عرش کے سائے تلے
قسط نمبر ۶
مجھے جب نماز اور قرآن کی تلاوت سے وقت ملتا میں اپنے سفر نامہ کے لیے اور اپنے قارئین کے لیے اس میں باتیں نوٹ کر لیتی۔ اپنی ڈائری کے کچھ حصے پیش خدمت ہیں۔
ہملوگ تین روز تک مقامنی ٰکے خیموں میں رہے۔ یہں پہ تو فریصہء حج ادا کرنا تھا اور شیطان کو پتھر بھی مارنے تھے۔ یہ بے حد مشکل وقت ہوتا ہے یہاں ہر سال کئی لوگ حادثہ کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔خیموں میں رہنے کے لیے ہملوگ اپنا سفری بستر، کمبل اور چند ضروری اشیاء لے گئے۔میرے علاوہ جو چار روم میٹس اسماء، فرحت، زیب انساء اور ژریا تھیں ہم سب کی آپس میں خاصی دوستی ہو گئی تھی۔ بلکہ اتنی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی کہ اب ہم لوگ ہر جگہ اکٹھی رہنا چاہتی تھیں۔ لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ کیونکہ وہاں ہم نے دیکھا کہ گروپ لیڈر کئی لوگوں کو الگ کر کے جدائیاں ڈال رہے تھے۔ میں نے کئی خواتین کو دکھی ہوتے ہوئے اور روتے ہوئے ھی دیکھا۔ ہم پانچوں بھی خیمے میں ایک جانب دبک کر بیٹھ گئین کہ کہیں ہم بھی جدا نہ کر دی جائیں۔ لیکن خدا نے ہماری یہ محبت بھری دعا سن لی اور ہمارا گروپ ٹوٹنے سے بچ گیا۔
یہ بات تو ہمیں قدم قدم پہ محسوس ہوتی رہی۔یہاں منیٰ کے کیمپ میں ہم لوگوں نے ساتھ ساتھ بستر بچھائیہی تھے کہ مسلم کلچر گروپ والوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ سب لو گاپن یگروپس کے لحاظ سے خیمے لیں۔میں اور اسماء دل ہی د میں دعا کرنے لگیں کہ کہیں ہم نہ الگ ہو جائیں۔ہم پانچ تھیں ، ہمارے علاوہ پورے خیمے میں بیس پچیس خواتین اور بھی تھیں۔ہم وہیں بیٹھی رہیں اور سب کے خیمے تبدیل ہو گئے۔ہم دونوں بہت خوش ہوئیں کہ اللہ میاں نے ہمارا کتنا خیال رکھا ۔تب اسماء کہنے لگیں دیکھا اللہ میاں ہم سے کتنا لاڈ کر رہے ہیں۔یہ خیمہ بہت آراستہ و پیراستہ تھے۔ ان کی زمین پہ خوبصورت قالین بچھے تھے اور ائیر کنڈیشن لگے ہوئے تھے۔اسکے علاوہ لائٹننگ کا بھی انتظام تھا۔ غرض یہ کہ صحرا میں نخلستان تھا۔ درحقیقت کچی زمیں پہ بچھے قالین پ سونا ایک مشکل کام تھا، مگر ہمارے دلوں میں خدا کی رضاحاصل کرنے کا جذبہ ایسا تھا کہ وہ روھ کی گہرائیوں تک کو تراوٹ اور سرور کی کیفیت دے رہا تھا۔اسلیے یہ تکالیف کچھ معنی نہ رکھتی تھیں۔یہاں سب لوگ زیادہ تر تلاوت میں ہی مشغول رہے۔
