selected by
Tariq Ashraf
اگر ہم چھٹی صدی عیسوی سے دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ چھٹی صدی عیسوی میں اس دنیا میں روم اور فارس کی دو بڑی سلطنتیں آپس میں خونریز جنگوں کی شکل میں محاذ آرا تھیں۔ فاتح سلطنت ہر جنگ کے بعد ایک ورلڈ آرڈر جاری کرتی جس کے تحت چھوٹی ریاستوں کو اپنا مطیع بنا لیا جاتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا میں ملوکیت اور بادشاہت کا دور تھا۔ سرِ زمین عرب کا جنوبی حصہ سلطنتِ حبش کے پاس تھا، مشرقی حصہ سلطنتِ فارس کے قبضہ میں تھا اور شمالی حصہ پر سلطنتِ روم قابض تھی۔ ملک عرب ایک وحدت کی بجائے کئی خود مختار قبیلوں میں منقسم تھا۔ دو طاقتی نظام رائج تھا۔ طاقت کا توازن اس وقت کی دو بڑی سلطنتوں روم اور فارس نے سنبھالا ہوا تھا۔ مگر یہ نظام بری طرح ناکام ہوا اور عالمی امن قائم نہ رہ سکا۔ کیونکہ ان میں سے کسی سلطنت کا ورلڈ آرڈر انصاف، صلح اور مساوات پر مبنی نہ تھا بلکہ یہ ورلڈ آرڈر توسیع سلطنت کی خواہش اور اقتدار کی ہوس پر مبنی تھا۔
خطبہ حجۃ الوداع اور اِسلامک ورلڈ آرڈر کا اِعلان
ان حالات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 23 سال کی جد و جہد کے بعد ایک ایسا معاشرہ قائم کر کے دکھایا جو قیامت تک کے لئے قابلِ تقلید تھا اور پوری دنیا کی رہنمائی کے لئے ایک ورلڈ آرڈر جاری کیا جس کا باضابطہ اعلان خطبہ حجۃ الوداع میں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگو! خبردار! پچھلا عالمی نظام جو استحصال، ظلم، ناانصافی اور جبر و تشدد پر مبنی تھا آج وہ ختم ہو رہا ہے۔ اسے میں اپنے قدموں تلے روند رہا ہوں اور کائناتِ انسانی کو نیا عالمی نظام عطا کر رہا ہوں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 10ھ میں آخری حج ادا فرمایا جسے حجۃ الوداع کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس موقع پر بتاریخ 9 ذی الحجہ میدان عرفات میں آپ نے خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا جو عالم انسانیت کے لئے انسانی حقوق کا پہلا باقاعدہ چارٹر (Charter of Human Rights) اور اقوام عالم کے لئے نیا عالمی نظام (New World Order) تھا۔
خطبہ حجۃ الوداع کو تاریخ انسانی میں نیو ورلڈ آرڈر کی حیثیت کیسے حاصل ہے اس حقیقت کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل الفاظ میں خود اشارہ فرما دیا ہے :
1۔ نئے عالمی نظام کا آغاز
إنّ الزمان قد استدار کهيئته يوم خلق اﷲ السماوات والأرض.
’’(اور دیکھو) اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان (یعنی نظامِ عالم) کو جس حالت پر پیدا کیا تھا، زمانہ اپنے حالات و واقعات کا دائرہ مکمل کرنے کے بعد پھر اس مقام پر دوبارہ آگیا ہے۔‘‘
گویا زبانِ نبوت اس امر کا اعلان فرما رہی تھی کہ نظام عالم کے ایک دور کا خاتمہ ہوچکا ہے اور آج سے دوسرے دور کا آغاز ہو رہا ہے اور میں دنیائے انسانیت کو نظامِ عالم کے نئے دور کے آغاز پر ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ کے ذریعے بالخصوص اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ذریعے بالعموم نیا عالمی نظام عطا کر رہا ہوں۔
2۔ سابقہ جاہلانہ اور ظالمانہ نظام کی منسوخی
ضروری تھا کہ اس موقع پر آپ پچھلے نظام اور اس کے جاہلانہ اُمور کو منسوخ کرنے کا اعلان بھی فرماتے۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ألا! کلّ شيء من أمر الجاهلية تحت قدمي موضوع، ودماء الجاهلية موضوعة، . . . ورباء الجاهلية موضوع.
