Mussarat Jan
مسرت
پی ایچ ڈی اسکالر
شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر
شکیل الرحمن فکشن کے ایک ممتاز نقاد ہیں۔١٩٦٠ء میں فکشن کی دنیا میں داخل ہوکر انہوں نے فکشن کی تنقید میں نئی روح پھونک دی۔شکیل الرحمن اندے مقلد نہیں ہیں وہ پھونک پھونک کر اپنے مطالعے کو آگے بڑھاتے ہوئے فن کی حقیقی روح تک پہنچنے کی مسعات کرتے ہیں۔شہرت یافتہ فنکار پریم چند کے متعلق ان کی تصنیف ”فکشن کے فنکار پریم چند” نے فکشن کی تنقیدی تصانیف میں اپنی انفرادیت و اہمیت کالوہا خواب منوایا ہے ۔بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی تصنیف ہے لیکن یہ ایک بہت بڑے فنکار کے فن پاروں کاایک خوبصورت و جامع تجزیہ ہے جس میں شکیل الرحمن نے مروجہ تنقیدی رویۂ سے یکسر الگ ہوکر پریم چند کے فن اور شخصیت کاتجزیہ اپنے مخصوص جمالیاتی اور نفسیاتی زاویہ سے کیاجس سے پریم چند کی تخلیقات کاہی نہیں بلکہ پورے فکشن کی تنقید کامعیار متعین ہوتاہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چندکی افسانوی تخلیقات کا بعد از غائر مطالعہ چند عنوانات کے تحت نہایت اختصار کے ساتھ ایسا عمدہ جائزہ پیش کیا ہے جو سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔کتاب کے سرورق سے ہی شکیل الرحمن اپنی منفرد ناقدانہ بصیرت کااحساس دلاتے ہیں جب ناقدین کی عام رائے سے اختلاف کرتے ہوئے پریم چند کو بڑے ناول نگار کی حیثیت سے نہیں بلکہ بڑے افسانہ نگار کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”منشی پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار ہیں’ بڑے ناول نگار نہیں ہیں…… ابھی تک ان کے افسانوی کاگہرا احساس پیدا نہیں ہواہے” ۔
” فکشن کے فنکار۔ پریم چند” ص۔١١
پریم چند کی ناول نگاری سے زیادہ شکیل صاحب ان کی افسانوی تخلیقات کے قائل ہیں بہ وجہ یہ کہ افسانوی تخلیقات میںانہیں تخلیقی فضا ملتی ہے۔ حقیقتوں کاتخلیقی اظہار ملتاہے فنی او ر جمالیاتی قدروں کی پاسداری ملتی ہے۔اسلوب جذباتی یاکسی تصور سے متاثر نہیں ہے بلکہ فنکار کے بطن سے پھوٹتا ہوا نظر آتاہے گویا وہ تمام فنی خوبیاں پریم چند کی افسانوی تخلیقات میں دکھائی دیتی ہیں جنہیں وہ فکشن کے فن پارے میںدیکھنے کے متمنی ہیں۔بقول شیخ عقیل صاحب:
”شکیل الرحمن فکشن میں فنی جمالیات کے قائل ہیں ان کے نزدیک فکشن میں موضوع سے زیادہ اہم فن ہے” ۔
”پریم چند۔فکشن کے فنکار” ص۔٢٥٤
پریم چند کی تخلیقات کاجائزہ لے کر شکیل صاحب نے ”تیسرے آدمی” کو دریافت کرکے او ر اسے فکشن کا اصل ہیرو قرار دیتے ہوئے فکشن کی تنقید میںایک نئے باب کا اضافہ کیاہے جس کے متعلق حقانی القاسمی صاحب لکھتے ہیں:
