تحریر شازیہ عندلیب
سویڈن کے سمندر میں اس کے ایک پڑوسی ملک کا بحری جہاز بلا اجازت اپنے اسٹور میں آبدوزیں بھر کر گھس آیا۔وہ سمندر میں بڑی دیدہ دلیری سے تیرتا رہا۔سویڈن کی سیکورٹی فورسز،بحری حکام اور سمندری ٹریفک کے ارکان اس بحری جہاز کو مٹر گشت کرتے دیکھ کر انگشت بد نداں رہ گئے۔جب سیکورٹی حکام نے پوچھ گچھ کی کہ بھائی ہمارے سمندر میں تمہارا کیا کام ہے بڑی ڈھٹائی سے جواب دی اکہ بس یونہی چلے آئے تھے۔جیسے پڑوسیوںکے لیے اداس ہوں یا پھر کوئی خیر خبر لینے آئے ہوں۔حکام نے کچھ روز پہلے سطح سمندر پر اچانک نمودار اور غائب ہونے والی آبدوز کے بارے میں بھی استفار کا کہ کیا وہ جناب کی تھی مگر وہ تو صاف مکر گئے اور انہوں نے اس سے کسی قسم کی لا تعلقی کا اظہار کیا۔
اصل میں سمندر میں مذکورہ بالا بحری جہاز کی آمد سے پہلے ایک آبدوز ظاہر ہوئی تھی۔جس کی تصاویر بھی کچھ لوگوں نے فوری بنا لیں ۔اس آبدوز کے بارے میں ایک شنید یہ بھی ہے کہ شائید وہ کوئی خراب آبدوز ہو گی۔تاہم اس مفروضہ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔وہ سمندر کی سطح پر آئی اورپھر وہ دوبارہ سمندر کی تہہ میں غائب ہو گئی۔اس کے بعد ایک برقی نامہ بھی پکڑا گیا جو جانے کس طرف کوجاتا تھا کہ اس کو راستے میں ہی اچک لیا گیا۔سارے مل کر اس آبدوز کو ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئے ۔سمندر میں آبدوز تلاش کرنا سوئی تلاش کرنے کے برابر ہے۔یہ بھی بلا شبہ بلا اجازت گھس آئی تھی۔ابھی اس نا معلوم آبدوز کی آمد کی وجہ سے تشویش کی لہریں ملک میں پھیلی ہوئی تھیں کہ سمندر کی لہروں پر اس سے بھی بڑی تشویش بحری جہاز کی شکل میں آ موجود ہوئی۔سمندر کی گہرائی میںآبدوز تو نہ ملی البتہ اچانک سطح سمندر پر یہ بحری جہاز مل گیا۔وہ بھی ایک نہیں کئی آبدوزوں سے بھرا ہوا۔بس پھر کیا تھا ہر طرف شور اور ہا ہا کار مچ گئی۔ سویڈش لوگوں نے سمندر کی حفاظت کا مطالبہ شروع کر دیا کہ اس میں بلا اجازت کس کو گھسنے کی اجازت نہ دی جائے۔
سارے بحری جہاز والوں سے سوال جواب کرنے لگے کہ یہاں کیوں آئے ہو کیا لینے آئے ہو ؟ یہ آبدوزتمہاری ہے کیا؟مگر نہ صرف پڑوس سے آنے والے بحری مسافر صاف مکر گئے بلکہ مان نہ مان میں تیرا مہمان کے مصداق سمندر میں ہی یوںبراجمان رہے ۔جیسے یہ انکے باپ داد کی ملکیت ہے یا پھر وہ ترکے میں چھوڑ گئے تھے کہ دودھوں نہائوں پوتوں پھلو۔ادھر وہ آبدوز تو یوں سمندر کی سطح پہ ظاہر ہو کے غائب ہو گئی جیسے کوئی شارک مچھلی ہو۔جو پیٹ میں بد ہضمی اور گرانی کے باعث سطح سمندر پہ ہوا خوری کے لیے آئی ہو اور ڈکار لینے کے بعد شڑاپ سے پانی کے اندر اتر گئی۔ادھر سب پریشان کہ اچانک کسی نے کہا کہ یہ اصل میں ناروے جانے کے لیے آیا تھا کیونکہ وہاں اسکے ایک باشندے نے تیل کا کنواں خرید رکھا ہے۔وہ تو اس سے ملاقات کی غرض سے جا رہا تھا۔سب کی توجہ اس جانب مبذول ہو گئی۔اب نارویجن سمندر میں تھر تھلی مچ گئی۔سارا سمندر پریشان سارا ناروے حیران۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی
کہ آخر یہ بحری جہاز یہاں کیوں آیا ہے کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ۔۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔ خود بحری جہاز والے کچھ نہ بتاتے ۔ کسی کو کچھ سمجھ نہ آتا۔۔کوئی بتانے سمجھانے والا جو نہیں تھا۔مگر شکر ہے میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔مجھے جب بھی کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا ہے میں اپنی سہیلی بھولی سے پوچھ لیتی ہوں۔بھولی میری دیرینہ دوست اور انتہائی عاقل و بالغ شخصیت کی مالک ہے۔جو بات کسی کو نہیں پتہ ہوتی وہ اسے پتہ ہوتی ہے۔
میں جب بھولی کے پاس گئی تو وہ بھری دوپہر میں سن گلاسز لگائے گرم گرم سورج کی تمازت اپنے اندر اتار رہی تھی۔لکڑی کے ٹیرس پہ کرسیاں بچھی تھیں۔میز پر دیسی دوکان سے لائے گئے چمن کے سنہری انگوروں کے گچھے پلیٹ میں پڑے دعوت دے رہے تھے۔جو وہ وقفے وقفے سے کھا رہی تھی۔سامنے باغ میں پیڑوں پر پرندے گیت الاپ رہے تھے کہ ناروے کی موسم گرماء کی سنہری دھوپ ٹھنڈی سمندری ہوا کے جھونکوں کے ساتھ مل کر اک عجب پر سرور اور جاں فزاں احساس فضا میں گھول دیتی ہے۔میں اس کے سامنے کرسی پر براجمان ہوئی تو اس نے سن گلاسز کے پیچھے سے اپنی مندی ہوئی آنکھیں کھولیں ۔انگور کے رس اور دھوپ نے مل کر بھولی کو خمار چڑھا دیا تھا ۔مجھے دیکھ کر اس کی آنکھیں کھل گئیں۔آنکھیں کیوں نہ کھلتیں میری پھولدار لانگ سمر شرٹ تھی ہی اتنی پر بہار۔اس کے چہرے پہ ایک میٹھی محبت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔پھر معنی خیز انداز میں بولی کہو کیسے آنا ہوا؟؟بہت دنوں بعد آئی ہو۔ہاں وہ ایک پریشانی ہو گئی تھی سوچا تم سے پوچھ لوں ۔میں نے جھنینپ کر اسے کہا۔وہ میری پریشانی بھانپ کر سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو گئی۔
میں نے کہا وہ بلا اجازت آ گیا ہے ۔وہ ؟؟ کون ؟وہی پڑوسیوں کا ۔۔کون پڑوسیوں کا کتا ؟؟نہیں نہیں ۔۔یہاں کے کتے اب اتنے بھی بد تہذیب نہیں۔۔۔تو پھر کون مرغے تو یہاں ہوتے نہیں کون آ گیا ہے؟وہ بے چینی سے بولی
مجھ جلدی بتائو میں اسکا ۔۔اس نے آستینیں چڑھاتے ہوئے مجھے سوالیہ نظرتوں سے دیکھا۔۔ ۔وہ بحری جہاز ۔۔اچھا وہ بھونچکی ہو کر مجھے متوحش نظروں سے دیکھنے لگی۔کیا تمہارے گھر کے تالاب میں آگیا ہے؟؟؟ پھر ہم دونوں مل کر ہنسنے لگ گئیں۔بھئی وہ سویڈن کے سمندر میں پڑوس سے ایک بحری جہاز آیا ہے ۔ساتھ اپنے آبدوزیں بھی لایا ہے۔مگر کسی کو نہیں یہ نہیں پتہ کہ کیوں آیا ہے ؟کس لیے آیا ہے؟میں نے اسے امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔اس کی موٹی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی جو میں سن گلاسز کے پار سے بھی دیکھ سکتی تھی۔وہ افق کے پار دیکھتی ہوئی بولی لو یہ کون سی بات ہے۔ضرور اس برفانی بھالو کو آسمانی جاسوس سیارچے سے سمندر کی تہہ میں کوئی قیمتی چیز نظر آگئی ہو گی۔اس نے اپنی آبدوز وہاں بھیجی ہو گی ساتھ میںپڑوسیوں کی جاسوسی بھی مطلوب ہو گی۔ ہر وقت پڑوسیوں کی ٹوہ میں رہتا ہے ۔ اس کنجوس کی آبدوز میں ہو گئی ہو گی کوئی خرابی۔ ساری مشینری پرانے زمانے کی رکھی ہوتی ہے ۔ہوائی جہاز دیکھو تو وہ بھی اتنے پرانے باوا آدمکے زمانے کے اور یہ بحری جہاز بھی ہو گا کوئی حضرت نوح