اگلے روز شیطان کو کنکریاں مارنی تھیں۔یہاں ہر سال بھگدڑ کی وجہ سے کئی لوگ مر جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر کبھی کبھی دل میں اک خوف کی لہر بھی اٹھٹی جو جلد ہی خدا کی رحمت میں جذب ہو جاتی۔پھر ہم لوگ کنکریاں چننے مزدلفہ گئے ۔ یہ ایک بلند اور سنگلاخ پہاڑوں میں گھری وادی ہے۔یہ جا بجا کاغذوں ، کوڑے اور کھڈوں سے پرھی ہ میلوں کے رقبہ پہ پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں ہمیں شب بسری کرنی تھی۔یہاں آ کر انسان کو اپنی بے سروسامانے کا احساس ہوتا تھا۔ایک حشر کا سا سماں تھا۔ہر کسی کو اپنی پڑی تھی۔پھر ہم لوگ اپنے گروپ سے بچھڑ گئے۔بڑی مشکل سے کھڈے پار کرتے ہوئے میدان کے دوسرے جانب پہنچے۔ وہاں سڑک کے کنارے بستر پہ دراز ہوئے۔گاڑیاں اور بسیں ہارن بجاتی ، دھوان پھیلاتی ہوئی آ جا رہی تھیں۔اس فضاء میں زکام ، اور نزلہ زکام کو خوب پھولنے پھلنے کا موقعہ ملا۔اس بے سرو سامانی میں سوائے ورد کے اور کچھ عبادت کا موقع نہ ملا۔کچھ دیر بعد اپنے کیمپ کے کچھ لوگوں کا بھی سراغ مل گیا۔ ہم لوگوں کے جہاں بستر تھے وہاں سڑک کاکنارہ تھا۔جہاں گھاس بھی اگی ہوئی تھی اور پتھر ، کنکریاں اور سنگریزے بھی تھے۔ کچھ لوگ کنکریاں چن رہے تھے اور کچھ لوگ پتھر توڑ کر کنکریاں بنا رہے تھے۔رات کے دو بجے ہم لوگ سنگلاخ زمین پہ بچھے بستر پر نیند کی آغوش میں چلے گئے۔د لمیں بے گھر لوگوں کے احساس جاگ اٹھا۔ صبح فضر کے ٹائم پہ آنکھ کھلی۔ہزاروں لوگوں کے لیے گنتی کے چند ٹائلٹس اور وضو خانے تھے۔چنانچہ ٹائلٹس کے اہر طویل قطاریں تھیں۔یہ انتہائی صبر آزما لمحات تھے۔ کئی خواتین کو بے صبری کے مظاہرہ بھی کرتے دیکھا ۔ وہ اپنی اپنی زبان میں برہمی کا اظہار کر رہی تھیں۔
کنکریاں لے کر ہملوگ اپنے خیموں میں واپس پہنچے۔ اس خیمہ بستی میں ہم لوگوں نے تین چار روز قیام کرنا تھا۔ تین روز کنکریاں مارنی تھیں۔پہلے روزہمارے پہنچنے س پہلے وہاں حادثہ ہو گیا کئی لوگ بھگدڑ میں جان دے بیٹھے۔اور ہاں اس کے بعد موسلا دھار بارش بھی ہوئی۔ بارش رکی تو ہمارے گروپ لیڈر نے ہمیں اکٹھا کیا اور بس کے انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ کئی لوگ پیدل بھی جا رہے تھے، لیکن اب پیدل جانے کا حوصلہ نہیں تھا۔ دو تین بسیں آئیں مگر بات نہ بنی کیونکہ وہ کرایہ زیادہ مانگ رہا تھا۔ہم لوگ ہر بس کے رکنے پر پر امید ہو جاتے کہ اب تو ہم ضرور پہنچ جائیں گے، وہاں جا کر ہم لوگ شیطان کو سبق سکھائیں گے۔ پھر میں اور اسماء مذاق کرتیں لائن میں کھڑے کھڑے ہماری ہنسی چھوٹ جاتی۔ پھر بس ہمیں چھوڑ جاتی۔ نہ جانے کتنی بار ایسا ہوا، مین نے اور اسماء نے نفل مانے۔ پھر توبہ کی کہ اب ہم نہیں ہنسیں گے۔ اللہ میاں تو ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ پیچھے کھڑی ایک عمر رسیدہ عورت نے مجھے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا، کیوں ہنس رہی ہو تم اسی لیے کہتے ہیں چھوٹی عمرمیں حج نہیں کرنا چاہیے۔ جب خوب پکی اور سمجھداری کی عمر ہو جائے تب حج کرنا چاہیے۔ خیر خدا خدا کر کے کنکریاں مارنے پہنچے۔ ہمارے گروپ کے مردوں نے بڑی حفاظت سے عورتوں کو اپنے حلقے میں لے کر کنکریاں پھینکوائیں۔ تمام کام بخیر و خوبی تہ پا گیا۔مکہ پہنچنے کے بعد پہلی مرتبہ ہمارے گروپ لیڈر نے ذمہ داری کا ثبوت دیا ۔ورنہ وہاں جان کا بہت خطرہ تھا۔ایمتو وہاں سب چپل پہن کر جاتے ۔ اگر ہوائی چپل کسی کے پاؤں سے نکل جاتی اور وہ اسے اٹھانے جھک جاتا تو پورا ہجوم اسکے اوپر جا گرتا۔ اسطرح بھگدڑ مچ جاتی اور حادثہ ہو جاتا۔ دوسری وجہ حادثہ کی وہ لوگ بنتے جو کہ رمی کرنے والے یعنی کنکریاں مارنے والے میدان میں خیمے لگا کر بیٹھے تھے۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہاں خیمہ لگانے کی کیا تک تھی۔ خیمہ بھی وہ جو تفریحی ہوتے ہیں اور ٹورز پہ لگائے جاتے ہیں۔ انکی وجہ سے کنکریاں مارنے والوں کے راستے میں رکاوٹ کھڑی ہو جاتی۔ حادثہ کے بعد پولیس نے انہیں مار مار کر بھگایا۔جب پہلے روز بار ش ہوئی تو ہماری روم میٹ فرحت بھی وہاں موجود تھیں۔ انہوں نے سارا حادثہ دیکھا۔ انکے سامنے ایک ریت کی پہاڑی دھماکے سے پھٹ گئی۔ بارش بہت موسلا دھار ہواور طوفانی تھی۔ اسی دوران حادثہ بھی ہوا۔ فرحت کا کہنا ہے کہ میں نے حادثہ کے وقت کئی خوفناک چہرے والے لوگ دیکھے جو ہجوم کے اوپر چھلانگیں لگا رہے تھے۔ انکا خیال تھا کہ یہ شیطان کے چیلے تھے۔ فرحت بہت نیک اور نرم مزاج خاتون تھیں۔ وہ ہر وقت اللہ کے ناموں کا ورد کرتی رہتی تھیں۔ انہوں نے خانہ کعبہ میں فانوسوں سے نور کی بارش بھی دیکھی تھی۔ اس حادثہ کی وجہ سے ہمارے گروپ لیڈر نے پہلے دن ہم لوگون کو بڑی احتیاط سے رمی کروائی۔ ہم لوگون نے انکے اس کام کی تعریف کی حالانکہ یہ تو انکا فرض تھا۔ مگر انہیں اس تعریف کی ایسی نظر لگی کہ وہ پھر دو دن نظر ہی نہ آئے۔دوسرے روز خود ہی کنکریاں ماریں اور تیسرے روز اسماء کے چچا جو کنیڈا کے حج گرپ کے لیڈر تھے انکی مدد سے کنکریاں ماریں۔ اب ہم لوگوں نے مکہ روانہ ہونا تھا۔ وہاں سے پھر خیموں میں واپس آنا تھا۔طہ یہ پایا کہ وہاں سے پیدل ہی چلا جائے، کیونکہ رش کی وجہ سے بس مین تین چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ آج ہم لوگ بہت خوش تھے اسلیےمکہ کی جانب پیدل ہی چل پڑے۔ہم لوگوں نے یہ سفر پیدل پنتالیس منٹوں میں طہ کر لیا۔