صبح صادق سے منور ہیں مقاماتِ کلیم

سہیل انجم
کیا خبر تھی کہ اگلا کالم پھر ایک تعزیت نامہ ہوگا۔ وقت اپنی زنبیل سے کب کیا نکال کر دنیا کے سامنے رکھ دے، کہا نہیں جا سکتا۔ ابھی ہم مولانا عبد الرشید بستوی اور مولانا اسرار الحق قاسمی ایم پی کے غموں سے باہر بھی نہیں نکل پائے تھے کہ ایک اور غم جسے ’غمِ صادق‘ کہیے ہمارے استقبال کو آموجود ہوا۔ مولانا صادق علی قاسمی بستوی دریابادی بھی اسی راہ کے راہی ہو گئے جس پر لوگ جاتے تو ہیں مگر واپس نہیں آتے۔ اپنے وطن کے حالیہ سفر میں ہم نے تین دسمبر کو مولانا مجیب بستوی اور بعض دیگر احباب کے ہمراہ ان کے دولت خانہ، لہرولی ضلع سنت کبیر نگر پر جا کر شرف نیاز حاصل کیا تھا۔ گفتگو کے دوران ہم نے ان کے سامنے اپنی یہ خواہش رکھی کہ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اپنے رسالہ ماہنامہ ’نقوش حیات‘ کے اداریوں کو ترتیب دے دیں اور اسے شائع کر دیا جائے۔ انھوں نے خوشی ظاہر کی اور اس کی ساری ذمہ داری خاکسار کو تفویض کر دی اور میں نے بھی بخوشی قبول کر لی۔ انتقال سے دو روز قبل ان سے بذریعہ فون گفتگو ہوئی اور انھوں نے بتایا کہ اداریے یکجا کر لیے گئے ہیں اور جلد ہی بذریعہ ڈاک دہلی بھیج دیے جائیں گے۔ ۵۱ دسمبر کو صبح تقریباً پونے گیارہ بجے ان کے موبائل نمبر سے کال آئی تو فطری طور پر یہی خیال آیا کہ مولانا اداریوں کے سلسلے میں کوئی بات کریں گے۔ لیکن جب ایک قدرے نامانوس اور لرزیدہ سی آواز سنائی دی تو دل دھڑک اٹھا۔ لائن پر ان کے بڑے بیٹے خالد کمال تھے۔ انھوں نے ایسی جان کاہ خبر سنائی جس کو سننے کے لیے دل ابھی تیار نہیں تھا۔ خبر ناقابل یقین تھی لیکن یقین کرنا ہی پڑا۔ کوئی بیٹا اپنے باپ کے سلسلے میں اس قسم کی کوئی غلط خبر نہیں دے گا۔ جب کچھ گھنٹوں کے بعد طبیعت بارِ غم سے ذرا ہلکی ہوئی تو یادو ںکے دریچے وا ہو گئے۔ ان سے بے شمار ملاقاتوں کے مناظر ذہن کے پردے پر فلم کی مانند چلنے لگے۔ ان کی محبت آمیز باتیں، ان کا خلوص، ان کی خاکساری و انکساری، ان کی علمیت اور اس پر سادگی کا پرتو، چند سال قبل دہلی میں غریب خانے پر تشریف لا کر خاکسار کو شرف مہمان نوازی بخشنا سب کچھ یاد آنے لگا۔ دل نے کہا کہ وہ علاقہ جو اہل علم کا علاقہ کہلاتا ہے اب سُونا ہوتا جا رہا ہے۔ جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں۔ چند برسوں کے اندر وہاں کی کم از کم چار بڑی شخصیات، جو اسی علاقے میں علمی سرگرمیوں میں مصروف تھیں، اٹھ گئیں۔ مولانا صادق بستوی سے قبل معروف مسلم اکثریتی قصبہ امرڈوبھا میں واقع بریلوی مکتب فکر کے ایک مرکزی ادارہ مدرسہ تنویر الاسلام کے مفتی اور مرجع خلائق مولانا نظام الدین، لوہرسن بازار (کرنجوت) کے اہلحدیث مکتب فکر کے معروف عالم دین، خطیب، ادیب، شاعر و صحافی مولانا حامد الانصاری انجم اور موضع لوہرسن کے دیوبندی مکتب فکر کے عالم، خطیب، ادیب اور شیخ الحدیث اکیڈمی دیوبند کے سابق محقق اور جمعیة علما کے ضلعی صدر مولانا عبد الحفیظ رحمانی ہم سے جدا ہو چکے ہیں۔ اب مدرسہ بیک گراونڈ کے جو علما سرمایہ ¿ ملت کا درجہ رکھتے ہیں ان میں مدرسہ دارالعلوم بستی کے صدر مدرس مولانا نثار بستوی، جامعہ اسلامیہ دریاباد کے بانی اور عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت مولانا عبد الباری فتح اللہ (ریاض)، جامعہ ہذا کے ناظم ماہنامہ استدراک کے مدیر اور معروف شاعر و ادیب مولانا عتیق اثر ندوی، سمریاواں کے معروف عالم دین اور شاعر مولانا مجیب بستوی، مولانا وقار احمد، جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے نائب ناظم قصبہ مہداول کے مولانا ادریس بستوی جو کہ ایک سیاسی شخصیت بھی ہیں، موضع مڑلا کے مولانا عتیق بستوی استاد ندوة العلما لکھنو ¿ اور مولانا شبیر احمد مونڈا ڈیہہ قابل ذکر ہیں۔ یہ علاقہ انگریزی داں طبقہ کا بھی ایک مرکز ہے۔ موجودین میں مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے سابق طالب علم لیڈر افسر یو احمد کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ سیاسی شخصیات کی بھی کمی نہیں رہی۔ کسی زمانے میں نبی خاں ایم ایل اے کا بڑا شہرہ تھا۔ یہ خطہ مجاہدین آزادی کا بھی مرکز رہا ہے۔
بارہ بنکی کے دریاباد کی مانند سنت کبیر نگر کا دریاباد بھی علم و ادب کا ایک گہوارہ ہے۔ مولانا رحم اللہ خلیفہ ¿ مجاز حضرت مولانا سخاوت علی جونپوری اور مولانا زین اللہ زین (صاحب دیوان فارسی) دریاباد ہی کے سپوت تھے۔ مولانا عبد الباری اور مولانا عتیق اثر کی مانند مولانا صادق کی جائے پیدائش بھی یہی سرزمین علم و فن ہے۔ بعد میں انھوں نے قریب ہی میں واقع لہرولی بازار میں جو کہ مہداول اور بستی کے درمیان ایک قدیم شاہراہ پر واقع ہے، اپنا مسکن بنا لیا تھا جو ہر خاص و عام کے لیے مرجع خلائق تھا۔ مولانا فاضل دیوبند تھے۔ پنجاب یونیورسٹی، لکھنو ¿ یونیورسٹی، الہ آباد بورڈ اور جامعہ اردو علیگڑھ سے بھی فیض یافتہ تھے۔ علمی میدان میں ان کا قد جتنا بلند تھا اتنی ہی ان کے اندر عاجزی و خاکساری تھی۔ کوئی بھی کسی بھی قسم کا مسئلہ پیش کرتا وہ فوراً عقدہ کشائی کر دیتے۔ ہمیشہ قمیص اور لنگی ہی زیب تن کرتے۔ یہاں تک کہ جب نئی دہلی میں واقع سعودی سفارتخانہ نے دو سال قبل ان کو ضیوف خادم حرمین میں شامل کرکے فریضہ حج کی ادائیگی پر بھیجا تو وہاں بھی وہ اسی لباس میں گئے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے تو ایک عظیم شاعر بھی تھے۔ مولانا ولی راضی کی کتاب ’ہادی عالم‘ کے طرز پر ۲۳۲ صفحات پر مشتمل غیر منقوط منظوم سیرت ’داعی اسلام‘ حفیظ جالندھری کے شاہ نامہ اسلام کے انداز میں منظوم کی۔ اس کتاب کو پوری دنیا میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ مولانا تقی عثمانی، شیخ الحدیث کراچی مولانا سلیم اللہ خاں، مولانا ابوالحسن علی ندوی، قاضی اطہر مبارکپوری، حکیم عبد الحمید، قاری صدیق، ناز انصاری، گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی کراچی، ڈاکٹر محمود الٰہی، مولانا عارف سراجی اور دیگر متعدد اہل علم نے اس کاوش کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جبکہ ہادی عالم کے مصنف مولانا ولی رازی نے اس کتاب پر خوشی ظاہر کی اور اس کو اپنے لیے سعادت تصور کیا۔ چونکہ ’داعی اسلام‘غیر منقوط منظوم ہے اس لیے اس کے ٹائٹل پر بھی مولانا نے انوکھاپن دکھایا ہے۔ اس پر درج ہے ’داعی اسلام کلام معرائے اردو‘۔ محرر ص علی ص۔ ان کے مکتبے کا نام’خالد کمال اشاعت گھر‘ ہے۔ اس کو بھی انھوں غیر منقوط لکھا ہے۔ یعنی کمال دارالرسائل لہرولی۔ آپ کے تتبع میں کئی شعرا نے غیر منقوط نظمیں لکھنے کی کوشش کی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ 
نظم و نثر میں آپ کی تقریباً ۰۲ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ آپ ۲۳ برسوں سے اردو ماہنامہ ’نقوش حیات‘ نکال رہے تھے۔ اس کے اداریے بڑے جاندار اور بامعنی ہوتے۔ ان کی نظر ملکی حالات پر تو بڑی گہری تھی ہی عالمی حالات پر بھی تھی۔ آپ روزنامہ راپتی گورکھپور کے مدیر، روزنامہ اردو ٹائمس ممبئی، مشرقی آواز گورکھپور اور روزنامہ قومی آواز لکھنو ¿ کے نامہ نگار بھی رہے۔ جمعیة علما ضلع بستی کے جنرل سکریٹری، جمعیة علما اترپردیش کے سابق سکریٹری اور جامعہ خادم الاسلام ہاپوڑ، مدرسہ اطہر العلوم امرڈوبھا اور جامعہ ہدایت الاسلام کرہی میں استاد کے منصب پر بھی فائز رہے۔ جب جمعیة علما کی جانب سے ملک و ملت بچاو ¿ تحریک چل رہی تھی تو پولیس نے آپ کو گرفتار کرکے تہاڑ جیل میں ڈال دیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی آپ متعدد عہدوں پر فائز رہے ہیں جن میں اترپردیش اردو اکیڈمی کی رکنیت بھی شامل ہے۔ صادق بستوی بڑے وسیع المشرب تھے۔ مسلکی تعصب سے کوسوں دور تھے۔ تمام مکاتب فکر میں ان کے چاہنے والے موجود ہیں۔ وہ ہر ایک سے یکساں محبت سے پیش آتے تھے۔ہر جگہ انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ دوسرے مسالک و مذاہب کو برا بھلا کہنے کے خلاف تھے۔ سیاسی شخصیات سے بھی ان کے گہرے مراسم تھے۔ ان کے حجرے میں اکثر و بیشتر سیاست دانوں کی آمد و رفت رہتی۔ بچپن انتہائی مفلوک الحالی میں گزرا۔ اب بھی کوئی خاص فارغ البالی نہیں تھی۔ لیکن خودداری اوج کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ وہ اپنی صلاحیتوں اور مالک حقیقی کی کرم فرمائیوں سے آسمان علم و ادب پر آفتاب بن کے چمکے۔ انھوں نے آپ بیتی منظوم کی ہے جو بڑی پُرسوز ہے۔ اس کے دو شعر ملاحظہ ہوں:
سراپا درد میری داستانِ زندگانی ہے
بڑی ناگفتنی میرے غمِ دل کی کہانی ہے
فریبِ زندگانی میں نے ساری عمر کھایا ہے
حصولِ علم کی خاطر بہت ہی دکھ اٹھایا ہے
جس مصرعے کو عنوان بنایا گیا ہے وہ بھی انھی کا ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ 
اپنا تبصرہ لکھیں