تحریر شازیہ عندلیب
پوری دنیا میں نارویجن قوم سے ذیادہ رحمدل قوم کوئی نہیں۔یہ تو سب جانتے ہیں مگر نارویجن ڈاکٹر میڈز گلبرٹ نے مظلوم فلسطینی بچوں کے زخموں پر مرحم رکھ کر اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیان دے کر اعلیٰ انسان دوستی کا ثبوت دیا ہے۔انہوں نے یہ ہمدردی زبانی کلامی نہیں کی بلکہ فلسطین کے جنگی علاقوں کے ہسپتالوں میں ان بچوں کی مرہم پٹی کی انکا علاج معالجہ کیا۔ایک زخمی فلسطینی بچے کی حالت دیکھ کر جب ڈاکٹر گلبرٹ آبدیدہ ہو گئے تو اس بچے نے انہیں یہ کہہ کر تسلی دی کہ آپ نہ گھبرائیں ہمارے لیے تو یہ عام سی بات ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران بھی اسرائیلی مظالم کی بھرپور مذمت کی۔جبکہ نارویجن وزیرخارجہ برینڈے نے بھی اسرائیل کی اس بے رحمی پر غصہ کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر میڈز فریڈرک گلبرٹ Mads Fredrik Gilbert نارویجن ڈاکٹر اور سیاستدان ہیں۔وہ جنوبی یونیورسٹی ہسپتال میں اینیستیھزیا اور ایمرجنسی میڈیسن کے اسپیشلسٹ ہیں۔جبکہ وہ تھرومسو یونیورسٹی میں ایمرجنسی میڈیسن کے مضمون میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔انہوں نے سن دو ہزار چھ سے لے کر اب تک کیسر جیسی مہلک بیماری پھیلانے والے بموں کے استعمال کی نشاندہی کی ہے اور اسکی مذمت کی ہے۔
پورے ناروے میں نارویجنوں اور غیر نارویجنوں نے مل کر غزہ میں اسرائیلی حملوں کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے اور اسرائیلی کمپنیوں سے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔نارویجنوں نے ان اسرائیلی بچوں سے بھی اظہار نفرت کیا ہے جو بموں پر فلسطینی بچوں کے نام پیغامات لکھ کر بھیج رہے تھے۔اسرائیلی شروع سے ہی اپنے بچوں کو فلسطینی بچوں سے نفرت کا سبق سکھاتے ہیں۔جبکہ نارویجن اپنے بچوں کو پوت پالنے سے ہی ہمدردی کا سبق دیتے ہیں۔سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے یہی نارویجن بچے بڑے ہو کرپوری دنیا کے مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں۔ایسے معاشرے ہی ڈاکٹر میڈز گلبرٹ جیسے عظیم مسیحائوں کو جنم دیتے ہیں۔جبکہ مسلمان معاشروں میںہمدردی کی تھیوری توموجو دہے مگر اس تھیوری کا پریکٹیکل حصہ موجود نہیں ہے۔س کی وجہیہ ہے کہ مائیں بچوں کو جس ہمدردی کا سبق دیتی ہیں وہ ان بچوںکو کہیں دکھائی نہیں دیتی۔جو چیز انہیںملی ہی نہ ہو ایک بچہ اسکا مظاہرہ کیسے کر سکتاہے۔بلک ہمارے بعض دیہی علاقوں میں تو مائیں اپنے بچے دشمن سے انتقام کے لیے پالتی ہیں۔وہ اپنے بچے کو یہ سبق دیتی ہیں کہ وہ بڑا ہو کر اپنے دشمن سے بدلہ لے پھر یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا چلا جاتاہے اور ایسے خاندان معاشرے کو جرائم کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔لیکن وہ مائیں جواپنے بچوں کو عملی ہمدردی کا سبق سکھاتی ہیں تو پھر عبدالستار ایدھی جیسے ہمدرد اور بے مثال انسان جنم لیتے ہیں ۔