تیز موسلا دھار بارش نے سارے پہاڑ اورسبزہ کو دھو دیا تھا۔ اب سورج چمک رہا تھا۔سڑکوں پر ریت اور مٹی کے ڈھیر تھے۔ ٹریفک چار پانچ گھنٹے رکی رہی۔ہملوگ مزے سے کھاتے پیتے پیدل ہوٹل پہنچ گئے۔راستے میں لوگ مشروبات اور پھل لے کر کھڑے تھے۔ حج سے آنے والوں کو دوڑ دوڑ کر کیلے کینو ، مالٹے اور امرود پیش کرتے۔ ایک لڑکا راستے میں میری جانب دوڑا آیاکیلے لے کر۔ میں نے دل میں کہا اللہ میاں مجھے پہلے ہی زکام ہے کیلوں سے اور زیادہ ہو جائے گا، میرا تو جی چاہ رہا ہے کینو کھانے کویہ سوچنا تھا کہ فوراً دوسری جانب سے ایک لڑکا کینو لیے دوڑا آیا اور مجھے دو کینو دیے۔ میں نے آج تک ایسے لذیز کینو نہیں کھائے۔ اس گھڑی تو میں من و صلویٰ کی تمنا کرتی تو وہ بھی مل جاتا۔بس اس کے بعد تو وہ طویل مسافت جیسے تاروں پہ چل کے طہ ہوئی۔ سارے راستے کہکشائیں بن گئے۔ پنتالیس منٹ کی مسافت پل بھر میں طہ ہو گئی۔ مجھے لگا کہ میں پیدل نہیں اڑ کر منزل پہ جا پہنچی۔جو لوگ بسوں پہ آئے تھے وہ تین سے چار گھنٹے کی تاخیر سے پہنچے۔
اس برس بھی تین سو افراد لقمہ اجل بنے اور وہ بھی عین اس وقت جب ہم نے جانا تھا، مگر ایک گروپ ممبر کی وجہ سے لیٹ ہو گئے۔ بعد میں سب لوگ اس لیٹ ہونے والے کے بہت شکر گزار ہوئے۔
تیسرے روز تو اس خیمہ بستی پہ ایسی بارش برسی کہ سارا صحرا جل تھل ہو گیا،سامان بہ گیا اور خیمہ بستیاں زیر آب آ گئیں۔سیلاب کی وجہ سے لوگ کیمپوں میں محصور ہو گئے۔جب بارش کا زور ٹوٹا تو لوگ اپنے اپنے گروپوں کی خبر لینے نکلے۔ میں نے ضیاء سے رابطہ کرنا چاہا تو رابطہ نہ ہو سکا، بہت پریشانی ہوئی۔ اتنے میں انکے خیمے میں رہنے والا ایک شخص نظر آیا ۔میں نے اس سے ضیاء کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا مجھے نہیں پتہ اور اپنی فیملی کو لے کر چلتا بنا۔وہ آدمی بھی ضیاء کے خیمے میں ہی تھا اور اکثر راستے میں زیارتوں اور احادیث کے بارے میں بتاتا رہتا تھا۔ اس مشکل گھڑی میں اسکی رکھائی اور بے رخی دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ کیا یہی اخلاق ہے ایک مسلمان بھائی کا کہ جب مصیبت پڑےء تو منہ ہی موڑ لے؟؟خیر تھوڑی دیر بعد ضیاء بھی آ گئے ہم لوگ اسماء وغیرہ کے ساتھ سامان اٹھا کر ہوٹل چلے گئے۔راستے میں سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ لوگوں کے بستر اور سامان بہہ رہے تھے صحرا ئی ریت اور مٹی نے بہت سی چیزوں کو ملیا میٹ کر دیا تھا۔ہمارا نقصان اس لیے کم ہوا کہ ہمارے خیمے بلندی پہ نصب تھے۔