کی کشتی کے زمانے کا۔ اگلے جہاز بھر کے اس کی مدد کو پہنچ گئے۔سمندر کے اوپر سب کو باتوں میں لگا کے اندر خانے نیچے سے آبدوز کی مدد کو پہنچ گئے ہوں گے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر سرگوشی کے انداز میں کہا ،اور اسے خزانے سمیت اپنے ساتھ لے گئے ہوں گے۔کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی۔بعد میں پتہ چلنا ہے تو چلے کوئی کیا بگاڑ لے گا۔ایں۔۔۔یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔تمہیں نہیں پتہ یہ برفانی بھالو تو ہے ہی بڑا لالچی ۔میں اسے بچپن سے جانتی ہوں۔اس کی نظریں تو ہمیشہ سے پڑوسیوں کے مال پہ لگی رہتی ہیں۔ہر وقت تو گرم پانیوں کو دیکھ دیکھ کر ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرنا اس کا کام تھا۔وہ تو اپنے پنڈ کے چوہدریوں کی طرح ان گرم پانیوں پہ قبضہ کرنے کی سوچتا رہتا تھا۔ہر وقت گرم پانیوں پہ قبضے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا رہتا تھا کہ وہاں جا کر گرم گرم بھاپ میں سوانا باتھ لوں گا۔ اس نیت سے وہ افغانستان کے پہاڑوں پہ جا چڑہا کہ وہاں سے شارٹ کٹ مار کے پہنچ جائوں گا بحیرہء عرب تک۔پر سائیوں نے اسے آگے نہ جانے دیا وہیں اس کی ایسی ٹھکائی کی اور درگت بنا کے گھر واپس بھیجا ۔گھر گیا تو اسکا گھر ہی ٹوٹ رہاتھا۔پورے ملک کے ایسے ٹوٹے ٹوٹے ہو گئے جیسے گرم پانی سے برف تڑخ کے ٹوٹتی ہے۔ظلم کی اخیر ایک نہ ایک دن ضرور ہوتی ہے۔بھولی ہاتھ ہلا کر بولی تو میں اس کی دانشمندی کی قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔بھولی نے سارا مسئلہ منٹوں میں حل کر دیا تھا۔میں نے اسے تشکرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ بھولی تم قومی اسمبلی میں کیوں نہیں بیٹھتی؟؟
وہ تھوڑی برہم ہو کر بولی اچھا تو میں اگر اسمبلی میں بیٹھ گئی تو میرا گھر بار اور بچے کون سنبھالے گا؟میرے پاس فالتو ٹائم نہیں ہے۔یہ کہ کر وہ تیزی سے اٹھی اور چھپاک سے گھر میں گھس کے پٹاک سے دروازہ بند کیا۔میں لان میں کرسی پہ بیٹھی بند دروازے کو دیکھ کر سوچتی ہی رہ گئی اف اتنا بڑا ٹیلنٹ اور وہ بھی بند دروازے کے پیچھے!!!
Very well written. Congratulations..
Abida Rahmani
31. okt. (for 2 dager siden)
واہ شازیہ زبردست تحریر ہے لطف آگیا ۔۔ خوب منظر کشی کی ہے برفانی بھالو اب پھر سے طاقتور ہوتا جارہا ہے
ایک طرح سے طاقت کا توازن قائم ہو تو ہمارا بھلا ہوگا۔۔
زور کی بورڈ اور ہو زیادہ۔
میں عابدہ جی سے پوری طرح متفق ہوں۔داد قبول فرمائیں۔Fariyad Azer
aap ki tahrer adab dot com per padhi . achchi lagi
aakhri jumla
itna bada talent aur wo bhi band darwaze ke peche
mubarak bad qubool karen.muhammed yousuf raheem bidri
Aslam o eleikum Badri sahab ,
Hosla afzai ka bohot shukriya …magar kya ap nai sirf akhri jomla hi parha …baqi jomlai kya hoey???
Thanks a lot