”یہ بیان ہیرو کے روایتی تصور پر ایک کاری ضرب ہے فکشن کے اصل ہیرو کی تلاش کے اس عمل نے شکیل الرحمن کی فکشن کی تنقید کو ایک نیا تحرک او رزاویہ بخشا ہے”۔
”فکشن کے فنکار ۔ پریم چند او رشکیل الرحمن”
تیسر ے آدمی کی اہمیت او راس کی موجودگی کااحساس خودشکیل صاحب یوں دلاتے ہیں:
”سماجی اور معاشرتی زندگی میں یہ شخصیت غیر معمولی ہوتی ہے اسے کسی لمحہ نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں”۔
شکیل الرحمن ”تیسرے آدمی” کو ایک معمع کہتے ہیں اس لیے کہ وہ زندگی کے مختلف مرحلوں پر مختلف روپ دھارتاہے۔تیسرا آدمی ایک ہی کردار میں داخل ہوکر مختلف کردار نہیں نبھاتا ہے بلکہ ہر کردار حسب ضرورت و منشا تیسرے آدمی کا بھیس بدلتاہے جیساکہ خودشکیل صاحب لکھتے ہیں:
”تیسر ا آدمی خواجہ اہل فراق بھی ہے او رخضر راہ بھی رقیب بھی ہے او ردوست بھی ‘ اس کی دوستی او ررقابت سے قصہ آدم رنگین بنتا ہے”۔
”فکشن کے فنکار ۔ پریم چند” ص ۔٣٤
تیسرے آدمی کی تلاش شکیل الرحمن محض پریم چند کی تخلیقات میں ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک پورے فکشن میں اسی کے دم سے سارا رنگ و آہنگ قائم ہے اور یہی خارجی وداخلی زندگی کامحرک و مظہر کا باعث بھی ہے۔
تیسرے آدمی کے بعد شکیل صاحب”تیسرے طاقت”(The Third Force)کو نمایاں کرتاہے جسے افسانوی کرداروں کی زندگی بہت متاثر نظر آتی ہے۔”تیسرے طاقت” میں چند افراد مل کر اپنے آپ کو مذہبی وسماجی فلاح وبہبود کے نام پر جماعت کی صورت میںایک مضبوط طاقت بن کر کہیں انفرادی تو کہیں اجتماعی زندگی کو اپنی گرفت میں لے کر اپنے مفاد کے خاطر ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جس کے اثرات افسانوی کرداروں کی زندگی پر مرتسم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
شکیل الرحمن تیسرے آدمی یا تیسری طاقت کو دریافت کرتے ہوئے اصل میں پریم چند کی بصیرت امروزی و فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں جنہوں نے اپنے مطالعے ومشاہدے او رتخلیقی عمل سے کام لے کر اپنی کہانیوں میں سماجی زندگی کے بہت سارے پیچیدہ و پوشیدہ پہلوؤں کو آشکار کیاہے جیسا کہ یوں لکھتے ہیں:
”پریم چند کا تیسرا آدمی بنیادی حقیقتوں کی جانب اشارہ کرتاہے ‘انسانی نفسیات کو نمایاں کرتاہے’ جبلتوں کا آزادانہ اظہار کرتاہوا ملتاہے’اسی کے ذریعہ انسانی نفسیات کے کئی پہلو اورگوشے نمایاں ہوتے ہیں ۔فطرتِ انسانی کی کوئی نہ کوئی سچائی ظاہر ضرور ہوتی ہے جس سے فنکار کے مشاہدے کی باریکیوں کاانداز ہوتاہے”۔
”فکشن کے فنکار پریم چنداور شکیل الرحمن صفحہ نمبر٥٦”