پندرہ روز اس شہر عظیم میں ایسے گزرے جیسے پندرہ لمحے۔ عجیب بات ہے جس روز ہم لوگوں نے واپس جانا تھا سب ہمیں الوداع کہ رہے تھے۔جہاں جاتے دوکاندار،مسجد حرام کے دربان ہمیں الوداع کہ رہے تھے۔ حالانکہ اس وقت کچھ گروپ مدینہ سے آ ہے تھے اور کچھ جا رہے تھے۔میں حیران تھی کہ کیا ہمارے چہروں پہ لکھا تھا کہ ہم جا رہے ہیں جو لوگ ہمیں ہی الوداع کہ رہے ہیں۔خانہ کعبہ پر الوداعی نگاہیں ڈالیں تو جی ہی نہیں بھرتا تھا کہ صدیوں پرانا یہ تجلیات کا مرکزنظروں سے اوجھل ہو جائے گا تو پھر نہ جانے کب دوبارہ دیدار نصیب ہو۔آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگی تھی۔ دل شکوہ کناں تھا کہ اللہ جی میں نے آپ سے ایک درخواست کی تھی کہ کبھی کوئی ولی نہیں دیکھا ابھی تک میری ملاقات کسی ولی سے نہیں کروائی۔یہ شکوہ کر کے میں آب زم زم پینے کے لیے خواتین کے چبوترے پہ چلی گئی۔وہاں صرف خواتین ہوتی ہیں مرد نہیں آتے۔ لیکن میری جانب ایک ادھیڑ عمر باریش شخص آتا دکھائی دیا۔ میری ہچکی بندھ چکی تھی۔ وہ کچھ کہ رہا تھا مجھے سمجھ نہیں آئی مگر اسکا انداز کچھ ایسا تھا جیسے کوئی کسی بچے کو چپ کراتا ہے۔ فوری طور پہ مجھے اسکی بات سمجھ نہ آئی، میں نے سمجھا وہ مجھ سے پانی مانگ رہاہے میں نے جلدی سے اس شفیق آدمی کے لیے گلاس میں پانی ڈالا۔ جب میں مڑی تو وہ جگہ تو بالکل سنسان تھی۔ وہ شخص تو کیا وہا تو دور دور تک کوئی ذی انسان ہی نہ تھا۔پھر فوراً دل میں خیال آیا کہ یہ وہی تو تھا جسے دیکھنا چاہتی تھیں تم۔ بس پھر میرے آنسوؤں سے تر چہرے پر یہ انوکھا تحفہ پا کر ایک انمول مسکراہٹ پھیل گئی۔
قسم ہے اس خدائے لازوال کی جس کہ قبضے میں میری جان ہے جو لطف و سرور مکہ معظمہ جا کر ملا کہیں اور نہیں ملا۔ہوتا بھی کیوں نہ اسی شہر میں تو اس عظیم ہستی کا گھر ہے جس کی خاطر اس کائنا ت کو تخلیق کیا گیا۔اس خالق کائنات کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ وہ سب جانداروں میں انسانوں سے سب س زیادہ پیار کرتا ہے۔پھر جب یہ انسان خلوص دل سے اس گھر کے مہمان بنتے ہیں تو وہ مالک حقیقی ہر شخص سے اسکی اوقات اور تقویٰ کی حیثیت سے سلوک کرتا ہے۔جو شخص اللہ کی مخلوق سے جتنی محبت کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اس سے اتنی ہی محبت سے پیش آتا ہے۔کچھ لوگوں کی تو اللہ میاں سے مکہ معظمہ میں جا کر ڈائریکٹ ڈائیلنگ ہو جاتی ہے۔