ہمارے اسلامی معاشرے میں اگر بد قسمتی سے کوئی بچے اپنی سگی ماں سے محروم ہو جائیں تو سوتیلی مائیں ایسے ایسے مظالم ڈھاتی ہیں کہ روح تک کانپ جاتی ہیں۔یہ مائیں اپنے سگے بچوں کے لیے تو بہت ہمدرد ہوتی ہیں مگر سوتیلے بچوں کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کرتی ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ خاندان کے افراد یہ ظلم ہوتے دیکھتے رہتے ہیں گویا وہ بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔کیا ایسی ماں کسی اسرائیلی ماں سے کم ہے۔ایسی مائیں ڈاکٹر میڈز گلبرٹ جیسے ڈاکٹر جنم نہیں دے سکتیں۔ایسی بے رحم مائوں کے بچے ظالم داکٹر تو بن سکتے ہیں مگر رحمددل مسیحا نہیں بن سکتے۔
ڈنمارک سے سدف مرزا نے بتایاکہ ان کی بیٹی بھی ڈاکٹر میڈز سے ملی تھی اور ا س نے انہیں عظیم ڈاکٹر قرار دیاتھا۔ایسے ہمدرد لوگوں کے ساتھ کام کرے والے بچے بھی عظیم کارنامے سر انجام د سکتے ہیںنہ کہ طالم مائوں کے سائے میں پلنے والی نسلیں!!!کاش میری قوم بھی اس نارویجن ڈاکٹر سے سبق حاصل کرے اور اپنے اصلاف کی طرح دنیا کے ہرظلم کے خلاف آواز اٹھا سکے۔کاش میرے وطن کے ہر شخص کے سینے میں عبد الستار ایدھی جیسا ہمدرد دل دھڑکے۔اے کاش میری ہم وطن مائیں ٹیپوسلطان جیسے بہادر سپوت پیدا کریںاور مدر ٹریسا جیسے جذبات رکھیں۔کاش میری قوم کا ہر ڈاکٹر، ڈاکٹر میڈز گلبرٹ جیسا ہمدرد بن جائے۔کاش اسرائیلی مائیں اپنے بچوں کو نارویجن مائوں کی طرح ہمدردی سکھائیں۔اے کاش ہمارے عرب بھائی غفلت کی نیند سے جاگ جائیں،اور اپنے حجلہء عروسوں اور حجروں سے نکل کر اپنے مظلوم ہمسایہ ملک فلسطین کی مدد کریں۔ شکریہ اے ڈاکٹر میڈز گلبرٹ میں اور میری قوم آپ کی ہمدردی اور عظمت کے احسان مندہیں۔
بےحدشکریە شازیە اس ڈاکٹر کی عظمت اس المناک اور دردناک موقع پر ناقابل بیان ہے ۔ میں اسکی بڑائ کی بےحد مداح ہوں اسکی عظمت کو سلام۔۔۔
براہ مہربانی اپنا تبصرہ ٹائپ کریں۔:خرابِی
Syed Nadeem Hussain
ڈاکٹر گلبرٹ کی مان میری مریضہ تھی اور اس سلسلے میں ڈاکٹر گلبرٹ سے متعدد ملاقاتیں بھی ھوئیں اور فون پہ بھی بھت رابطہ رھا۔ واقعی وہ ایک عظیم انسان ھے۔ وہ یہاں بھی ھر وقت کسی نہ کسی بے انصافی کے خلاف بولتا ھی رھتا تھا۔ مُجھے خطرہ کہ اسرائیلی اسے کسی نہ کسی طرح نقصان ضرور پہنچائیں گے۔ کوئی ٹیکس کا کیس، کوئی کسی مریض کی بات یا اس پہ ڈائریکٹ حملہ۔ اسرائیلی Terje Røed Larsen کے ساتھ ایسا کر چُکے ھیں۔ اس نے صرف اتنا کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں ظلم کیا ھے۔ اسے کُچھ دنون بعد ٹیکس چور قرار دے کے تمام عہدوں سے ھٹا دیا گیا۔ وہ لیبر پارٹی سے تھا اور مشرق وسطٰی کے لیئےاقوام متحدہ کاخصوصی مائندہ تھا۔ اٰسکا کیریئر ھی ختم ھو گیا۔ لیکن ڈاکٹر گلبرٹ بہت بولڈ آدمی ھے۔
جی ڈاکٹر ندیم صاحب یہ تو آپ کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ اتنے عظیم اور ہمدرد شخص کی ماں کے معالج ہیں۔یقیناً یہ ماں لائق تحسین ہے۔یہ واقعی بے حد تشویشناک بات ہے کہ ڈاکٹر گلبرٹ کوکوئی نقصان نہ پہنچ جائے ۔ہم سب اس نیک دل انسان کے لیے دعا گو ہیں کہ ہم اس کے سوا تو کچھ کر بھی نہیںسکتے۔جن لوگوں کو فلسظینی بچوں کے زخموں پر مرحم رکھناچاہیے وہ تو بے حسی کی تصویر بنے ہیں اور یہ جن سے کوئی رشتہ نہیں اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