علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں شیخ عبد الحق لکھتے ہیں ” لغت میں صلہ کا معنیٰ ہے ملانا اور جوڑنا اور مراد اس جگہ میں ان قریبی رشتہ داروں سے انعام و احسان کرنا ہے جو ماں باپ کی طرف سے قریبی رشتہ دار ہوں ۔(اشعة اللمعات )
اور صاحب بہار شریعت لکھتے ہیں :” صلہ رحم کے معنی رشتہ کا جوڑنا ہے یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنا ۔ ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے اور قطع رحمی حرام جن رشتہ والوں کے ساتھ صلہ واجب ہے وہ کون ہیں بعض علماء نے فرمایا وہ ورحم محرم ہیں اور بعض نے فرمایا اس سے مراد زو رحم ہیں محر م ہوں یا نہ ہوں اور ظاہر یہی قول دوم ہے ۔احادیث میں مطلقاً رشتہ داروں کے ساتھ صلہ کرنے کا حکم آتا ہے ۔قرآن مجید میں مطلقاً ذوالقربیٰ فرمایا گیا ۔مگر یہ بات ضرور ہے کہ رشتہ میں چونکہ مختلف درجات ہیں اس لئے صلہ رحمی کے درجات میں بھی تفاوت ہوتا ہے ۔والدین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے ان کے بعد ذو رحم محرم کا ۔ ان کے بعد بقیہ رشتہ داروں کا علی قدر مراتبھم ۔ (در مختار ، بہار شریعت)
صلہ رحمی کی صورتیں:صلہ رحمی کی مختلف صورتیں ہیں ۔ان کو ہدیہ و تحفہ دینا اور اگر ان کو کسی بات میں تمہاری اعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کرنا ۔انہیں سلام کرنا ۔ان کی ملاقات کو جانا ۔ان کے پاس بیٹھنا اٹھنا ۔ان سے بات چیت کرنا ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا ۔ (در مختار ، بہار شریعت)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا :”تم اپنے وہ انساب سیکھو جن کے سبب سے تم صلہ رحمی کرو گے ۔ کیونکہ صلہ رحمی گھر والوں میں محبت کا سبب ہے مال میں کثرت کا ذریعہ ہے عمر میں زیادتی کا باعث ہے ۔”(رواہ الترمذی )
اس حدیث کے ما تحت شیخ عبد الحق لکھتے ہیں:”اپنے انساب میں سے اس قدر سیکھو کہ ان کی وجہ سے تم اپنے رشتوں کو ملائو گے ۔ یعنی اپنے آبا و اجداد اور امہات اور ان کی اولادیں خواہ مرد ہوں یا عورتیں ان کو پہچانو اور ان کے نام یاد رکھو تا کہ تم ان کے ذریعہ سے اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کر سکو کیونکہ ان ناموں کا جاننا ضروری اور نفع بخش ہے ۔”(اشعة اللمعات جلد 4)
صلہ رحمی کی شرعی اہمیت:قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور اچھا برتائو شرعاً بہت پسندیدہ عمل ہے ۔ اس کی تاکید شدید میں متعدد آیات و احادیث موجود ہیں ہم یہاں چند آیات و احادیث تبرکاً نقل کرتے ہیں ۔
آیات کریمہ :پہلی آیت کریمہ:ترجمہ ”بے شک اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کودینے کا اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے ۔ تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو۔ ”(پارہ14رکوع 19) مفتی احمد یار خان نعیمی اس آیت کے ما تحت لکھتے ہیں ۔”یہاںرشتہ داروں میں سارے دور و نزدیک کے رشتہ دار داخل ہیں اور دینے میں ہر قسم کا حق ادا کرنا شامل ہے ۔خواہ مالی ہو یا بدنی یا ایمانی ۔رشتہ داروں کی مال سے بدن سے خدمت کرو۔ انہیں ایمان اور نیک اعمال سے رغبت دو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رشتہ داروں کا حق غیروں سے زیادہ ہے ۔”(نور العرفان صفحہ441)
اور علامہ علاء الدین خازن اس آیت کے ما تحت فرماتے ہیں ؛”یعنی وہ حکم کرتا ہے صلہ رحمی کا اور رحم سے مراد قریب او ر دور کے سب رشتہ دار ہیں ۔پس مستحب ہے کہ وہ اپنے فالتو خدا داد مال سے ان پر احسان کرے اور اگر ان کی مالی مدد نہ کر سکتا ہو تو ان کے لئے اچھی دعا کرے اور ان سے محبت رکھے ۔ ”(خازن جلد 4)