’’خبردار! دورِ جاہلیت کا سارا (ظالمانہ اور استحصالی) نظام میں نے اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔ آج سے نظامِ جاہلیت کے سارے خون (قصاص، دیت اور انتقام) کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں اور آج سے نظامِ جاہلیت کے سارے سودی لین دین بھی ختم کئے جاتے ہیں۔‘‘
ان دو اعلانات کے بعد اس امر میں کسی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ خطبہ حجۃ الوداع فی الحقیقت ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا ہی اعلان تھا۔ اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ نیو ورلڈ آرڈر کے اہم پہلو کیا تھے؟
3۔ عالمی اَمن کے قیام کا اِعلان
اس اسلامک ورلڈ آرڈر کا سب سے اہم پہلو عالمی سطح پر قیام امن تھا۔ اقوام، ممالک اور قبائل ہمہ وقت قتل و غارت گری اور جنگ وجدال کے فساد انگیز عمل میں مبتلا رہتے تھے۔ قبائل میں لامتناہی جنگوں کے سلسلے جاری رہتے تھے، انسانی خون نہایت ارزاں ہوگیا تھا اور معمولی معمولی بات پر تلواریں نکل آتیں اور دیکھتے ہی دیکھتے نسلیں خون آشام منظر کی بھینٹ چڑھ جاتیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان ہولناک حالات میں عالمی سطح پر قیام امن کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا :
فإن دماء کم وأموالکم وأعراضکم عليکم حرام کحرمة يومکم هذا في بلدکم هذا في شهرکم هذا.
’’اے بنی نوع انسان! بیشک تمہاری جانیں اور تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام کر دی گئی ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت اور اس مہینہ کی حرمت تمہارے اس شہر میں برقرار ہے۔‘‘
جس میں تم ایک دوسرے کی بے حرمتی نہیں کر سکتے اسی طرح تم کبھی ایک دوسرے کی جان و مال کی بے حرمتی بھی نہیں کر سکتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کو مزید ان الفاظ کے ذریعے مؤکد فرمایا :
ألا فلا ترجعوا بعدی ضلالًا يضرب بعضکم رقاب بعض.
’’خبردار! تم میرے بعد پلٹ کر پھر گمراہ نہ ہوجانا یوں کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (یہ سب سے بڑی گمراہی ہوگی)۔‘‘
4۔ عالمی اِنسانی مساوات کا قیام
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی نسلوں، طبقوں اور معاشروں کی ایک دوسرے پر مصنوعی فضیلت و برتری کے سب دعوؤں کو ختم فرما دیا اور انسانی مساوات کا عالمی اعلان فرما کر ساتھ ہی باہمی فضیلت کا دائمی عادلانہ اصول بھی مقرر فرمادیا۔ ارشاد فرمایا :
الناس بنو آدم وآدم من تراب.
’’تمام بنی نوع انسان، آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے تخلیق کئے گئے تھے۔‘‘
ألا! کل مأثرة أو دم أو مال يدعی به فهو تحت قدمی هاتين.
’’اب فضیلت و برتری کے سارے (جھوٹے) دعوے، جان و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جاچکے ہیں۔‘‘
أيها الناس، إن ربکم واحد وأباکم واحد.
’’اے لوگو! تم سب کا رب ایک ہے، اور باپ بھی ایک ہے۔‘‘
هيثمی، مجمع الزوائد، 3 : 266
إن أکرمکم عند اﷲ أتقاکم فليس لعربی علی عجمی فضل ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی أبيض ولا لأبيض علی أسود فضل إلا بالتقوي.
(اس وحدت نسل انسانی کے باعث تم سب برابر ہو) مگر تم میں بزرگ و برتر وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار (بہتر کردار کا مالک) ہے۔ پس کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری نہیں اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر برتری حاصل ہے ساری برتریاں، کردار و عمل پر مبنی ہیں۔‘‘
طبرانی، المعجم الکبير، 18 : 12، رقم : 16
یہ مساوات انسانی کا وہ عالمی اصول تھا جس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بین الاقوامی سطح پر جمہوری اور عادلانہ انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی یہی اصول آگے چل کر عالمی جمہوریت کے قیام (Establishment of World Democracy) کا باعث بنا۔
5۔ معاشی و اِقتصادی اِستحصال کا خاتمہ (Eradication of Economic Exploitation)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی ورلڈ آرڈر کے ذریعے سود کو استحصالی نظام قرار دے کر اسے کلیتاً مسترد بلکہ ختم کرنے کا اعلان فرمایا۔ ارشاد فرمایا :
وإن کل ربا موضوع ولکم رؤوس أموالکم لا تظلمون ولا تظلمون.
’’بے شک آج سے ہر قسم کا سود (اور سارا سودی نظام) منسوخ کیا جاتا ہے تم اپنے سرمائے کے سوا نہ کچھ لے سکتے ہو اور نہ کچھ دے سکتے ہو۔ نہ تم سودی لین دین کی شکل میں ایک دوسرے پر ظلم کرو اور نہ قیامت کے دن تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘
ابويعلی، المسند، 3 : 139، رقم : 1596
قضی اﷲ أنه لا ربا.
’’یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ سود (اور اس پر مبنی ہر قسم کا اقتصادی استحصال) ممنوع ہے۔‘‘
6۔ عورتوں کے حقوق کا تحفظ (Protection of Women Rights)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سابقہ عالمی نظام میں خواتین پر روا رکھے گئے تمام مظالم کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی۔ ارشاد فرمایا :
أيها الناس! فإن لکم علی نسائکم حقًا ولهن عليکم حقًا . . . واستوصوا بالنساء خيرًا، فاتقوا اﷲ في نسائکم.
’’اے لوگو! بے شک تمہارے کچھ حقوق عورتوں پر واجب ہیں اور اسی طرح عورتوں کے کچھ حقوق تم پر واجب ہیں (ان کی پوری طرح حفاظت کرنا) عورتوں سے ہمیشہ بہتر سلوک کرنا اور عورتوں کے حقوق کے معاملے میں ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہنا۔‘‘
7۔ زیردست اور افلاس زدہ اِنسانیت کے حقوق کا تحفظ (Protection of Rights of the Poor and Depressed Classes)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالمی سطح پر عادلانہ اور غیر استحصالی انسانی معاشرہ قائم کرنے کے لئے یہ عظیم انقلابی اعلان بھی فرمایا :
أرقّائکم أرقّائکم اطعموهم مما تأکلون واکسوهم مما تلبسون.
’’لوگو! زیردست انسانوں کا خیال رکھنا، زیر دستوں کا خیال رکھنا۔ انہیں وہی کچھ کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور ایسا ہی پہناؤ جیسا تم خود پہنتے ہو۔‘‘
اس اعلان نے عالمی نظام سے غلامی کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی۔ اور انسانی طبقات میں غیر فطری تفاوت کے خلاف انقلاب آفریں نظام وضع کردیا۔
الغرض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع کے ذریعے انسانیت کو ایسا نیو ورلڈ آرڈر (نیا عالمی نظام) عطا فرمایا جو آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج عالم اسلام عملاً اس کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ کر رہا ہے یا نہیں۔
اسلام کی تاریخ میں یہ نیو ورلڈ آرڈر آج بھی دنیا کو ایسے اصول فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہوکر دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے اس لئے امت مسلمہ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کئے ہوئے ورلڈ آرڈر کی موجودگی میں کسی اور ورلڈ آرڈر کی ضرورت نہیں۔
اسلامک ورلڈ آرڈر کے تحت پوری دنیا سے ظلم و نا انصافی کے خاتمے اور نظام مساوات و انصاف کے نفاذ کی عملی جدوجہد کا آغاز ہوا اور جلد ہی اسلام کی اس ابھرتی ہوئی طاقت نے روم اور فارس کی دونوں عالمی استحصالی طاقتوں کو چیلنج کردیا اور ان طاقتوں کو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یوں دنیا میں اسلامک ورلڈ آرڈر کا نفاذ کر دیا گیا۔ اس ورلڈ آرڈر کے نفاذ سے بدامنی اور ظلم و بربریت کا خاتمہ ہوگیا اور ایک ایسے بین الاقوامی معاشرے کا آغاز ہوا جس میں خیر، تعمیر، ارتقاء اور عدل ہی عدل تھا۔ جو انسان کے بنیادی حقوق کا ضامن تھا۔ جس میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری، عالمی امن کے قیام، پر امن بقائے باہمی، غلامی سے نجات، حق کی معاونت اور ظلم سے نجات کے سنہری اصول دیئے گئے تھے۔ اسلامک ورلڈ آرڈر کے سنہری اصولوں کے تحت خلفائے راشدین کے عہد خلافت میں 661ء تک مسلمانوں نے جتنے علاقوں کو فتح کیا وہاں کے غیر منصفانہ اور مستبدانہ قوانین کو منسوخ کردیا گیا۔ اور وہاں کی آبادی کو ہی اقتدار میں شریک کیا گیا۔
عہد خلافت راشدہ اور دور بنو امیہ سے لے کر سلطنت عثمانیہ (موجودہ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل) تک مسلمانوں نے اسلامک ورلڈ آرڈر کے اصولوں کے مطابق بین الاقوامی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے ہر فاتح نے انہی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو تشکیل دیا۔