طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح،تدارک کیسے ممکن ہو؟

 ساجدہ پروین

 اوسلو

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت و مرد کے مضبوط و پائدار تعلق کی بنیاد نکاح ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا وجود میں آنے والا انسانی رشتہ بھی میاں بیوی کا رشتہ تھا۔ یہی وہ رشتہ ہےجس کی بنیاد پر دیگر خاندانی رشتے وجود میں آتےہیں ۔اس بندھن کی بندش ذرا کھول دیجیے کسی انسانی رشتے کا وجود باقی نہیں رہے گا۔اسلام نے خاندان کو معاشرتی استحکام کی بنیاد قرار دے کر اسکے تخفظ کے لئے قانون سازی کی۔ زناکی ممانت اوراسکے مرتکب کے لئے سخت سزا،محرم و نا محرم کی حدود بندی، پردے کے احکامات،مرد و عورت کے دائرہ کار کا تعین ، یہ تمام اقدامات خاندانی استحکام کے لئے اختیار کئے۔خاندان  انسانیت سازی کا وہ کارخانہ ہے جس میں انتشار انسانی نسلوں میں فساد کا باعث بنتاہے اوربالآخر پورے معاشرے کو فساد زدہ کر دیتا ہے۔

ناروے میں مقیم مسلمان کو درپیش سب سےبڑاچیلنج خاندان کی بقا کاہےجواسلام کے اعلی اصولوں کی روشنی میں تشکیل پاتاہے۔

خاندان کی بنیادیں کیوں ڈھیلی ہوتی جا رہی ہیں۔؟پاکستانی کمیونٹی میں طلاق کی شرح افسوس ناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔اسکےاسباب کاجائزہ لینے کے لئے نظم خواتین اسلامک کلچرل سنٹر نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا۔تاکہ جائزہ لیا جائے کہ انتشار و طلاق کا سبب آیا اسکی تشکیل کی خرابی ہے یا کچھ اور وجوہات ہیں۔ میری نظر میں

1.پہلی خرابی جسے بنیادی خرابی بھی کہا جا سکتا ہے وہ تلاش زوج میں ذات پات”غیر اسلامی اصولوں”کی بنیاد پر اسلامی خاندان کا وجود میں لایا جانا ہے۔ ۔یہ ایسی ہی ہے جیسے سونےکو پیتل کا ٹانکا لگاکر جوڑنےکی کوشش کی جائے۔ خدا پرستی و ایمان پر رشتہء زوج نہیں بلکہ نسل، برادری کی بنیاد پر دو افرد کو جمع کیا جاتا ہے یہ بنیاد،ایمانی بنیاد کی بنسبت کتنی کھوکھلی ثابت ہوتی ہے اس کا تجربہ بے شمار خاندان کر چکے اور مزید کچھ کرنے کاارادہ رکھتے ہیں قرآن پاک نے پوری رؤئے زمین پر بسنے والی نسلِ انسانی کو ایک والدین کی اولاد قرار دے کر رنگ و نسل حتٰی کہ مذہب و ملت کی بنیادیں بھی ڈھا دیں اس میں تفریق کوپسند نہ کیاچہ جائیکہ وہ اپنی منتحب قوم میں تفریق کو پسند کرتا۔ذات پات برادری کی اہمیت محض ایک پہچان کی حثیت رکھتی ہے جیسےبےنام انسان کی شناحت اسکا نام  ہے۔

ایک اور بڑا فیکٹر یہاں کا ماحول و معاشرت اور تعلیم ہے مغربی معاشرہ اپنی تمام تر اچھائیوں کے باوجود بنیادی طور پر” بے خدا معاشرہ ہےجسکا نظریہ ہے کہ”مغرب میں سب کچھ آسکتا ہےمگر خدانہیں آسکتا”۔”مغربی معاشرہ دراصل تصور خاندان سے خالی معاشرہ ہے۔نکاح کا تصورچونکہ بنیادی طور پرایک مذہبی تصور ہے لہذا اسکی نفی اس طرح کی گئی کہ آآپکی نکاح کے بغیرپیدا ہونے والے بچوں کو وہی قانونی تخفظ ومعاشرتی مقام و مرتبہ دیا گیا جو مذہب، صرف نکاح کے نتیجےمیں پیدا ہونے والے بچوں کو دیتا تھا  تاہم مغربی معاشروں میں موجودعیسائی مذہبی گروہوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے نکاح کو قانونی جرم تو قرار نہیں دیا جا سکاالبتہ اسکی حوصلہ شکنی اورمخالفت میں آزادی نسواں کی علمبراد خواتین کامہر بندلٹریچراچھی خاصی تعداد میں موجود ہے جو نکاح کو عورت کی آزادی میں رکاوٹ اور اسکی غلامی سے تعبیر کرتا ہے۔ حتٰی کہ یہ خواتین تو عورت کے اندر ممتا کے جذبے کی موجودگی کو بھی اسکی کامل آزادی میں رکاوٹ قرار دے رہی ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