اور مفسر صاوی فرماتے ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کا کیونکہ دوسرے کی بہ نسبت قریبی رشتہ دار پر صدقہ کی زیادہ تاکید ہے کیونکہ اس پر صدقہ صدقہ اور صلۂ رحمی ہے ۔رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا :”بلا شبہ ثواب کی رو سے سب سے زیادہ جلد ی قبول ہونے والی عبادت صلہ رحمی ہے ۔” (تفسیر صاوی جلد 2)
دوسری آیت کریمہ:اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :”اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے ۔”(پارہ 15رکوع 3)یعنی ماں باپ کے ساتھ ان کی اولاد یعنی بھائی بہن اور ان کے قرابت داروں یعنی اپنے عزیزوں کی بھی خدمت کرو۔(نو العرفان )
اور یہاں مفسر خازن فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے والدین سے صلہ رحمی کا حکم دینے کے بعد رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا حکم دیا ۔ یعنی رشتہ داروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ۔ اور ان کے حق سے چند باتیں یہ ہیں ان سے نیکی کرنا محبت رکھنا، ان کی زیارت کرنا ، اچھا برتائو کرنا ۔ خوشی اورغمی کے موقع پر ان سے باہمی الفت کا مظاہرہ کرنا ۔ایک دوسرے کی مدد کرنا وغیرہ اور کہا گیا ہے کہ اگر محتاج ہوں اور یہ خوشحال ہے تو ان کا خرچہ اس پر لازم ہے ۔ یہ امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس پر ان کا خرچ لازم نہیں ہے صرف والد کا خرچ اولاد پر اور اولاد کا خرچ والد پر لازم ہوتا ہے ۔(خازن جلد 4)
اور مفسر صاوی لکھتے ہیں ۔ ان سے قطع تعلقی نہ کی جائے اور نہ ان سے دشمنی رکھی جائے تو یہ واجب ہے جس طرح اصول و فروع کا خرچہ واجب ہے ۔(تفسیر صاوی جلد2)
تیسری آیت کریمہ:اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :”تو رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو ، یہ بہتر ہے ان کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں اور انہیں کا کام بنا۔”(پارہ 21رکوع7)
یہ آیت کریمہ تمام قرابت داروں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دے رہی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر رشتہ دار کا حق ہے ۔اس میں سسرال اور نسبی تمام قرابت دار شامل ہیں ۔(نور العرفان صفحہ251)
مفسر صاوی فرماتے ہیں :” یہ آیت نفلی صدقہ کے بارہ میں ہے نہ کہ واجب زکوٰة کے بارہ میں کیونکہ یہ سورة مکی ہے اور زکوٰة کا حکم مدینہ منورہ میں سن دو ہجری میں نازل ہوا تھا ۔” (صاوی جلد 3)
ماں باپ کے ساتھ ان کی زندگی میں احسان یہ ہے کہ ان کا ادب کرے ۔ ان کی جانی مالی خدمت کرے ان کے جائز حکموں کو مانے ۔ان کی خدمت کیلئے نوافل ترک کر سکتا ہے فرائض و واجبات نہیں چھو ڑ سکتا ۔ اگر ماں باپ کسی گناہ و کفر میں مبتلا ہوں تو ان کو اچھی تدبیر سے روکے ۔والدین کے مرنے کے بعد ان سے بھلائی یہ ہے کہ ان کی وصیتیں پوری کرے ۔ان کے دوستوں کا احترام کرے ۔فاتحہ تلاوت قرآن اور دیگر صدقات کا ثواب بخشتا رہے اور ان کے اچھے مراسم کو جاری رکھے ۔کم از کم ہفتہ میں ایک مرتبہ ان کی قبر کی زیارت کرے ۔اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ اور رشتہ داروں کی خدمت بڑی ضروری ہے کہ رب نے اپنی عبادت کے ساتھ ان کی اطاعت کا ذکر فرمایا ہے ۔(نور العرفان )
پانچویں آیت کریمہ:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :”اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال رشتہ داروں کو دے ۔”(پارہ 2رکوع 6)
یعنی اپنے قرابت داروں کو اور انہیں باقی مصارف صدقہ پر مقدم فرمایا گیا کیونکہ وہ صدقہ کے زیادہ حق دار ہوتے ہیں ۔سلمان بن عامر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :”مسکین پر صدقہ ایک صدقہ ہے اور رشتہ دارپر صدقہ دو صدقے ہیں یعنی صدقہ اور صلہ رحمی اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا اور شیخین نے روایت بیان کی ہے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی آزاد کی اور رسول اللہ ۖ سے اس کی اجازت نہیں لی ۔پھر جب ان کی باری کا دن ہوا تو عرض کیا یا رسول اللہ ۖ کیا آپ نے سنا ہے کہ میں نے اپنی لونڈی آزاد کر دی ہے ۔فرمایا کیا تو نے یہ کام کر لیا ہے ۔عرض کیا ہاں فرمایا اگر تو اپنے ننھیال والوں کو یہ لونڈی دے دیتی تو تیرے لئے زیادہ اجر تھا ۔”(خازن جلد1)
