تحریر ڈاکٹر عارف محمودکسانہ سویڈن
شیخ مظفر بلا شبہ یورپ میں اردو صحافت کا ایسا روشن ستارہ تھے کہ جس سے بہت سے لکھنے والے رہنمائی لیتے تھے۔ اُن کی تحریر وں میں اردو زبان و ادب کے قواعد کی پاسداری ملحوظ خاطر ہوتی تھی اور الفاظ ایسا چنائو کرتے تھے کہ اُن کی تحریر سہل اور عام فہم ہونے کے ساتھ عامیانہ انداز سے بھی مبرا ہوتی تھی۔ اردو، انگریزی اور جرمن زبان پر اُن کی دسترس، آزاد غیر جاندارانہ اور لالچ سے پاک صحافت کے وہ علمبردار تھے۔میرے ان سے تعلق کی مدت اگرچہ زیادہ نہیں ہے مگر کم عرصہ بہت قربت کا رہا جس میں ان کی نا قابل فراموش شفقت اور محبت ملی۔میرا اُن سے مسلسل رابطہ رہا اور وہ بھی اکثر خود ہی فون کرلیا کرتے تھے۔ حسن اتفاق ہے کہ دو اکتوبر کو میرے والد مرحوم کی انتیسویں برسی تھی۔ ہم اہل خانہ اُن کی یاد میں افسردہ بیٹھے تھے اور ابھی فاتحہ خوانی سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ فرینکفرٹ سے شیخ جاوید اللہ نے فون پر اُن کی رحلت کی ایسی خبر دی کہ اُس نے دکھی دل پر گہری چوٹ ہوئی۔ یہ کیسے ہوگیا مجھے تو یقین نہیں آرہا تھا۔ میں نے ٢٧ ستمبر کو اُن کے موبائل پر فون کیا لیکن اُن سے بات نہ ہوسکی لیکن بعد میں انہوں نے ایس ایم ایس کیا کہ ” آپ کا فون نہیں سُن سکتا معذرت خواہ ہوں ۔کچھ سانس کی تکلیف ہے۔ صحت بہتر ہونے پر بات ہوگی۔ شکریہ” اُن کا فون نہ آیا بلکہ اُن کی دنیا سے ہی چلے جانے کی اطلاع آئی۔
شیخ مظفر صاحب اور میں دونوں ایک طویل عرصہ سے جنگ میں لکھ رہے تھے اس وجہ سے ایک دوسرے کو جاننے لگے لیکن براہ راست رابطہ نہ ہوسکا۔ یہ ٢٠١٠ء کی بات ہے میں اہل خانہ کے ساتھ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی سیاحت کے لیے نکلا۔ فرینکفرٹ میںاپنے دوست جاوید اللہ کے ساتھ خوب سیر وسیاحت کی اور جب شیخ صاحب نے فیس بک پر ہماری تصویریں دیکھیں تو رابطہ کیا اور کہا کہ آپ لوگ فرینکفرٹ سے ہوکر چلے گئے ہیں لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔ میں نے عرض کیا کہ آئندہ جب بھی وہاں آنا ہوا تو آپ کی خدمت میں ضرور حاضرہوں گا۔ ١٩ فروری ٢٠١١ کو فرینکفرٹ میں میلاد کانفرس کے موقع پر بابر چشتی اور دوسرے احباب نے مجھے مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا۔یہ میلاد کانفرس جناب امجد حمید کی صدارت اور ارشاد ہاشمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ شیخ مظفر صاحب کو میرے آنے کا علم ہوا تو وہ بھی چلے آئے اور یہیں اُن سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ مجھے یہ جان کر اور بھی خوشی ہوئی کہ اُن کا تعلق بھی میری طرح شہر اقبال سے ہے بلکہ وہ میرے سُسر جاوید رفیق بھلی مرحوم(سب جج ّآزادکشمیر) کے دوست اور کلاس فیلو تھے ۔ انہوںنے اپنے زمانہ طالب علمی اور کالج کے دور کی بہت سی یادوں سے آگا ہ کیا۔اگلے روز بابر چشتی نے اپنے ہاں ایک اور محفل منعقد کی تھی اور یہاں بھی شیخ صاحب تشریف لائے اوربہت مفید گفتگو رہی۔ اس کے بعد اُن کے اور قریبی تعلق قائم ہوگیا۔
ستمبر٢٠١٢ء کو مجھے اپنے پیشہ وارانہ کام کی غرض سے ہائیڈل برگ یونیورسٹی اور کینسر ریسرچ سینٹر کے مطالعاتی پر جانا تھا۔ انہیں علم ہوا تو کہنے لگے کہ ایک دن ہمارے لیے رکھنا تاکہ ملاقات ہوسکے۔ انہوں نے ٢٢ستمبر کو فرینکفرٹ کے ایک ریسٹورنٹ میں میرے اعزاز میں ایک شاندار عشائیہ دے کر بہت عزت افزائی کی۔ یہ ایک شاندار شام تھی اور یہاں فرینکفرٹ کے معروف پاکستانی عمائدین جن میں نذر حسین، سلیم پرویز بٹ، سید اقبال حیدر، رضواناللہ، بابر چشتی، جاوید اللہ اور دوسرے احباب سے بہت ملاقات رہی۔ شیخ مظفر صاحب کے بڑے صاحبزادے بھی اس محفل میں موجود تھے۔ شیخ صاحب اپنی انسان دوستی، شرافت، اعلیٰ اخلاق اور ملنساری کی وجہ سے جرمنی کی پاکستانی کمیونیٹی میں بہت مقبول تھے اور اُن کا نام بہت عزت سے لیا جاتا ہے۔ میرے دل میں ہمیشہ اُن کے لیے بہت عزت رہی اور انہوں نے بھی بہت شفقت کا اظہار کیااور ہمارا فون اور ای میل سے مسلسل رابطہ رہا۔ دو ماہ قبل انہوں نے مجھے پاکستان کی ساٹھ سالوں سالوں کی تاریخ پر محیط کتاب پاکستان کرونیکل ارسال کی جسے وصول کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے شکریہ ادا کرنے کے لیے فون کیا۔ اس پر شیخ صاحب فرمانے لگے میرے پاس کتاب کے دو نسخے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ دوسرا کسے دوں اور اب مجھے خوشی ہوئی کہ کتاب درست شخص کے پاس گئی ہے۔ شیخ صاحب آپ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے اور آپ کے چاہنے والے ہمیشہ آپ کے لیے دعا گو رہیں گے۔ جب کبھی بھی یورپ میں اردو صحافت کی تاریخ لکھی جائے گی وہ شیخ مظفر کے نام اور خدمات کے تذکرہ کے بغیر نامکمل ہوگی۔ ایک دن سب نے اس فانی دنیا سے رخصت ہونا ہے مگر ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو کبھی بھلائے نہیں جاسکتے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ امین۔