قسم) اور سانٹا کلاز وغیرہ کے قصے ہیں۔ اس طرح موسم بہار کے لحاظ سے یعنی موسم بہار کی آمد کے موقع پر ایسٹر کا تہوار منایا جاتا ہے جس میں رنگین انڈوں، چاکلیٹ کے بنے ہوئے خرگوش جیسے ایسٹر بنی Bunny کیا جاتا ہے اور اسی موسم میں کھلنے والے پھولوں کی اہمیت Lilly Easterوغیرہ اور ان دونوں تہواروں کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور مصلوبیت سے منسلک کر دیا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر اچھی خاصی تحقیق کی ہے۔
عیدالاضحیٰ کے لیے قربانی کی بکنگ بھی ہو رہی تھی اور نمازوں کی تیاریاں اور نظام الاوقات بھی تقسیم ہو رہے تھے۔ ساتھ ہی ہالی ووڈ سے ریلیز ہونے والی ایک دل آزار فلم کےخلاف پملفٹ بھی تقسیم ہو رہے تھے۔ جس میں مسلمانوں کو ایک وحشی اور دہشت گرد قوم دکھایا گیا ہے۔
عیدالاضحیٰ کا سب سے بڑا اجتماع سکائی ڈوم میں ہوا یہ دنیا کے بلند ترین ٹاور سی این ٹاور کے پاس ہے اور شمالی امریکہ کا سب سے بڑا اندرون خانہ سٹیڈیم ہے۔ اس کے چھت کی خوبی یہ ہے کہ یہ بیچ سے دونوں طرف سلائیڈ جاتا ہے اور یوں کھلی چھت بن جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ عیدالاضحیٰ کی صبح فجر کی اذان سی این ٹاور سے دی جائے گی۔ اذان کے متعلق تو معلوم نہ ہو سکا لیکن نماز عید میں لگ بھگ تیس ہزار مسلمان مردوں اور خواتین کا اجتماع تھا تمام لوگ عید کے زرق برق لباسوں میں تھے۔
ہر ملک اور نسل کے مسلمانوں نے اپنے علاقائی بہترین لباس پہنے ہوئے تھے۔
یہاں کے معاشرے میں اب جب مسلمان کی پہچان ہو گئی ہے وہاں آئے دن کافی لوگ مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں۔ طارق مسجد کے اجتماعات کے اختتام پر اسلام قبول کرنے والے لوگ ہوتے تھے اور ان کے قبول اسلام پر اللہ اکبر کے نعرے لگتے تھے۔
حلال گوشت کی دکانیں جابجا ہیں۔ حلال بیف اور حلال Kentuckyبھی ملنے لگا ہے۔
ٹورنٹو میں افغانی مسلمان کافی تعداد میں ہیں یہ باہمت لوگ یہاں کے معاشرے میں بھی مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک بارہ سالہ افغانی لڑکے نے اپنے سکول ٹیچر کو اتنا متاثر کیا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ تو صرف ان تاثرات کانچوڑ ہے جو کہ میں نے خود دیکھے یا محسوس کیے۔ مجموعی طور پر شمالی امریکہ میں اثرات کہیں زیادہ ہیں۔ اگرچہ میڈیا کا مسلمان مخالف پروپیگنڈہ بھی ہے لیکن وہ دن دور نہیں ہے جب مسلمان انشاء اللہ یہاں کی ایک قوت بن کر ابھریں گے۔
یہاں کی مساجد کے حوالے سے ایک بات کروں گی کہ مساجد عبادت گاہ کے ساتھ کمیونٹی سینٹر اور مسجد سکول کا بھی درجہ رکھتے ہیں۔ طارق مسجد ٹورنٹو میں اندر باسکٹ بال اور دوسری اندرون خانہ کھیل کھیلنے کے انتظامات بھی تھے اور ایک جمنیزیم بھی تھا۔ اجتماعات بڑے ہونے کی صورت میں ان کی بھی شامل کر دیا جاتا تھا تاکہ جگہ بڑی ہو جائے اور انہیں باتوں میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی رہتا تھا۔ انشاء اللہ العزیز وہ دن دور نہیں کہ اسلام کی روشن کرنیں یہاں کے بے دین معاشرہ کومزیدمتاثر کر دیں گی۔
عابدہ
JAZAKUMULLAHO KHAIRAN KASEERAH
KHUBSURAT TEHREER HAI
SHAK NAHIN HAI KE ISLAM TARAQQI PAR HAI ALLAH MUSALMON KO BHI ISLAM KE SAATH TARAQQI DE AAMEEN