چھٹی آیت کریمہ:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔ بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے ۔یعنی رشتہ داروں سے اچھا برتائو کرو ۔ ”(پارہ 4رکوع 12)رشتے قطع نہ کرو۔ حضور اکرم ۖ فرماتے ہیں جو رزق کی کشائش اور عمر میں برکت چاہے وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے ۔ (نور العرفان )
تفسیر خازن میں ہے ۔اس آیت میں اس بات پر دلیل موجود ہے کہ رشتہ داری کا حق بہت بڑا ہوتا ہے اور رشتہ داری قطع کرنا ممنوع ہے ۔اور اس معنی پر وہ حدیثیں بھی دلالت کرتی ہیں جو اس بارہ میں آئی ہیں مثلاً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا ۔رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے وہ کہتی ہے کہ جو مجھے ملائے گا میں اسے ملائوں گی اور جو مجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گی ۔(بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جس کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کی روزی کشادہ کی جائے اور اس کی عمر لمبی کی جائے تو اسے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنا چاہیے۔(بخاری و مسلم)
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ۖ نے فرمایا :”جنت میں رشتہ داری کاٹنے والا داخل نہیں ہو گا۔” (بخاری و مسلم)
حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے وسیلہ سے مانگے اسے وہ عطا کرتا ہے اور جو رشتہ داروں سے حسن سلوک کے ذریعہ سے مانگے وہ اسے عطا کرتا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے پھر جب اس کے پاس رشتہ داری پالنے والا آئے گا تو وہ اس کی وجہ سے خوش و خرم ہو گی اور اس سے کلام کرے گی اور رشتہ داری کا ٹنے والا اس کے پاس آئے گا تو وہ اس سے پردہ کر لے گی ۔ (تفسیر خازن جلد1)
ساتویں آیت کریمہ :اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :” اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہرا ئو اور ماں باپ اور رشتہ داروں سے بھلائی کرو۔”(پارہ 5رکوع 3)
تفسیر خازن میں ہے اور جاننا چاہیے کہ والدین سے اچھا سلوک کرنا اس طرح ہے کہ ان کی خدمت کی جائے ۔ان کے سامنے آواز بلند نہ کی جائے ۔ان کی مراد کے حصول میں کوشش کی جائے اور قدرت کے اندازہ پر ان پر مال خرچ کیا جائے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ۖ میری نیکی و احسان کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ؟ فرمایا تیری ماں۔ پھر عرض کیا ۔ پھر کون؟ فرمایا پھر تیری ماں ۔ اور دوسری روایت میں ہے فرمایا تیری ماں پھر تیری ماں پھر تیرا باپ پھر تیرا زیادہ قریبی رشتہ دار پھر تیرا قریبی رشتہ دار ۔(بخاری و مسلم)
انہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا ۔ اس کی ناک خاک آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو ۔عرض کیا گیا ۔یا رسول اللہ ۖ ۔کون ؟فرمایا ”جو اپنے والدین کو بڑھاپے میں پائے یا ان میں سے ایک کو پھر جنت میں داخل نہ ہو جائے ۔”(مسلم شریف)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ۔جو شخص چاہے کہ اس کے رزق میں کشادگی کی جائے اور اس کی عمر میں زیادتی کی جائے اسے اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا چاہیے ۔(تفسیر خازن )
آٹھویں آیت کریمہ:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :”اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی نہ دینے کی اور چاہیے کہ معاف کریں اور در گزر کریں ۔ کیا تم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔”(پارہ 18رکوع 9)
یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ۔ جبکہ آپ نے قسم کھالی تھی کہ مسطح کے ساتھ سلوک نہ کریں گے ۔ کیونکہ یہ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے بہتان میں شریک ہو گئے تھے ۔حضرت مسطح فقیر مہاجر اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہا کے عزیز تھے اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے وظیفہ پر گزارہ کرتے تھے ۔مگر وہ ام المؤمنین کو تہمت لگانے میں شریک ہو گئے اور انہیں سزا یعنی اسی کوڑے لگائے گئے ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا گیا کہ اے ابو بکر تم تم ہی ہو اور وہ وہ ہی ہیں ۔تم مسطح کا وظیفہ بند نہ کرو تم تو انہیں اللہ کیلئے دیتے ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بڑا گناہ بھی مسلمان کو اسلام سے خارج نہیں کرتا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے خطا کار بھائی سے بھی بھلائی کرنی چاہیے ۔ جب یہ آیت حضور اکرم ۖ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سنائی تو آپ نے عرض کیا کہ ہاں ضرور ضرور میں بخشش چاہتا ہوں ۔ یہ کہہ کر حضرت مسطح کا وظیفہ جاری کر دیا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا ۔ (نور العرفان صفحہ561)
نویں آیت کریمہ :اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :”تو کیا تمہارے یہ لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلائو اور اپنے رشتے کاٹ دو ۔یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کر دیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ۔ (پارہ 26،رکوع 7)
تفسیر خازن میں ہے ۔حضرت قتادہ نے فرمایا اس قوم کے بارہ میں تمہارا کیا خیال ہے ۔جو کتاب اللہ کی وارث بنی تو کیا وہ (نفاق کی وجہ سے ) حرام خون نہ بہائے گی اور رشتہ داری قطع نہ کرے گی اور اللہ کی نا فرمانی نہیں کرے گی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا : ”بلا شبہ رحم یعنی بندوں کی رشتہ داری اللہ کے نام رحمن سے مشتق ہے ۔” سو اللہ تعالیٰ نے اسے فرما رکھا ہے کہ جو تجھے ملائے گا میں اسے ملائوں گا اور جو تجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا۔ (بخاری ۔ مسلم)
اور دوسری روایت میں فرمایا:”بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب وہاں سے فارغ ہوا تو رشتہ داری اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑ لیا ۔ اللہ نے دریافت کیا کیوں؟ اس نے عرض کیا یہ مقام اس کا ہے جو رشتہ داری کا ٹنے سے پناہ پکڑنے والا ہے ۔ فرمایا ہاں کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے ملائے گا اسے میں ملائوں گا ۔جو تجھے کاٹے گا اسے میں کاٹوں گا۔ کہاں ہاں فرمایا ۔پس تیرے لئے یہ بات ہے ۔ پھر رسول اللہ ۖ نے فرمایا۔ اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پڑھو ۔ فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسوا فی الارض و تقطعوا ارحامکم۔”(تفسیر خازن جلد ششم صفحہ181)
احادیث مبارکہ:صلہ رحمی کی فضیلت اور قطع رحمی کی مذمت میں بعض احادیث مبارکہ مندرجہ بالا آیات کریمہ کے ضمن میں گزر چکی ہیں ۔چند اور روایتیں تبرکاً نقل کی جاتی ہیں:
پہلی حدیث پاک:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ۖ ! میرے رشتہ دار ہیں میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں تو وہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں۔ میں ان سے نیکی برتتا ہوں تو وہ برائی سے پیش آتے ہیں ۔میں ان سے نرمی اختیار کرتا ہوں تو وہ نادانی کی حرکتیں میرے ساتھ کرتے ہیں فرمایا :اگر بات وہی ہے جو تو نے کہی تو پھر تو ان کے منہ میں راکھ ڈالتا ہے ۔پھر فرمایا: جب تک تو اسی روش پر رہے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے خلاف تیری مدد کرنے والا موجود رہے گا۔ رواہ مسلم