چھٹی ساتویں کلاس کے لیول سےمادر پدرآزادی پرمشتمل کہانیوں کی کتابیں لائبریوں مین بچوں کو جاری کی جاتیں ہیں۔(کیا کبھی والدین نے نوٹس لیا ہےکہ کس قسم کالٹریچر انکے بچوں کے زیر مطالعہ ہے؟ٰ)۔ٰ

  انہی نظریات کے حامل اساتذہ کے زیرسرپرستی تعلیمی اداروں میں پروان چڑھنے والی مسلمان نسل سے آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ یہاں کا نوجوان لڑکا اور لڑکی ایک دوسرےکے بوجھ و نخرےاٹھائیں۔ جبکہ دورانِ  تعلیم ان میں(آخر ت پرستی کے برعکس)انفرادیت ونفس پرستی کا رحجان کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہو۔معاشرتی رحجان کی تقلید میں مسلمان نوجوانوں میں تعلیم وکیرئیراولیت جبکہ شادی ،خاندان اور بچے ثانوی حثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں نتیجتابچیاں پختہ عمر کو پہنچ جاتی ہے۔جس میں لڑکیوں کو بالخصوص شوہر کے ساتھ سمجھوتہ اور خاندان بوجھ محسوس ہونے لگتے ہیں۔

ایک اور بات کہ ماضی قریب میں” جبرا شادی” ایسا ایشو رہا ہےجس کی حوصلہ شکنی کے لئےنارویجن حکومت نے ایسے بے شمار اقدامات کئےجس میں قانون سازی کے ساتھ ساتھ مسلم کمیونٹی کے ہر فورم پراس پر بات کی جاتی رہی ہےاسکول و اخبارات ہر ذریعے سےاس کےسدباب کی کوشش کی گئی۔ اور اب”جببابالرضا”کی اصطلاح ارینج میرج کے قائم مقام استعمال ہو رہی ہے۔گذشتہ دنوں چند پاکستانی نوجوانوں کےانٹرویو بھی نارویجن نیٹ اخبارمیں پڑھنے کو ملے۔ جن کے بقول انہوں نے اپنے ماں باپ کی خوشی کی خاطرپوری رضا مندی سے شادی کی۔میڈیا اسکو “جبر بالرضا” سے تعبیر کر رہا ہے۔ مجھے خدشہ ہےحکومت اگراسکی حوصلہ شکنی میں وہی طریقے اختیار کرتی ہے تو آپ تصور کریں آپ اپنےبچے کےساتھی کےانتحاب کا کیا طریقہ کار اختیار کریں گے؟ لگتا ہے شیطان غیر محسوس طریقے سےہماری نسلوں کو بھی اسی پٹڑی پر چڑھارہا ہے۔ جس پر مغربی انسان کو ایک صدی قبل ڈالا گیا تھا۔

 

 ذات پات کے مسئلے آہستہ آہستہ ثانوی حثیت آختیار کرتے جائیں گے جبکہ ماحول کا مسئلہ سب پر حاوی ہوتا جائے گاْ۔ ایک مضمون سے اقتباس پیش ہے “جس طرح آپ اسمبلی میں بیٹھ کر بڑھئی کاکام نہیں کرسکتےحوالات میں داخل کر دئے جائیں تو آزادی کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا.سڑک پر کھڑے ہو کر بچوں کو تعلیم نہیں دی جا سکتی اس کے لئے سکول جانا پڑتا ہے گویا کسی بھی کام کو کرنے کے تقاضے پورے کئے بغیر،اس کے لئے درکار ماحول پیدا کئے بغیر مطلوبہ نتائج نہیں حاصل کئے جا سکتے۔ خاندان کو بنانے،تعمیر کرنے،برقرار رکھنے کے لئے بھی ماحول شرط ہے(بحوالہ آئین)۔

اگر ہم نےطلاق کی بڑھتی شرح کاتدارک کرنا ہےاورآنے والی پاکیزہ نسلوں کو نکاح کے ذریعے ہی وجود میں لانا ہے تو ہمیں چند اقدامات آج ہی کرنا ہوں گے۔

۔؎   ذات پات کی قید سے آزاداورایمان کی بنیاد پر خاندان کو تشکیل دینا ہو گا گذشتہ دنوں یو کے اسلامک مشن کے صدر،”نئی نسل اور درپیش مسائل اور انکے حل”کے موضوع پر گفتگو فرما رہے تھے کہ بچوں کی شادی میں صرف اپنے ہم وطنوں کا ہی انتخاب نہ کریں دیگر ممالک کے مسلمانوں سے بھی اپنے بچوں کی شادیاں کریں۔تاکہ ایک مضبوط اسلامی کمیونٹی وجود میں آسکے۔ بقول انکے انہوں نے اپنی بھانجی کا رشتہ ایک افریقی نسل برٹش سے صرف اس لئے کردیا کہ وہ انتہائی باعمل تعلیم یافتہ مسلمان تھا۔۔”

اس کےلئے میرج بیرو چلانے والے افراد بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔وہ صرف ذات پات پر اصرار کرنے والے خاندانوں کی تلاش رشتہ میں مدد کرنے سے معذرت کر دیں۔ بلکہ میں تو مشورہ دوں گی اپنے فارم میں ذات کے کالم کو ہی نکال دیں۔ تاکہ وہ اپنی قوم کےلئے انتہائی نقصان دہ عمل میں الله تعالی کےحضور انکے مدد گار نہ لکھیں جائیں۔

