محمد حذیفہ ہدائی
25 مارچ 1975 کو 40 سال قبل آج ہی کے دن مملکتِ سعودی عربیہ کے ایک بے باک قائد شاہ فیصل کو شہید کردیا گیا تھا، شہید موصوف اس وقت ایک مجلس میں بیٹھے عوام و خواص مملکت کے مسائل پر گفتگو کررہے تھے تو ان کے بھتیجے نے (جو امریکہ سے حال ہی میں لوٹ کر آیا تھا) انہیں گولی مارکر شهید کردیا-
شاه فیصل شهید رحمہ اللہ 21 اپریل 1904 کو ریاض میں پیدا ہوئے، اس وقت سعودی سلطنت کا قیام نہیں ہوا تھا، لہٰذا قدرتی طور پر وہ آرام و آسائش سے محروم رہے، صبح صادق سے دو گھنٹے پہلے ہی تہجد کے لئے اٹهنا، گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سواری،برہنہ پا پھرنا ان کا روز کا معمول تھا، بچپن ہی میں حفظ قرآن سے فارغ ہوئے، علوم دینیہ، فقہ، تفسیر، حدیث، تاریخ وغیرہ میں دستگاہ حاصل کی، 19 دسمبر 1930 میں انہیں مجلسِ شوریٰ کی صدارت اور ساتھ ہی ساتھ وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی، 16 فروری 1930 کو وہ وزارتی کونسل کے صدر بھی منتخب ہوئے-
1953 میں شاه سعود بادشاہ بنے تو فیصل ولی عہد قرار دئے گئے، انکی بہترین انتظامی صلاحیتوں کی بناء پر 1958 میں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ دیا گیا، پھر 2 نومبر 1964 کو انہیں سعودی عرب کا بادشاہ مقرر کردیا گیا-
شاہ فیصل کمیونزم کے سخت خلاف تھے، صیہونی عزائم کے خلاف وہ ہمیشہ برسرِ پیکار رہے، 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ میں جب امریکہ اور مغرب نے اسرائیل کی روایتی طور پر مدد کی تو شاہ فیصل نے صرف لفظی احتجاج پر اکتفا کرنے کی بجائے ملک کے تیل کو عالمی منڈی میں فروخت کرنے سے انکار کردیا، جس سے تیل کی قیمتیں چوگنا بڑھ گئیں اور مغربی معیشت گھٹنوں پر آگئی، جلد از جلد صلح کے معاہدے ہوئے، اس تیل کی دولت سے انہوں نے جنگ میں حصہ لینے والے مصر، شام اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی مدد کی، ٹائم میگزین نے شاہ فیصل کے اس جرأت مندانہ اقدام پر انہیں 1974 کا مین آف دی ایئر قرار دیا-
شاہ فیصل کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو مملکت کا دستور قرار دیا اور اسلامی شریعت کے مکمل نفاذ کی طرف توجہ مبذول کی- اتحاد بین المسلمین شاہ فیصل کا بہت بڑا نصب العین تھا، اور انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اس مقصد میں بے مثال کامیابی حاصل کی، 1962 میں رابطہ عالمی اسلامی کی بنیاد ڈالی گئی جو مسلمانوں کی پہلی حقیقی عالمی تنظیم ہے- اور اس تنظیم کے اجتماعات کے ذریعے انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کی بنیاد پر متحد کرنے کا عزم کیا- اسلام کی بنیادوں پر مسلم ممالک میں اتحاد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے 1969 میں پہلی اور 1972 میں دوسری اسلامی کانفرنسوں کا انعقاد کیا- OPEC ہو یا OIC شاہ فیصل کی کوششوں کا نتیجہ تھا-
وہ ایک بے مثال خطیب اور بے باک قائد تھے، تواضع و انکساری، زہد و تقویٰ اور صبر و تحمل ان کے نمایاں اوصاف تھے- فلسطين کے تعلق سے بھی ان کا موقف بہت صاف تھا، اسرائیل کا وجود ان کے لئے ناقابلِ قبول تھا، ان کا سب سے بڑا ‘گناہ یہ تھا کہ وہ اس بات پر ایمان نہ لائے تھے کہ طاقتور اور ‘ترقی یافتہ ممالک کے سامنے ‘کمزور اور ‘غیر ترقی یافتہ ممالک کو چوں بھی نہیں کرنی چاہئے، چنانچہ انہوں نے اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کیا اور مغرب کا ناطقہ بند کردیا، اپنی اس جرأت کی قیمت انہیں اپنی جان دے کر چکانی پڑی-
