صبح نو کا آغاز



عابدہ رحمانی

علی الصبح میری کھڑکی کے باہر ایک پرندے کی سریلی مدھر آواز فجر کے وقت میرے کانوں میں رس گھولتی ہے یوں لگتا ہے اسکی  یہ مدھر چہچہاہٹ ، یہ نغمگی میرے لئے فجر کی نماز کا آلارم ہے-

– وہ پرندہ کیسا ہے اسکی شکل کیسی ہے اسکا نام کیا ہے اس خطہ ارض کے بیشتر پرندوں کے ناموں سے میں ناواقف ہوں -مجھے یقین ہے کہ ا پنی آواز کی طرح وہ پرندہ بھی یقینا خوبصورت ہوگا-میں نے ایک دو مرتبہ جھانک کر اسے دیکھنے کی کوشش کی لیکن مجھے دکھائی نہ دیا پو پھٹتے ہی وہ اڑ چکا ہوتا ہے ہمارے اسلامی عقائد کے مطابق تمام چرند پرند علی الصبح اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں –سبحان اللہ !

 اسی کھڑکی سے اکثر رات کو سکنک skunk کی تیز بدبو میری نیند میں بری طرح مخل ہوتی ہے – اب موسم اتنا اچھا ہو تو جی چاہتا ہے کہ کھڑکی سے تازہ خنک ہوا آئے لیکن اسی کے ساتھ یہ بدبو اور پھریہ مدھر سریلی آواز– اب آپ کہینگے کہ یہ سکنک کیا ہے ؟ میں یہاں اکثر جب رات کو نکلتی تھی تو ایک عجیب طرح کی بدبو سے اکثر واسطہ پڑتا تھا -ایک مرتبہ میں نے  پوچھ ہی لیا کہ یہاں کے پودوں سے رات کو بدبو کیوں آتی ہے ؟ جسپر معلوم ہوا کہ یہ سکنک کے اسپرے کی بدبو ہے – یہ جانور دیکھنے میں کافی خوبصورت ہے کالا اور سفید دھاریوں والا، لیکن قدرت نے اسے اپنے بچاؤ کیلیے ایک بدبودار مادے کی سپرے سے لیس کیا ہے –اور یہ بدبودار مادہ اگر کسی کو چھو جائے تو اسکو ٹماٹر کیچپ ملکر غسل کرنا پڑتا ہے ورنہ بدبو جاتی ہی نہیں-ہر خطے کے اپنے طور طریقے ہیں- ابھی کل ہی خبروں میں آیا کہ ریکون rakoon کی آبادی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے– معصوم سے چہرے گول گول آنکھوں والا یہ جانور ایک کوڑا خور جانور ہے آبادی کے اندر پورا خاندان ٹولیوں کی شکل میں گھومتا ہے-بعض اوقات تو گھروں کے اندر ہی کوئی کونا کدرا ڈھونڈھ کر ٹھکانہ بنا لیتا ہے -عموما یہ رات کو نکلنے والے جانور ہیں لیکن دن میں بھی اکثر نظر آئے -ایک مرتبہ میں نے بڑے چاؤ سے سبزیاں کاشت کیں جب ٹماٹر ، گوبھی ، بروکلی اور بھٹے تیار ہونے لگے تو ریکون کوخبر ملی اور انہوں نے اسکی خوب خبر لی – آدھی کھائی ہوئی سبزیاں میرا منہ چڑھا رہی تھی– کینیڈا میں کوڑے کا تھیلا سسٹم ریکون کے لئے دلچسپی کا باعث ہوتا ہےاسلئے لوگ تھیلوں کے اوپر ایک مخصوص دوائی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں تاکہ ریکون انسے چھیڑ چھاڑ نہ کر سکیں-

یہاں کے یہ چرند، پرندے اس موسم کے یعنی موسم گرما کے منتظر ہوتے ہیں مارچ کے آخر یا اپریل میں برف پگھلی، زمین سے سبزے، زیر زمین گانٹھوں سے پھوٹنے والے مختلف رنگوں کے پھولوں نے رنگ اور سر نکالنا شروع کیا –درختوں پر کونپلیں پھوٹنے لگیںتو بہار ایک انگڑائی لیکر بیدار ہوئی اور اسی طرح کینیڈا اور شمال کی جانب امریکہ کی ریاستوں کی عوام اور خلقت موٹے موٹے جیکٹوں ، اوور کوٹوں ، برف کے بوٹوں کو الماریوں کے اندر بند کرتی ہوئی ہلکے سویٹروں ، جیکٹوں، سنیڈلوں اور چپلوں سے لیس ہوگئی- اور گرمی کی شدت کی منتظر ھوئی – ٰیہاں کی عوام کو گرم موسم اور ہلکے لباس کا شدت سے انتظار ہوتا ہے اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہلکے پھلکے لباس سے مراد پاکستان کی ڈیزاینر لان کے سوٹ ہر گز نہیں ہیں –انسانوں کی طرح یہ تمام جانور بھی تازہ دم ہوجاتے ہیں اور اپنی گرمیاںبھر پور طریقے سے گزارتے ہیں- بھاگتی دوڑتی گلہریاں اور  پھدکتے ہوئے خرگوش اس منظر میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں —

اڑنے والے بیشتر پرندے مرغابیاں اور بطخیں معتدل موسم کے ساتھ گھروں کو واپس لوٹتے ہیں -گھونسلے بناتے ہیں اور انڈوں بچوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے – انمیں کینیڈین بطخیں پیش پیش ہیں موسم کے ساتھ اڑان بھرنی والی یہ بھاری بھر کم بطخیں ایک نظم و نسق کے تحت اڑان بھرتی ہیں – ایک بطخ انکی رہنمائی کرتی ہے اور پوری ٹولی وی V کی فارمیشن بناتے ہوئے اڑتی ہیں — جنگی جہازوں نے اپنی اڑاں کی ایک فارمیشن میں انکی نقل کی ہے -رہنمائی کرنیوالی بطخ تھک کر پیچھے کی طرف آجاتی ہے اور دوسری بطخ اسکی جگہ لے لیتی ہے- امریکہ والے سرحد پار کی ان مہمان بطخوں سے کافی نالاں ہیں کیونکہ جھیلوں تالابوں میں یہ چھوٹی بطخوں اور مر غابیوں کو خوفزدہ کر دیتی ہیں– انمیں سے اکثر تو قرب و جوار میں وہیں بس گئی ہیں اب انکو سرحدوں کا پابند کون کرے نہ انکو ویزے نہ پاسپورٹ کی ضرورت؟-جبکہ معمر شہریوں کی تنظیم بھی عرف عام میں برفانوی پرندے، سنو برڈزsnow birds کہلاتے ہیں اور سخت سردیاں گزارنے جنوب کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور نسبتا گرم علاقوں کے متلاشی ہوتے ہیں -امریکہ کی معتدل ریاستیں ان مہمانوں کا گرمجوشی سے استقبال کرتی ہیں – گرم موسم کی آمد کے ساتھ یہ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں –

امریکی سرحد سے متصل کینیڈین علاقے نسبتا گرم علاقے ہیں -شمال کی طرف جاتے ہوئےکینیڈا ٹھنڈا اور مزید ٹھنڈا بلکہ یخ بستہ ہے اور یہ سلسلہ بحر منجمد شمالی تک چلا جاتا ہے-

15،20 جون سے یہاں گرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے سخت سردی اور برفانی موسم سے بے حال قوم کو اس موسم کا شدت سے انتظار ہوتا ہے – باقاعدہ گرمیوں کی مبارکبادیں دی جاتی ہیں -اور اس موسم کو بھرپور طریقے سے گزارنے کی کوششیں ہوتی ہیں — سیر و تفریح ، مختلف پریڈ ، بھاگنا ، دوڑنا ، سائیکلوں کی ریس ،میراتھن ریس، پیراکی ، کشتی رانی ، باربیکیو، پکنک، ساحلوں پر غسل آفتابی،کیمپنگ غرض یہ کہ اس موسم سے لطف اندوز ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی-تعلیمی اداروں کی گرمیوں کی چھٹیا ں ہو چکی ہوتی ہیں اور یوں مختلف پروگرام بنانے میں مزید آسانی ہوتی ہے – دن کا دورانیہ کافی بڑھ چکا ہوتا ہے- ہر کوئی بساط بھر گرمیوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے –

گرمیوں کا یہ موسم اب جانے کی تیاری کر رہا ہے -اکثر درختوں کی چوٹی پر پتے رنگ بدلنے لگے دن کا دورانیہ گھٹنے لگا ہے –ستمبر کے پہلے ہفتے میں تمام تعلیمی ادارے کھل جاینگے–نیا تعلیمی سال شروع ہوجائے گاستمبر کے آخر تک درختوں کے پتےپیلے ، بھورے ،قرمزی سرخ خوبصورت رنگوں میں ڈھل کر گرنے کی تیاری میں لگ جاتے ہیں –کیا حسین منظر ہوتا ہے گھنے درختوں میں کیا خوبصورت رنگ بکھر جاتے ہیں سبحان اللہ — قادرمطلق کی اس صناعی کے کیا کہنے !– لیکن ابھی گرمیاں باقی ہیں — پرندے کی نغمگی ، سکنک کی بدبو ،گلہریوں کی اچھل کود، گرج چمک بارشیں ، نمی اور رطوبت ،زندگی کی ایک نئی صبح کا آغاز-کہ زندگی رواں دواں ہے اور اسکو رواں دواں ہی ہونا چاہئے –

یقین صرف اس ذات کا کرو

ایک نئی صبح کا آغاز کرو

اپنا تبصرہ لکھیں