(از:انصاری نفیس جلیل،مالیگاؤں،مہاراشٹر،الہند9021360933)
شیطان کی مخالفت کی چھوٹی سی ابتداء ہم لفظ شیطان کی مخالفت سے ہی کریں تو یہ ہمارے لئے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔” ش ے ط ا ن” کو اُلٹا پڑھیں تو نا طیش یعنی غصّہ کی نفی۔اور یہی ہے شیطان کی مخالفت۔۔۔۔۔ کیونکہ شیطان کا سب سے اہم ہتھیار ہے غصّہ۔اورآج کے مسلمانوں کو تو اتنا غصّہ ہے کہ اللہ رحم کرے ،دوسری قومیں بھی یہ جان گئیں ہیں کہ مسلمانوں کو صرف طیش دلایا جائے اور بس وہ خود ہی ایسے اقدام کرکے اپنے آپ کو مصائب میں گرفتار کرواتے رہیں گے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔۔۔۔کیونکہ غصّے میں اٹھایا ہواقدم کبھی بھی صحیح نہیں ہوتا،انسان غصّے کی حالت میں کئے ہوئے فیصلوں پر بعد میںضرور پچھتاتا ہے یہ تو دستور ہی ہے پھر چاہے معاملہ ذاتی ہو یا غیر ذاتی۔
غصّے کو پی جانا اور ضبط کر لینا ہی اصل مردانگی ہے۔اکثر میاں بیوی کے درمیان ”غصّہ” کو ڈھال بناکر شیطان اپنا پانسہ پھینکتا ہے اور بہت زیادہ کامیابی اُسے ملتی ہے۔غصّے کو الگ الگ ناموں سے ذہنوں میں اُلجھاکر شیطان اپنا کام انجام دیتا ہے جیسے انا،خودداری،غیرت،چھوٹا بڑا پن وغیرہ وغیرہ۔مردوں کا اپنی روش پر قائم رہنا اور عورت کو حقیر جاننا،غلطی سرزد ہونے پر بھی عورت سے معافی مانگنے میں اپنی انانیت اور خودداری کو ترجیح دینا، عورتوں کا اپنے شوہروں کی حکم عدولی کرنا اور شوہر کے عین توقعات کے خلاف عمل کرنا اور چہار دیواری میں حفاظت سے رہنے کو قید خانہ سے تشبیہہ دینا ،فضول خرچی کرنا وغیرہ ایسی بہت ساری چھوٹی چھوٹی مگر اہم وجوہات ہیں جس سے غصّہ کی شروعات ہوتی ہے اور ابتداء میں تو بظاہر یہ معمولی ہوتاہے لیکن بعد میں غیر معمولی معاملہ بن کر دو خاندانوں کی باہمی رنجش کی اہم وجہ بن جاتا ہے۔ جس سے سب سے زیادہ خوشی شیطان محسوس کرتا ہے۔روٹھنا مناناصرف ابتدائی زندگی میں نظر آتا ہے۔بعد میں اس کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔صرف باقی رہ جاتا ہے ”غصّہ”۔
درج ذیل امور غصّے کو ضبط کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیونکہ حدیث میں یہ بات ملتی ہے۔(١)اپنے جرائم کے ساتھ حق تعالیٰ شانہ کے حلم کا استحضار کیا جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کا کس قدر قصور واراورمجرم ہوں،مگر اللہ رب العزت پوری قدرت کے باوجود میرے جرائم پر حلم فرماتے ہیں،اگر اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح مجھ پر گرفت فرمائیں تو میرا ٹھکانہ کیا ہوگا؟ (٢) اعوذ باللہ پڑھ لی جائے۔(٣)ٹھنڈا پانی پی لیا جائے۔(٤)آدمی وہاں سے ہٹ جائے۔(٥)کسی دوسرے کام میں لگ جائے۔(٦) کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔(٧) جس شخص پر غصّہ کیا ہو بعد میں اس سے معافی مانگ لے۔
حالانکہ غصّہ انسانی فطرت کا بہترین سرمایہ ہے،جسے صحیح جگہ استعمال کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ جیسے تعلیم کے معاملے میں مسلمانوں کی پستی اور دوسری قوموں سے اس کا موازنہ۔اس معاملے میں اگر مسلمانوں میں غصّہ اُمڈ پڑے اور یہ ٹھان لیا جائے کہ اب ہم بھی تعلیم کے میدان میں کچھ ہلچل مچائیںگے،غریبی کے باوجود اپنے بچّوں کو خوب پڑھائیں گے اعلیٰ تعلیم دلوانے کی پوری کوشش کریں گے۔ اپنے آپ کو سچّا پکّا مسلمان بنانے کا غصّہ،پنج وقتہ نمازوں کے ادا کرنے میں غصّہ،نبی پاکۖ کی سنّتوں کو اپنی زندگیوں میں لانے کا غصّہ۔ اللہ رب العزّت سے دعا ہیکہ وہ ہمیں صحیح راہ پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ غیر ضروری اور فتنہ، فساد ،رنجشیں پیدا کرنے والے غصّے سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔(آمین)