کلام: ڈاکٹر شہلا گوندل
میری سکھی،
تم نے کہا ہے کہ عباس خان کے لیے کچھ لکھوں،
پر بتاؤ، کیا لکھوں؟
عباس، وہ جو محبت اور عزت کا علم بردار،
جو ہنستا، چھیڑتا، مذاق کرتا،
لیکن دل کے ہر تار کو مخلصی سے چھوتا
عباس،
جو اپنی ٹھنڈی، میٹھی تعریف سے
ہر عمر، ہر دل کی عورت کو
ایک تازہ پھول کی خوشبو بخشتا ہے،
جو کسی ڈھلتی عمر کی عورت کو
واپس اس کے سنہرے دنوں میں
یوں پہنچا دے،
جیسے وقت تھم گیا ہو،
اور یو ای ٹی کے گراسی لان میں
زندگی پھر سے جھوم اٹھی ہو
مرد بھی،
عباس کی باتوں سے روشنی لیتے ہیں،
حوصلہ پکڑتے ہیں،
اس کے لفظوں میں جیسے
چائے کی بھاپ میں لپٹا
ایک جادو چھپا ہو،
جو تھکے ہارے دلوں کو زندہ کر دے
عباس کے ساتھ،
ایک کپ چائے
نوجوان لڑکوں لڑکیوں کے لیے
ایک جامِ جہاں نما
ہنسی کے رنگ، خوشبو کے جھونکے،
اور اٹھکیلیوں کے لمحے
سب ایک کپ میں سما جاتے ہیں
اور عباس،
جو ہماری خوشی پر ہنستا ہے،
ہمارے دکھ کو محسوس کرتا ہے،
جو ان کہی باتوں کو سن لیتا ہے،
روح سے جڑتا ہے،
دلوں کے بند دروازوں پر
اپنی موجودگی کی دستک دیتا ہے،
ایک ایسا نشہ
جو آہستہ آہستہ چڑھتا ہے
اور ہمیشہ کے لیے دلوں میں بسیرا کر لیتا ہے
عباس،
جو بھری سپیس میں مجھے “ماں” کہہ کر
زندگی کا سب سے پیارا لقب دیتا ہے،
اور حلال قصائی کے پھٹے سے لے کر
کائناتی رازوں تک،
سب کچھ ایک کپ چائے میں سمو دیتا ہے
اس کی سستی جگتیں،
اس کے مہنگے فلسفے،
اس کی چھیڑ چھاڑ،
اور اس کی گہری، آزاد نظمیں
سب ایک کپ چائے میں آجاتے ہیں
عباس خان،
ایک شخص،
ایک کہانی،
ایک کائنات،
جو چائے کے ایک کپ میں
محبت، ہنسی، زندگی اور فلسفے کو
ایسے گھول دیتا ہے،
جیسے زندگی کی ہر گتھی کو سلجھا رہا ہو