طاہر نقوی کے افسانے
ڈاکٹر یونس حسنی
طاہر نقوی صاحب سے میری ملاقات کئی سال قبل ایک ادبی محفل میں ہوئی تھی۔ جہاں انہوں نے اپنا افسانہ “افسانہ نگار کی اپنے کردار سے آخری ملاقات” پڑھا تھا اور میں نے اس پر تبصرہ کیا تھا۔ کیا تبصرہ کیا تھا مجھے مطلق یاد نہیں۔
اب کئی سال بعد وہ اپنے افسانوں کے نئے مجموعے “کوئوں کی بستی میں ایک آدمی” کی رسم اجراء کے موقع پر میری شرکت کی دعوت لے کر آئے اور فرمایا کہ چند سال قبل تم نے میرے افسانے پر جو تبصرہ کیا تھا اس سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ تم افسانے کو کس طرح سمجھتے اور اس کے ایک اچھے ناقد ہو۔ میں افسانے کا اچھا ناقد تو کیا اچھا قاری بھی نہیں ہوں۔ افسانہ میں ضرورتاً پڑھتا ہوں۔ تدریسی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے ادب کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہی کا تقاضہ ہے کہ افسانے کے مطالعے کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔
اُس وقت اُن کے افسانے پر میں نے کیا تبصرہ کیا تھا وہ مجھے یاد نہیں البتہ اس مجموعے کا پہلا افسانہ جو اس مجموعے کا نام بھی ہے ہاتھ آگیا ہے اور وہ بڑا جاندار افسانہ ہے۔وہ لفظ جو کھویا گیا ہے اور تخلیق کار جس کی تلاش میں ہے معاشرہ اس تلاش پر خندہ زن ہے مگر تخلیق کار کو اس کے بغیر قرار نہیں آتا۔ یہ لفظ ہے جو سچا ہے۔ جو جرات کی علامت ہے اور تخلیق کی صداقت ہے مگر وہی کھو گیا ہے اسی پر پہرے لگے ہیں اور اسی کو استعمال کرنا جرم ہے۔
دوسرا افسانہ وہی ہے جس سے میں پہلے سے واقف ہوں۔ یہ وہ کردار ہے جسے تخلیق کار تخلیق کرنا چاہتا ہے۔ کردار خود خالق کے ذہن میں لکھ لیتا ہے۔ اور مرغی کے بچے کی طرح خود انڈے سے برآمد ہونا چاہتا ہے۔ تخلیق اور اس میں خیانت مرتکب نہیں ہوسکتا ورنہ کردار خود بغاوت پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو تخلیق کرا کے چھوڑتا ہے۔ بعض دوسری خوبیوں کے علاوہ اس آفسانے کی ایک خوبی اس کے کاٹ دار جملے بھی ہیں جو زندگی کے تجربات کا حاصل ہوتے ہیں مثلاً کردار افسانہ نگار سے کہتاہے:
“لفظیcosmetics سے کام مت لو”
میں اگرچہ اردو تحریر میں انگریزی الفاظ کے استعمال کو حرجاً ناپسند کرتا ہوں لیکن اس فقرے میں لفظ کے ساتھ Cosmetics اپنے تمام حسن و جمال کو ساتھ جگمگارہا ہے اور ہماری مجبوری پر خندہ زن ہے۔
“عورت جس مرد کو چاہتی ہو اس سے شادی ہو سکے تب بھی پیدا ہونے والے بچے اس کے ہوتے ہیں۔”
“بستر پر اس کے ساتھ شوہر ہوتا ہے مگر ذہن میں وہی مرد بٹھا ہوتاہے یہ ایسے تجربے ہیں جو ہوتے ہر ایک کو ہیں مگر لفظی اظہار کسی کسی کو ہی تصیب ہوتا ہے۔”
“اُبال” میں بھی ایسے فقروں کی کمی ہیں۔”ابال” بڑا بامعنی افسانہ ہے۔ پورا افسانہ پڑھا ہو تو ان آخری فقروں “بھلا بیوی تیرے جیسی ہوتی ہے؟”
“اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا اور دھیمے لہجے میں صرف اتنا پوچھا تو اور کیسی ہوتی ہے”