الله تعالى وقت کے سوپر پاوروں کو آنکھیں دکھانے والے اس نیک دل بادشاہ کی خطاؤں سے درگزر فرمائے، انہیں انبیاء، صدیقین و شہداء کی معیت نصیب کرے اور ان کے جانشینوں کو ان کا سا قلب و جگر ڈھونڈکر لانے کی توفیق نصیب فرمائے- آمین محمد حذیفہ ہدائی، مالیگاؤں
شاه فیصل شهید رحمہ اللہ 21 اپریل 1904 کو ریاض میں پیدا ہوئے، اس وقت سعودی سلطنت کا قیام نہیں ہوا تھا، لہٰذا قدرتی طور پر وہ آرام و آسائش سے محروم رہے، صبح صادق سے دو گھنٹے پہلے ہی تہجد کے لئے اٹهنا، گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سواری،برہنہ پا پھرنا ان کا روز کا معمول تھا، بچپن ہی میں حفظ قرآن سے فارغ ہوئے، علوم دینیہ، فقہ، تفسیر، حدیث، تاریخ وغیرہ میں دستگاہ حاصل کی، 19 دسمبر 1930 میں انہیں مجلسِ شوریٰ کی صدارت اور ساتھ ہی ساتھ وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی، 16 فروری 1930 کو وہ وزارتی کونسل کے صدر بھی منتخب ہوئے-
1953 میں شاه سعود بادشاہ بنے تو فیصل ولی عہد قرار دئے گئے، انکی بہترین انتظامی صلاحیتوں کی بناء پر 1958 میں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ دیا گیا، پھر 2 نومبر 1964 کو انہیں سعودی عرب کا بادشاہ مقرر کردیا گیا-
شاہ فیصل کمیونزم کے سخت خلاف تھے، صیہونی عزائم کے خلاف وہ ہمیشہ برسرِ پیکار رہے، 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ میں جب امریکہ اور مغرب نے اسرائیل کی روایتی طور پر مدد کی تو شاہ فیصل نے صرف لفظی احتجاج پر اکتفا کرنے کی بجائے ملک کے تیل کو عالمی منڈی میں فروخت کرنے سے انکار کردیا، جس سے تیل کی قیمتیں چوگنا بڑھ گئیں اور مغربی معیشت گھٹنوں پر آگئی، جلد از جلد صلح کے معاہدے ہوئے، اس تیل کی دولت سے انہوں نے جنگ میں حصہ لینے والے مصر، شام اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی مدد کی، ٹائم میگزین نے شاہ فیصل کے اس جرأت مندانہ اقدام پر انہیں 1974 کا مین آف دی ایئر قرار دیا-
شاہ فیصل کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو مملکت کا دستور قرار دیا اور اسلامی شریعت کے مکمل نفاذ کی طرف توجہ مبذول کی- اتحاد بین المسلمین شاہ فیصل کا بہت بڑا نصب العین تھا، اور انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اس مقصد میں بے مثال کامیابی حاصل کی، 1962 میں رابطہ عالمی اسلامی کی بنیاد ڈالی گئی جو مسلمانوں کی پہلی حقیقی عالمی تنظیم ہے- اور اس تنظیم کے اجتماعات کے ذریعے انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کی بنیاد پر متحد کرنے کا عزم کیا- اسلام کی بنیادوں پر مسلم ممالک میں اتحاد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے 1969 میں پہلی اور 1972 میں دوسری اسلامی کانفرنسوں کا انعقاد کیا- OPEC ہو یا OIC شاہ فیصل کی کوششوں کا نتیجہ تھا-
وہ ایک بے مثال خطیب اور بے باک قائد تھے، تواضع و انکساری، زہد و تقویٰ اور صبر و تحمل ان کے نمایاں اوصاف تھے- فلسطين کے تعلق سے بھی ان کا موقف بہت صاف تھا، اسرائیل کا وجود ان کے لئے ناقابلِ قبول تھا، ان کا سب سے بڑا ‘گناہ یہ تھا کہ وہ اس بات پر ایمان نہ لائے تھے کہ طاقتور اور ‘ترقی یافتہ ممالک کے سامنے ‘کمزور اور ‘غیر ترقی یافتہ ممالک کو چوں بھی نہیں کرنی چاہئے، چنانچہ انہوں نے اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کیا اور مغرب کا ناطقہ بند کردیا، اپنی اس جرأت کی قیمت انہیں اپنی جان دے کر چکانی پڑی-
الله تعالى وقت کے سوپر پاوروں کو آنکھیں دکھانے والے اس نیک دل بادشاہ کی خطاؤں سے درگزر فرمائے، انہیں انبیاء، صدیقین و شہداء کی معیت نصیب کرے اور ان کے جانشینوں کو ان کا سا قلب و جگر ڈھونڈکر لانے کی توفیق نصیب فرمائے- آمین محمد حذیفہ ہدائی، مالیگاؤں
موبائل:9270624926