د مومنین کو پہنچا دے۔ اسکی دعا قبول ہو گئی اگلے برس پھر اس نے ابھی یہ دعا مانگنی شروع کی ہی تھی کہ ایک فرشتہ ظاہر ہو گیا۔ کہنے لگا اے شخص ٹھہر جا ابھی تو ہم پچھلے سال کا ثواب ہی نہیں بانٹ چکے اور تو پھر یہ دعامانگنے لگا ہے۔اسی طرح میرا ایک بھانجہ اسکے بعد عمرہ پہ گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میر ے لیے دعا مانگنا کہ میں یونیورسٹی کے امتحان میں پاس ہو جاؤں۔ وہ کہنے لگا میں دعا مانگوں گا کہ آپ فسٹ آئیں۔ میں نے کہا نہیں اب میں اتنی بھی لائق نہیں۔ مگرمیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جب رزلٹ آیا تو میری واقعی فسٹ ڈوین تھی۔اب ہمارے گروپ کی مدینہ روانگی کا وقت قریب تھا۔ کعبہ شریف پہ الوداعی نظر ڈالی۔ اب ایک جانب خانہ خدا کے دیدار سے بچھڑنے کا قلق تھا تو دوسری جانب محبوب خدا کے شہر مدینہ جانے کی خوشی بھی تھی۔
خوشی اور غم کے اسی ملے جلے احساس کے ساتھ ہملوگ مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے۔کانوں میں یہ نعت رس گھولتی تھی،
یہ جی چاہتا ہے مدینہ کو جائیں
مدینہ شریف مکہ معظمہ سے آٹھ گھنٹے کی مسافت پہ وقع ہے۔میں تو ہمیشہ انہیں جڑواں شہر سمجھتی تھی، کیونکہ انکا نام ہمیشہ اکٹھا لیا جاتا ہے۔راستے میں ایک چھوٹے سے قصبے میں عصر اور ظہر کی نماز ایک زیر تعمیر مسجد میں پڑھی۔تاہم کچھ جدید طرز کے پلازہ بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ لیکن قدیم بازاروں کی تو کیا ہی بات ہے۔ اکثر دوکاندار پاکستانی ہیں۔ وہ دیکھتے ہی پوچھتے ہیں کہ آپ ہیں تو پاکستانی مگر آئے کہاں سے ہیں۔ یہ سن کربہت تعجب ہوا کہ جب ہم اردو بول رہے ہیں تو پھر کیوں پوچھ رہے ہیں کہ کہاں سے آئے ہو، ظاہر ہے پاکستانی ہیں تو پاکستان سے ہی آئے ہیں۔ لیکن نہیں وہ ضد کرتے کہ اس ملک کا نام بتائیں جہاں سے آپ آئے ہیں۔ بعد میں تحقیق پر پتہ چلا کہ پاکستان کی کرنسی ریال کے مقابلے میں اتنی ڈاؤن ہے کہ پاکستان سے آنے والے زائرین یہاں شاپنگ افورڈ نہیں کر سکتے۔بلکہ جو لوگ یورپین ممالک سے آء ہوئے ہیں انہیں ریال میں خریدداری سستی لگ رہی ہے۔صرف تارکین وطن پاکستانی ہی شاپنگ کرتے ہیں اسلیے دوکاندار انہیں پہچان جاتے ہیں۔
انڈیا سے آنے والے مسلمان تو مصالحے اور خشک کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لائے تھے۔ اسلیے کہ انکے لیے کھانا خریدنا مہنگا تھا۔مصالحوں کی مد میں لانے والی خشخاش لانے والے انڈین مسلمان زائرین کو حج کا وقت جیل میں گزارنا پڑا۔ اسلیے کہ وہاں خشخاش کھانوں میں استعمال ہوتی ہے۔ لیکن پوست کے ڈوڈے سے حاصل ہونے والے خشخاش کے دانوں میں نشہ کے اثرات پائے جاتے ہیں۔یہ نشہ کے اثرات لیبارٹری میں خون ٹیسٹ سے معلوم کیے گئے۔ لہاٰذا خشخاش لے جانے والے ذائرین کو نشہ آور شے لے جانے کے جرم میں حج کے بجائے جیل کی ہوا کھانا پڑی۔
جاری ہے