دوسری حدیث پاک:حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :تقدیر کو نہیں ٹالتی مگردعا اور عمر کو نہیں بڑھاتا مگر والدین اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا ۔رواہ ابن ماجہ
تیسری حدیث پاک:حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :جس قوم میں رشتہ داری کاٹنے والا شخص ہو اس پر رحمت الہٰی نازل نہیں ہوتی ۔ رواہ البیہقی فی الشعب
چوتھی حدیث پاک:حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا :کوئی گناہ نہیں جو اس بات کا زیادہ حق دار ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے صاحب کو دنیا میں سزا دے اور آخرت کی سزا اس کے لئے باقی رکھے بغاوت اور رشتہ داری کاٹنے کی نسبت سے ۔ رواہ الترمذی و ابو دائود
پانچویں حدیث پاک:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا :تم اپنے وہ نسب سیکھو جن کی وجہ سے تم رشتہ داری پالو گے کیونکہ رشتہ داری پالنا خاندان میں محبت مال میں کثرت اور عمر میں زیادتی ہے ۔رواہ الترمذی
چھٹی حدیث پاک:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ۔کیا میرے لئے توبہ ہے ؟ فرمایا :کیا تیری ماں ہے ۔؟عرض کیا نہیں۔ فرمایا :کیا تیری کوئی خالہ ہے ؟عرض کیا ہاں۔ فرمایا اس سے نیکی کر۔ رواہ الترمذی
ساتویں حدیث پاک:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا :بلا شبہ بندہ کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک مرتا ہے اس حال میں کہ وہ ان کا نا فرمان ہوتا ہے ۔پھر وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے فرمانبرداروں میں لکھ دیتا ہے ۔ (مشکوٰة شریف جلد2)
آٹھویں حدیث پاک:حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا :چھوٹے بھائیوں پر بڑے بھائیوں کا حق وہ ہے جو والد کا حق اپنی اولاد پر ہوتا ہے ۔ (مشکوٰة جلد 2)
نویں حدیث پاک:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا:صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کی برابری کا لحاظ رکھے بلکہ وہ ہے جس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ۔رواہ البخاری ۔(مشکوٰة شریف )
مندرجہ بالا نو آیات کریمہ اور نو احادیث مبارک کو پڑھیں سمجھیں اور رشتہ داری پالنے کے اجر و ثواب اور رشتہ داری کاٹنے کے وبال کو جانیں اللہ تعالیٰ توفیق عمل بخشے۔آمین
منہ زور رشتہ داروں کے مقابلہ کی اجازت ہے : اگر کوئی رشتہ دار منہ زور ہو جائے اور دوسروں کے حقوق پر ناجائز ڈاکے ڈالنا شروع کر دے ۔اور بار بار نرمی برتے جانے کی وجہ سے وہ منہ زوری پر اور دلیر ہوتا چلا جائے تو ایسے رشتہ دار سے بائیکاٹ کرنا بلکہ اسے ظلم سے باز رکھنے کیلئے عملی جدو جہد کرنا عین حکم شرع شریف ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے : اور وہ لوگ کہ جب انہیں بغاوت پہنچے تو بدلہ لیتے ہیں ۔(پارہ 25،رکوع 5)
حضرت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں ”پچھلی آیتوں میں معافی کا ذکر تھا ۔ اس میں بدلہ لینے کا ۔ معلوم ہوا کہ معافی اعلیٰ ہے اور بدلہ لینا بھی اچھا کیونکہ کافر حربی اور ظالم سے بدلہ لینا امن کے قیام کا ذریعہ ہے ۔” (نور العرفان)
اور تفسیر عثمانی میں ہے ۔”یعنی جہاں معاف کرنا مناسب ہو معاف کرے مثلاً ایک شخص کی حرکت پر غصہ آیا اور اس نے ندامت کے ساتھ عجز و قصور کا اعتراف کر لیا اور اس نے معاف کر دیا تو یہ محمود ہے اور جہاں بدلہ لینے میں مصلحت ہو مثلاً کوئی شخص خواہ مخواہ چڑھتا ہی چلا جائے اور ظلم و زور سے دوسرے کو دبا نے کی کوشش کرے یا جو اب نہ دینے سے اس کا حوصلہ بڑھتا ہے تو ایسی حالت میں بدلہ لیتے ہیں ۔” (تفسیر عثمانی )