شہزاد بسراء
’’چینی ہے؟‘‘ ڈاکٹر واحد نے 4سلائس ، 2فرائی انڈے او ر اورنج جوس کے گلاس کا ناشتہ کر کے چائے کی پھیکی چُسکی لیتے ہوئے پوچھا۔
’’ایک ارب سے زیادہ چینی ہیں اِدھر۔‘‘ ہم نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’میں نے چینی چائے میں ڈالی ہے‘‘ واحد نے مُنہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب اتنی نعمتیں چھوڑ کر وہی پاکستانی ناشتہ لے آئے ہیں۔ ادھر دیکھیں‘‘ ۔میں نے اپنی اور دوسروں کی پلیٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، جو اُبلی سبزیوں، مالٹا، ٹماٹر، چکوترے کی کاش، جھینگوں، مشروم، سویٹ کارن، چاول اور کھجور کے پھیکے کیک، شکرقندی اور دیگر انواع و اقسام کے کھانوں سے بھری تھیں ۔
’’یار۔ یہ سب کچھ کھا کر میری شوگر بہت بڑھ گئی ہیں۔ مجھے نہیں کھانا یہ آلا بلا‘‘۔ واحد نے چائے میں چینی ڈالتے ہوئے کہا
’’ماشاء اللہ ۔ آپ کی نرالی شوگر ہے۔ جو ٹماٹر ، سلاد، ابلی سبزیوں، فِش، مشروم، رائیس کیک وغیرہ سے بڑھ جاتی ہے جبکہ ڈبل روٹی، فرائی انڈے، اورنج جوس اور چینی والی چائے سے نہیں بڑ ھتی‘‘ ۔ہم نے بڑی سنجیدگی سے عرض کی۔
’’میرا نہیں پیٹ بھرتا اِن چینی کھانوں سے۔ میرا معدہ اِن اشیاء کا عادی نہیں ہے۔ یہ جتنا بھی کھا لو لگتا ہے ابھی کھانا کھانا ہے۔ بھئی پیٹ بھی تو آخر بھر نا ہے۔ ‘‘ واحد نے اُکتا کر کہا۔
’’یوں کہیں نا حضور، شوگر کا بہانہ کیوں کرتے ہیں‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان شاید اپنا لباس، حلیہ، سٹائل، زبان اور رہن سہن حتی ٰ کہ کبھی کبھار اپنے خیالات اور سوچ تک نئی جگہ یا حالات میں بدل لیتا ہے مگر اپنے ٹیسٹ بