شیروانی اور اردو
یہ خبر تو یہاں نواز شریف کے حلف لینے سے پہلے ہی گردش کر رہی تھی کہ میاں صاحب کے لیے شیروانی تیار کی جارہی ہے جس زیب تن کرکے وہ وزارت عظمی کا حلف لیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور پوری قوم نے ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھا کہ وہ حلف برداری کے موقع پر ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے اپنے قومی لباس میں ملبوس تھے البتہ یہ بات سب کے لیے حیران کن تھی کہ وہ قومی لباس میں ہوتے ہوئے بھی حلف کے الفاظ قومی زبان اردو کے بجائے انگریزی میں ادا کررہے تھے۔ کیا یہ انگریزی سے مرعوبیت کا شاخسانہ تھا! اب ایک اخباری رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ میاں نواز شریف انگریزی سے ہرگز مرعوب نہ تھے وہ اردو میں حلف لینا چاہتے تھے تاکہ پوری قوم ان کے جذبات میں برابر کی شریک ہو اور حلف برداری کی تقریب صحیح معنوں میں ایک قومی تقریب بن جائے لیکن صدر زرداری ان کی اس خواہش میںرکاوٹ بن گئے موصوف نے یہ عذر پیش کیا کو وہ اردو پڑھ نہیں سکتے اس لیے حلف کے الفاظ اردو میں ادا نہیں کر سکیں گے۔ حالانکہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کہ جو شخص اردو روانی سے بولتا ہو اور اپنے دوستوں سے اردو میں گپ شپ لگاتا ہو۔ وہ اردو پڑھنا نہ جانتا ہو، زرداری صاحب کے اس عذر کا توڑ کرنے کے لیے انہیں حلف نامے کا مسودہ رومن میں پیش کرنے کی تجویز دی گئی ۔ یعنی الفاظ تو اردو کے ہوں گے لیکن انہیں انگریزی حروف میں رومن رسم الحظ میں تحریر کیا جائے گا تاکہ وہ بآسانی اسے اردو میں ادا کرسکیں لیکن وہ اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے بالآخر مجبورا میاں صاحب کو انگریزی میں اپنے قومی منصب کا حلف لینا پڑا۔اس واقعہ سے قائداعظم محمد علی جناح بے اختیار یاد آگئے انہوں نے برصغیر میں سیاسی زندگی کا آغاز کیا تو انگریز رئوسا سے زیادہ خوش لباس تھے اور لندن کے بہترین ڈیزائنر کا تیار کردہ سوٹ پہنا کرتے تھے وہ انگریزی بھی انگریزوں سے زیادہ بہترین اور شستہ بولتے تھے لیکن جب برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کا منصب سنبھالا تو سب سے پہلے مسلمانوں کی تہذیبی اقدار سے آگاہی حاصل کی ان کے مذہبی و قومی مزاج کو سمجھا اور پورے شعور و ادارک کے ساتھ خود کو اس مذہبی و تہذیبی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1940 میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد مسلمانوں کے قائد کی حیثیت سے شیروانی اور ایک خاص قراقلی ٹوپی پہننے لگے جو بعد میں جناح کیپ کے نام سے مشہور ہوئی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قومی لباس کا حصہ قرار پائی۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم نے انگریزی لباس بالکل ترک کردیا تھا انہوں نے گورنر جنرل کی حیثیت سے اپنے تمام فرائض منصبی میں قومی لباس کو زیب تن رکھا۔ اردو قائداعظم کی مادری زبان نہ تھی۔ وہ ساری عمر انگریزی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے رہے لیکن مسلمانوں کے قائد کی حیثیت سے وہ اردو کو ہی پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان سمجھتے اور قرار دیتے تھے انہوں نے ڈھاکا جاکر ببانگ دہل اس بات کا اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی، آزاد اور غیور قومیں ہمیشہ اپنے لباس پر بھی فخر کرتی ہیں اور اپنی زبان پر بھی لیکن افسوس قائداعظم کی آنکھ بند ہوتے ہی اس افتخار کو مٹی میں ملا دیا گیا۔ قومی لباس کی جھلک بس خال خال نظر آنے لگی جب کہ اردو کو تو بالکل ہی سرکاری زندگی سے خارج کر دیا گیا۔ آج بے شک اردو ہی پاکستان میں رابطے کی زبان اور چاروں صوبوں کی زنجیر ہے وہ قومی سطح پر بولی پڑھی اور سمجھی جاتی ہے اس میں بہترین ادب تخلیق ہو رہا ہے اس کا دامن علمی ذخائر سے مالا مال ہے لیکن افسوس اسے سرکاری زبان بنانے سے گریز کیا جارہا ہے اور ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے بھی اس کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اس طرح عملا پاکستانی قوم کو بے زبان بنایا جارہا ہے، 1973 کے آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ نفاذ آئین کے دس سال بعد اردو کو قومی و سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کر دیا جائے گا لیکن دس سال کیا کتنے ہی دس سال گزر گئے ہنوز روز ازل والا معاملہ ہے بلکہ ہم مسلسل اپنے موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔میاں نواز شریف ایک قومی لیڈر ہیں ایک زمانے میں انہیں ان کے مداحوں نے قائداعظم ثانی کا بھی خطاب دیا تھا، انہیں قدرت نے پھر قائداعظم ثانی بننے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ کیا وہ لباس اور زبان کے معاملے میں قائداعظم کے وژن کو اپنانے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ لباس کے معاملے میں تو وہ بڑی حد تک قائداعظم کے وژن پر عمل پیرا ہیں اور توقع ہے کہ وزیراعظم کی حیثیت سے بھی اسی وژن کو فروغ دیں گے۔ شیروانی کی جگہ واسکٹ بھی قومی لباس کی علامت ہے جو میاں صاحب بالعموم پہنتے ہیں اس طرح سرکاری افسروں میں بھی یہ کلچر عام ہو گا اور پیپلز پارٹی کے دور میں جن کی گردنیں نکٹائی سے اکڑی رہتی تھیں ڈھیلی پڑجائیں گی۔ لیکن اصل مسئلہ زبان کا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کو قومی زبان کیحیثیت سے ذریعہ تعلیم بھی بنایا جائے اور اسے سرکاری سطح پر تمام دفتری امور میں نافذ کیا جائے اور اسے سرکاری سطح پر تمام دفتری امور میں بھی نافذ کیاجائے، میاں صاحب کو سب سے پہلے پنجاب پر توجہ دینا ہوگی جہاں ان کے برادر خورد نے امریکی و برطانوی مشیروں کے مشورے پر اردو کو انگریزی کے مقابلے میں ثانوی حیثیت دے دی ہے، اسکولوں میں اردو میڈیم کے بجائے انگلش میڈیم رائج کر دیا گیا ہے اور تعلیمی نصاب کو قومی تقاضوں کے بجائے مغربی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے۔ کیا میاں صاحب اپنے گھر کی خبر لیں گے؟