کی معصومیت سمجھ میں آتی ہے۔ پورا افسانہ ان دو فقروں میں اپنی معصومیت چھپائے ہوئے ہے۔ افسانے فن میں یہ ہنر کیا کہلاتا ہے یہ تو مجھے معلوم ہیں۔ مگر ایسی ہنر مندی سے ہی افسانے میں جاذبیت اور معصومیت پیدا ہوتی ہے۔
“اکیلا”بھی ایک ایسا افسانہ ہے جو افسانہ نگار کا عنیت پسندی کا آئینہ دار ہے۔ طاہر نقوی صاحب خود بھی اکیلے ہیں اور ایسے ہی کردار تخلیق کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جو اکیلے ہوں۔ جو اچھے بھی لگیں تو نظر کی کمزوری کی ہی صورت میں۔کیونکہ اچھے وہ اسی وقت لگتے ہیں جب وہ دوسروں سے مطابقت پیدا کر سکیں۔
”بے بس” کا اختتام اسی انداز کا ہے جیسا منٹو کے یہاں ہوتا تھا۔ قاری کو اختتام پر ایسا ذہنی جھٹکا لگتا ہے کہ افسانہ ذہن پر ثبت ہو کر رہ جاتا ہے۔ افسانہ کی تکنیک میں اختتام کا یہ انداز ہمیشہ اثرانگیز ہوتا ہے۔
“مسئلہ” “امر جینی” “آزمائش” ایسے افسانہ ہیں جو انسانی زندگی کے کسی نہ کسی رخ کو بڑی چابک دستی سے بے نقاب کرتے اور ہمیں اپنا طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہے۔ ہر افسانے کا اختتام حیرت ناک ہے جو ہماری زندگی کا حاصل ہے۔
١٦٠ صفحات کی اس کتاب میں ٣٢ افسانے ہیں جو بہت مختصر ہیں ۔ مختصر مختصر افسانے کی یہ خوبی ہے کہ وہ مختصرہو۔ اس کا اختصار ہی اسکی خوبی ہوتا ہے۔ مگر یہ خوبی افسانہ نگار اپنے فن سے پیدا کرتا ہے۔ طاہر نقوی صاحب کو یہ فن آتا ہے اس لئے ان کے افسانے خوش گوار بھی ہیں اورحیرت انگیز بھی۔
ان کے افسانوں میں کہیں علامتی رنگ ہے اور کہیں حقیقی،ان کے علامتی افسانوں میں علامیت قابل فہم ہے۔ ہمارے معاشرے میں علامتی افسانے کی علامات قاری کے لئے نا قابل فہم ہو کر رہ گئی ہیں اور اس لئے افسانے کی تفہیم دشوار ہو گئی ہے قاری اور افسانہ نگار مد مقابل کھڑے ہیں۔ خالق کا اصرار ہے کہ اس نے جو کچھ تخلیق کیا ہے اس پر قاری کی رسائی نہیں ہو پارہی۔ قاری کا شکوہ ہے کہ جو کچھ کیا گیا ہے اس کا انداز ہی نرالا اور ناقابل فہم ہے۔ اس کیفیت نے وہی صورت حال پیدا کردی ہے جو روغن گل بھینس کے انڈے سے نکالنے میں پیدا ہوتی ہے۔طاہر نقوی صاحب علامت نگا ری کے اس اسلوب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہے۔ ان کی علامت عام قاری کے لئے بھی قابل فہم ہیں اس لئے ان کے افسانوں کی تفیہم بھی آسانی سے ہو جاتی ہے اور ان سے لطف اندوز بھی ہوا جا سکتا ہے
ان کی زبان سادہ، اسلوب واضح اور تجربے قابل تسلیم ہیں۔ وہ ایک ماہر لکھاری ہیں۔ اور افسانے کی تکنیک اور اس کی دوسری فنی ضروریات کو برتنے پر بڑی دسترس رکھتے ہیں۔
چلتے چلتے طاہر نقوی صاحب سے ایک بات ! وہ لفظ جو کھو گیا ہے اور جسے مقید کر کے تخلیق کار سے دور کردیا گیا تھا۔ وہ یوں ہی مقید رہے گا۔ اور صرف وہی فنکار ندہ رہیں گے جو اس گم شدہ لفظ کی تلاش کے کھگیڑ سے بچ کر آزادانہ تخلیق کے خو گر و عادی ہوں گے۔