شکیل الرحمن غالباً وہ واحد نقاد ہیں جنہوں نے پریم چند کی کہانیوں میں نسوانی کردار وں کی اندرونی زندگی کا غائر مطالعہ کیا’یہاں وہ ایک Faministکی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔”عورت” کے عنوان کے تحت انہوں نے ایک باب مختص کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے مختلف روپ او رمسائل کو ابھارنے کی کامیاب سعی کی ہے۔”دو بہنیں کی کہانی” میں روپ کماری کی نرگسیت’شعور او رلاشعور کی کشمکش” بازیافت” کی عورت میںشعور کابہاؤ اور خود کلامی’ ”حسرت” کی نرگسی عورت کے نفسیاتی سکون کی عکاسی او ر”زاد راہ” کی مس پدما کی نفسیات او ر بنیادی جبلت کو پیش کرتے ہوئے شکیل صاحب ایک عورت کی بنیادی فطرت او رنفسیات کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔
شکیل صاحب پریم چند کی تخلیقات میںعورت کی نفسیاتی زندگی کاہی تجزیہ نہیں کرتے ہیں اس عورت کو بھی خوب ابھارتے ہیں جو خارجی زندگی میںگھریلو فضا کو خوشگوار رکھتی ہے۔شوہر کے لیے ایک دیوی کا روپ دھارتی ہے’شرم و حیا کا مجسمہ بنتی ہے’ظلم و جبر کے خلاف سراپا احتجاج کرتی ہے ۔طوائف و نوکر کاکام دیتی ہے’اوتار او ررہنماؤں کو جنم دیتی ہے’مذہب او روطن کے لیے خودکو نثار کرتی ہے’اپنے گونا گوں اوصاف سے انفرادی و اجتماعی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔مختلف تحریکوں او رشعبوں کی نمائندگی کرتی ہے۔جیسا کہ پریم چند کے یہاں عورت کے دوسرے کردار کو ابھارتے ہوئے لکھتے ہیں:
”پریم چند کے افسانوں میں عورتوں کے جو دوسرے کردار ملتے ہیں وہ پریم چند کے بنیادی نظریات کے پیکر ہیں’فنکار کی اصلاح پسندی کے تصور کے تناظر میں ابھرتے ہیں او رمعاشرتی مسائل’ موجودہ اقدار اور طبقاتی زندگی کے ہنگامی لمحات کی نمائندگی کرتے ہیں”۔
”فکشن کے فنکار۔پریم چند ص ٩٥”
شکیل الرحمن اپنی تصنیف کا ایک حصہ”بچے کاذہن” کے عنوان سے منتخب کرکے ایک “Child Psychatrist”کی حیثیت سے بھی سامنے آتے ہیں۔اس حصے میں انہوں نے دلائل کے ذریعہ واضح کیاکہ پریم چند بچوں کی ذہنی او رنفسیاتی زندگی کابھی ایک بہت بڑا فنکار ہیں۔ان کی تخلیقات میںپیش کردہ بچوں کے حرکات و سکنات’عادات و اطوار او ربول چال کا جائزہ لے کر ان کی اندرونی زندگی کا آئینہ دکھایا۔کہانی”رام لیلا” کا تجربہ کرکے شکیل الرحمن بچے کی نفسیاتی رد عمل کو ابھارتے ہیں۔”قزاقی” میں بچے کے نفسیاتی سکون’ ذہن میں نئی فضا کی تشکیل صدمہ’آرزو مندی’ اداسی’المیہ’ احتجاج’ ذہنی آسودگی جیسے پہلوؤں کو نمایاں کیاہے۔ اسی طرح نئی ماں’ حج اکبر’بوڑھی کاکی’ عید گاہ’ موسی’ دوبیل’ دودھ کی قیمت وغیرہ افسانوی تخلیقات کابغور مطالعہ کرکے بچے کی خارجی وداخلی زندگی کے گونا گوں پہلوؤں کو اجاگر کیاہے ۔نیز بڑوں کے برتاؤ’ماحول کے اثرات اور سماجی حالات سے بچوں کی ذہنی ‘نفسیاتی زندگی پر جو اثر پڑتا ہے اسے بھی واضح کیاہے۔
پریم چند کے یہاں شکیل الرحمن کو ”کھلاڑی پن” کا بھی واضح تصور ملتاہے اس تصور کے اعتبار سے انہیں شکیل الرحمن شیکسپیئر کے ہم خیال نظر آتے ہیںکہ زندگی ایک اسٹیج کی طرح ہے (Life is like a stage)پریم چند زندگی کو کھیل سے تشبیہہ دے کر ایک طرف اس کی ناپائیداری کااحساس دیتے ہیں تودوسرے جانب زندگی کی کھیل کو ہار و جیت کی پرواہ کئے بغیر کھیلنے کی ترغیب دیتے ہیں جس کے متعلق شکیل الرحمن یوں لکھتے ہیں:
”پریم چند جن واقعات سے گزرے ہیں انہیں کھیل تصور کرتے ہیں……. وہ کھیلنے میں کوتاہی کے قائل نہیں ہیں۔یہ ان کی زندگی کا بنیادی تصور ہے……پریم چند کے بعض کردار بھی زندگی کو کھیل سمجھتے ہیں……. بھون’موہن داس گپتا’ پدما’ امرت’ شاردا چرن’ بازیافت کی عورت’ گھیسو’ مادھو’ سوجان بھگت’ سب کھلاڑی ہیں اور ”کھلاڑی پن ” کے تصور کی مختلف جہتوں کو پیش کرتے ہیں”۔
(فکشن کے فنکار پریم چند او رشکیل الرحمن صفحہ نمبر ١١٩)
شکیل الرحمن ‘ پریم چند کی تخلیقات کامطالعہ کرکے ایسے بے شمار کرداروں سے متعارف کراتے ہیں جن کے عمل سے کہانی میں ذہنی کشمکش’نفسیاتی تصادم’ قدروں کا زوال او رالمیہ پیداہوتا ہے۔کفن کے مادھو اور گھیسو المیہ کرداروں کی صف میں سر صف ہی ہیں۔ جن کی نفسیات میں جھانک کر شکیل صاحب ان کے اندر ابھرتی ہوئی اس جذباتی آسودگی کامظاہرہ کرتے ہیں جو انہیں شراب پینے کے بعد ناچ گانے میں محسوس ہوئی ہے۔یہاںشکیل الرحمن’ پریم چند کی فنی صلاحیتوں کو بے حد سراہاتے ہیں کہ انہوں نے چند کرداروں کو مرکز بناکر پورے سماج میں موجودہ خرابیوں کی نقاب کشائی کی ہے جیسا کہ لکھتے ہیں:
”مادھو او رگھیسو کی سائیکی کو جو المیہ او راس کے جواہر کو نمایاں کرتی ہے کسی محاورے سے نہیں سمجھا تا جاسکتا ہے ‘ یہ جتنی گہری ہے اتنی ہی تاریک بھی ہے ‘ یہ دونوں کردار مجرم نظر آتے ہیں لیکن یہ ایسے مجرم نہیں ہیں کہ ان کے زوال کی تمام ذمہ داری ان کے عوامل پر عاید ہوتی ہو۔ معاشرہ او راپنی قدروں کے ساتھ ملزم و مجرم محسوس ہوتاہے او رالمیہ کے زوال کا ذمہ دار! یہ کردار تو معاشرے کی خرابیوں کے محض حصہ دار نظر آتے ہیں”۔
(فکشن کے فنکار پریم چند صفحہ نمبر ١٣٤)
مادھو او رگھیسو کے علاوہ ایسے کرداروں کی ایک لمبی قطار دیکھنے کو ملتی ہے جن کے المیہ میں شکیل صاحب حُسن ڈھونڈ نکالنے کی مساعی کرتے ہیں۔اس اعتبار سے قریباً شکیل صاحب پہلا نقاد ہیں جنہوں نے فکشن کی تنقید کرتے ہوئے پہلی بار کرداروں کے المیہ میں جمالیات کی تلاش کی ہے۔انہیں اس المیہ میں فن کاحسن نظر آتاہے جوقاری کے جذبات وکیفیات کو تحرک وتاثر عطا کرے او ریہ حسن پریم چند کے یہاں بدرجہ اتم موجودہے جس کے متعلق موصوف یوں لکھتے ہیں:
”اردو افسانوں کے المیات پر تیز او رگہری روشنائی سے دستخط کرکے پریم چند نے اردو فکشن میں پہلی بار المیہ کے حسن کاشعور بخشا ہے”۔
(فکشن کے فنکار پریم چند او رشکیل الرحمن صفحہ نمبر٣٠١)
پریم چند کی افسانوی تخلیقات کو تکنیک کے اعتبار سے بھی شکیل صاحب مکمل سمجھتے ہیں ۔ پریم چند نے اپنے افسانوں میں جو تکنیک اپنائی ہے وہ کہانی کے موضوع ‘ مزاج او رفضا کے لیے غیر مانوس نہیں ہے بلکہ ہر اعتبار سے موزوں و مناسب ہے ۔تکنیکی حسن فنکار کے نفسیاتی مشاہدوں’ مرکزی خیال’ ترتیب واقعات او رانداز بیاں میں بھی اس قدر ملتاہے کہ قاری شروع سے آخر تک اس کی سحر انگیزی سے مسحور رہتاہے۔بقول حقانی القاسمی صاحب:
”پریم چند نے ابتدائیہ او راختتامی لمس کے لیے جو تکنیک استعمال کی وہ کہانی کی فضا او رمزاج کے موافق ہے ‘کہانی کا آغاز کیسا ہوا’ انجام کیسا ہوا ابتدائ’ انتہا دونوں ہی سطح پروہ جمالیاتی پہلوؤں کاخیال رکھتے ہیں۔کہانی ڈائری کی تکنیک میں لکھی ہو یا مکتوب نگاری کی شکل میں یا ڈرامائی اسلوب یا انداز میں’انہوں نے قاری کو اجنبیت کااحساس نہیں ہونے دیا’ بلکہ زنجیر کے طلسم میں قاری کو باندھے رکھاہے”۔
(فکشن کے فنکار پریم چنداور شکیل الرحمن صفحہ نمبر ١٣٤)
شکیل الرحمن نے پریم چند کے کثیر الجہات اسلوب سے بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ پریم چند کے یہاں انہیں فنی’موضوعاتی او رنقطۂ نگاہ کے تصادم کی بناء پر اسلوب کی مختلف جہات خلق ہوتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ان کے اسلوب میں پیکر تراشی’ فینتاسی’داستانی عناصر او راساطیری رنگ نمایاں ہے ۔نیز تاثراتی علامتی اور اشاراتی انداز بھی ملتا ہے ۔ان کی تخلیقات کاحسن بلند خیالی’ نظر کی گہرائی وگیرائی’معنی خیز جملوں’ فکر انگیز فقروں’ تشبیہات’غور طلب مقولے او رلفظیات کے خوبصورت برتاؤ نے دوبالا کردیا۔
پریم چند کے یہاں تجربوں او رتکنیکی تقاضوں کے عین مطابق اسلوب کی تخلیق ملتی ہے ۔ان کی ذہنی’ جذباتی اور پیکر تراشی کی عمدہ تصویریں اسلوب کے حسن وجمال سے نمایاں ہوگئی ہیں۔ الغرض یہ کہ پریم چند کے یہاں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو ان کے اسلوب کو ایک طرف روایت سے منسوب کرتے ہیں تودوسرے جانب ان کی انفرادیت بھی اپنی جگہ مسلم رہتی ہے جس کے متعلق حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
”پریم چند نے اپنا اسلوب خلق کیاہے جس میں قوت بھی ہے ‘ شدت بھی ‘ شیرینی بھی ہے شوخی بھی’ فصاحت وبلاغت بھی ہے اورطبقاتی لب ولہجہ بھی’عربی ‘فارسی ‘ہندی’ تینوں کاخوبصورت امتزاج بھی ہے ۔شکیل الرحمن نے پریم چند کے اسلوب کامکمل او رمتوازن تجزیہ کرتے ہوئے ان کے اسلوب کو منفر د او ر اردو اسالیب کی ایک مضبوط کڑی قرار دیاہے”۔
(فکشن کے فنکار پریم چند اور شکیل الرحمن صفحہ نمبر ١٣٤)
کتاب کے آخر میں شکیل صاحب نے پریم چند کی شخصیت کا عمدہ او رحقیقت پسندانہ جائزہ پیش کیا ہے فنکار پریم چند جو ٣١ جولائی١٨٨٠ء میں بنارس میں پیداہوئے۔نام دھنپت رائے او رادبی حلقوں میں منشی پریم چند کے نام سے مشہور ہوئے۔ ادبی حلقوں میں پریم چند کے نام سے انہوں نے اپنی ذہنی افق اور قوتِ قلم سے فکشن کی تنگ دامانی کو وسعت او راعتبار بخش کر١٩٣٦ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔
شکیل الرحمن نے بڑی بے باکی سے پریم چند کی اصل شخصیت کو سامنے لایا اور ان تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی جن سے ان کی شخصیت تشکیل ہوئی ہے۔شکیل صاحب کے نزدیک پریم چند ایک فرشتہ خصلت شخصیت نہیں ہیں بلکہ ایک گوشت پوست انسان کی شخصیت ہیں جس میں خوبیوں او رخامیوں کاامتزاج ملتا ہے۔شکیل الرحمن یک رخی تصویر پیش نہیں کرتے بلکہ ان کی زندگی کے ان تمام مرحلوں سے آشنا کراتے ہیں جن سے دھنپت رائے کی شخصیت گزر کر پریم چند کے روپ میں سامنے آئی ہے۔شکیل الرحمن پریم چند کی سادگی’دیانتداری’انسانی دردمندی’ خلوص کو قابل تحسین قرار دیتے ہیں لیکن محض ان ہی اوصاف کو پریم چند کی کل کائنات سمجھنا عین انصاف نہیں ہے جیسا کہ دوسرے ناقدوں نے سمجھ لیا جن کے متعلق یوں لکھتے ہیں:
”ان کی ذات میں یہ باتیں یقینا بڑی ہیں’ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر رام بلاس شرما’ ڈاکٹر اندر ناتھ مدان’ڈاکٹر رام کرشن بھٹناگر او رہنس راج رہبر سماجی او ر اصلاحی نقطۂ نگاہ سے ان باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔لہٰذا پریم چند کی شخصیت ایک سیدھی لکیر کی مانند سامنے آتی رہی”۔
شکیل الرحمن اس بات سے متفق نہیں ہے کہ پریم چند کی زندگی ہموار میدان کی طرح ہو بہ وجہ یہ کہ جس فنکار کی شخصیت زندگی کی تلخ تجربوں او رانفرادی و اجتماعی طور پر نامساعد حالات سے تشکیل ہوئی ہوگی اس صورت میں فنکار کی شخصیت سیدھی لکیر کی مانند تسلیم کرنا نا ممکن ہیں جس کے متعلق لکھتے ہیں:
”پریم چند کی دردمندی’ان کاخلوص’ شخصیت کی سادگی ‘ یہ سب یقینا انہیں بلند کرتی ہیں لیکن زندگی کے سفر میں جو ناکامی ‘ تلخ تجربے ہیں او ران سے پیدا شدہ تاثرات او رعوامل ہیں بھلا انہیں کس طرح نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے تجربے گوشت پوست کے ایک ایسے انسان کے تجربے ہیں جو حساس بھی ہے اپنی نگاہ بھی رکھتا ہے ا و رنفسیاتی گتھیوں کو خود مختلف سطحوں پر سلجھانے کی کوشش کرتا ہے مجھے یہی پریم چند پسند ہیں جو اپنی خوبیوں او رکمزوریوں او راپنی نفسیاتی کیفیتوں اور نفسیاتی عوامل سے پہچانے جاتے ہیں”۔
(فکشن کے فنکار پریم چند صفحہ نمبر ١٨٩)
مسرت جان
پی’ایچ’ڈی اسکالر
شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی
9906603512
رجسٹریشن نمبر۔11155-AW-2003
ژژژژژ