۔  تعلیمی و معاشرتی چیلنج کاتدارک نسل نو کے اندر صحیح اسلامی اسپرٹ پیدا کر کےکیا جا سکتا ہے۔ تمام نہ سہی مگر باشعور والدین اپنے بچوں میں تعلیم کاازالہ حکمت کیساتھ گھر کے اندر اسلامی تعلیم سے کریں۔وہ معاشرہ جو کفر کےلئےلاکھوں دلیلیں رکھتاہےاسکا مقابلہ محض قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم اور چھ کلموں کی مدد سے نہیں کیاجاسکتا۔اسلام ہر بات کا جواب دلیل سےدیتا ہےکسی بات کواپنے پیروکاروں پر تھوپتا نہیں۔اسلام اگر دلائل سےبات کرتا ہےتو مغربی معاشرے کی خوبی ہےکہ دلائل کیساتھ پیش کردہ نظریات کو کھلے دل سے سنتے ہیں۔یہی وجہ ہےکہ موجودہ دور میں اسلام قبول کرنےوالوں کی اکثریت کا تعلق مغرب سے ہی ہے۔دوسری بات والدین باہمی تعلقات و برتاؤ میں اسلامی اصولوں کوبرتیں۔ ماہرین عمرانیات کا تجزیہ ہے کہ گھریلو کلچر معاشرے پرفوقیت حاصل کرلیتا ہےلحاذآ ہم اگر صرف اپنےگھرکی سلطنت میں مکمل اسلامی اصول اپنا لیں تو مستقبل کےمسائل سےعہدہ براء ہونا کچھ بھی مشکل نہیں رہےگا۔

میرے نزدیک مغرب زمین آسمان کی قوتوں کو تسیخر پا کر خالق کو بھی مسخر کرنے کی نادانی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ الہامی ہدایت کے خلاف سرکشی اور بغاوت کا رویہ اختیارکرنے والی طاقتور قوموں کی کہانیوں کو قرآن نے اپنے اندرمخفوظ کر رکھا ہے۔اور وقتا فوقتا ہمیں سناتا بھی رہتا ہے۔آج کی طاقتور قوم کو ان اعلیٰ آفاقی اصولوں سےمتعارف کروانےکی ذمہ داری ایک بار پھر تاریخ نے میرےاور آپکے سپرد کی ہے۔اسلامک کلچرل سنٹر کے امام مولانا محبوب الرّحمٰن کا ایک جملہ جسےوہ اکثروبیشتر دھراتےرہتےہیں۔”کہ یہ قوم ہماری محسن ہے اور اپنے محسن کا حق ادا کرنا فرض ہے۔جو خیراس قوم کے پاس تھی اس سے ہمیں بھرپور فائدہ پہنچایا اب جو خیر ہمارے پاس ہے وہ ہم پر فرض ہے وہ ان تک پہنچائیں۔” مغرب کو دینے کے لئےہمارے پاس واحدخیرقرآن پاک کے آفاقی اصول ہیں۔جوانسانیت کی اصلاح کا بہترین نسخہ ہیں اورخاندان وہ مضبوط قلعہ جہاں ایمان و انسانیت پنپتی اور پروان چڑھتی ہےمغرب کی نکاح سےآزاد زندگی کی نادانی کاازالہ آفاقی الہامی خاندانی اصولوں سے کیا جا سکتا ہےاپنے محسن کا حق ہم ڈیپریشن سے آزاد خاندانی زندگی دےکرسکتے ہیں۔یہ ہم پر فرض بھی ہے اور آج کا جہاد بھی۔پورےدعوےسےکہہ سکتی ہوں کہ مغرب میں ہماری اپنی بقاکا واحد زریعہ مضبوط خاندان ہے۔   

خاندان کے ٹوٹنے پراگرعرش ہلتاہےتوالحمد لله ہمارےاہل دماغ بھی اس منظر نامےپرکچھ متفکردکھائی دیتے ہیں وگرنہ پاکستانی قوم کو کوئی طاقتورزلزلہ بھی نہیں ہلا سکا ۔

3 تبصرے ”طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح،تدارک کیسے ممکن ہو؟

  1. Me Sajida ji se bilkul itifaq kartee hoon. Bohot achee tehreer he, Allah unko lambee omer aur sehet ata kare.aur ham sab ko neki kee talqeen de ameen!

  2. Sahih farmaya ap ne .Bohat shukria .aap ka likhnay andaz bhi bohat shandar hai.Meray khiall Mahol,sakafat bhi mukhtilif honay se bohat farrq padrhta hai.aur baaz daffa Pakistan se bahir wala sharreek e hayat apnay aap ko dossray saathi baatarr samjat hai. Meray apnay saath aisa hi howa hai, Khiarr Aggarr mumkin howa ,barra e meharbani mera ye tabsira URDU main Likh dijiay ga.Main nahi likh saka hoon.
    Shukria.

اپنا تبصرہ لکھیں