سو انکو انکے حال پہ چھوڑ دیا۔
ترکیوں کے مقابلے میں انڈونیشیا کے عازمین حج جوانوں پہ مشتمل تھے۔انڈونیشیا سے آنے والے حج گروپ میں اکثریت نوجوان لڑکے لڑکیوں کی تھی۔ان سب نے بھی ایک جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ پتہ چلا کہ انڈونیشیا میں لڑکے لڑکی کی شادی سے پہلے حج کرنا لازم ہے۔ تمام خواتین نے نہ صرف ایک جیسا حجاب پہن رکھا تھا بلکہ عطراور سرخ لپ اسٹک بھی ایک جیسی تھی۔انکے مقابلے میں سب سے زیادہ ضعیف حاجی پاکستان اور انڈیا کے تھے۔ لگتا تھا کہ جب وہ دنیاوی کاموں سے ریٹائر ہوتے ہیں تب حج کے لیے چل پڑتے ہیں۔اگر اس بات کا مقابلہ کروایا جائے کہ ب سے ذیادہ ضعیف حاجی کس ملک کے ہیں تو پاکستان یہ مقابلہ بین الاقوامی سطح پہ جیت سکتا ہے۔ مگر ان میں تارکین وطن پاکستانی شامل نہیں۔
ترک حاجیوں کی تاخیری فلائٹ کے بعد ان سے عبرت پکڑتے ہوئے ہمارے گروپ لیڈر نے کہا کہ کوئی کمرہ خالی نہ کرے۔ نہ کوئی ہوٹل کے حکام کوصفائی کے لیے کمرے کی چابی نہ دے۔کیونکہ ایسی صورت میں ہم لوگوں کو بھی ترک حاجیوں کی طرح ایرپورٹ پہ پڑاؤڈالنا پڑتا۔ انکا حال بہت سبق آموز
تھا۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ہوٹل کے ساتھ ہمارے گروپ کا معاہدہ ختم ہو چکا تھا۔انکے ذمے اب ہمارا کھانا بھی ختم تھا۔ اب ہملوگ ہوٹل میں مہمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ قابضین کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔اب ہوٹل پہ ہماری مہمان نوازی ختم تھی۔ ہمیں پتہ چلا کہ اب ہم لوگ سعودی حکومت کے مہمان ہیں۔ اسلیے ہمارے گروپ کو ناشتہ پڑوس کے ہوٹل انٹرکانٹیننٹل میں کروایا گیا۔ یہ ناشتہ ہمیں دو روز تک ملا۔ ناشتہ تھا یا شاہی لوازمات سے پر ضیافت تھی۔ کھانے کی میزوں پر سات آٹھ قسم کے اعلیٰ زیتون کی قسمیں تھیں۔ اسکے علاوہ مختلف اقسام کے پنیر تھے ۔اس کے علاوہ بند اور روٹیوں کی کافی اقسام تھیں۔ گرم ٹھنڈے مشروبات بھی مختلف قسم کے تھے۔انتظار کے یہ دو روز عجب بے کلی میں گزرے۔ لوگ نماز کے بعد زیادہ تر نیچے لاؤنج میں ہی بیٹھے رہتے۔میں نے محسوس کیا کہ وہ لوگ جو کہ منتظمین میں شامل تھے اوردوران حج پلاّ نہیں پکڑا رہے تھے، اب اچانک خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ بلکہ ایک صاحب نے تو کسی قسم کی مشکل میں مدد کرنے کی حامی بھی بھر لی۔ جلد ہی معمہ کھلاکہ کیا معاملہ ہے۔ ضیاء کہنے لگے کہ منتظمیں نے سب کو کہلوایا ہے کہ آپ ناروے ایئرپورٹ پہ اگر کوئی پوچھے توہے کہ آپ ناروے ایئرپورٹ پہ اگر کوئی پوچھے تو
کسی صحافی کو کچھ نہ بتائیں اسطرح ہماری بدنامی ہو گی۔کیونکہ اس گروپ کی بد نظمی کی خبر نارویجن اخبار میں لگ چکی تھی۔اسکا مطلب تھا کہ زبان بند رکھی جائے تاکہ یہ بد نظمی کبھی ختم نہ ہو۔ انہیں میرے جرنلسٹ ہونے کا بھی پتہ چل چکا تھا لہاٰذا خوش اخلاقی کی وجہ سمجھ میں آئی۔ یہ ہے ہمارے پاکستانی بھائیوں کا کرداراللہ کے گھر میں بھی اقربا پروری اور طوطا چشمی سے باز نہیں آتے۔ پھر یہ بھی چاہتے ہیں کہ انکا کسی سے شکوہ بھی نہ کیا جائے تاکہ یہ طوطا چشمیوں کا سلسلہ یونہی چلتا رہے۔ میں ناچار چپ ہو گئی۔ مگر میری ایک چپ دوسرے کے لبوں کو خاموش نہ کروا سکی۔ حج انتظامیہ کے ہاتھوں ستائے ہوئے حاجی گروپ لیڈروں کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ آخر ناروے ایئرپورٹ پہ لیڈر صاحب ایک صومالین کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس نے ان پہ چڑھائی کردی۔ مگر یار لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا دیا۔راستے میں جہاز کے اندر بھی کئی لوگ ہاتھا پائی پہ آمادہ نظر آئے۔ حج پہ صبر کاسبق نہ جانے وہ کیوں بھول گئے۔ حج پہ سب سے ذیادہ زور مناسک حج پہ دینا چاہیے۔جب خانہ کعبہ پہ پہلی نظر پڑنے والی ہو آنکھیں بند کر لیں جب خانہ کعبہ نظر آنے کی نوید ملے آنکھیں کھول کر اپنی پسندیدہ دعا مانگیں۔ ویسے سب سے اچھی دعا ایمان کی سلامتی اور دین دنیا کی بھلائی ہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حج صرف ایک مرتبہ فرض ہے۔ جن خوش نصیبوں کو یہ موقعہ ملا اسے ذائع نہ کریں حتی الامکان مناسک حج صحیح ادا کرنے کی پوری کوشش کریں۔
ائیر پورٹ پہ میری فیملی مجھے ریسیو کرنے آئی ہوئی تھی۔ عرب کے صحراؤں سے نکل کر ناروے کے برف زاروں میںآکر عجیب کیفیت ہوئی۔ سب کچھ بہت انوکھا لگ رہا تھا۔ بدن صحرائی اور نخلستانی فضاؤں سے اسقدر مانوس ہو چکا تھا کہ برفانی ہوائیں اجنبی لگنے لگیں۔ خدا کے گھرمیں جا کر اپنے گھر کی یاد ایسی بھولی کہ سب کچھ اجنبی لگنے لگا۔یوں لگتا جیسے اس دنیا میں پہلی بار قدم رکھا ہے۔ دل میں دیار خدا کی وجد آفریں یادیں بسائے میں گھر کی چوکھٹ پہ آ پہنچی۔
اسوقت کچھ حاجی روانہ ہو چکے ہیں کچھ نے جانا ہو گا۔ اگر جانے والے حاجی میرا یہ آرٹیکل پڑھیں تو مجھ
ناچیز کے لیے ضرور دعا کریں۔ اللہ سب اہل ایمان کوحج کی سعادت نصیب کرے،آمین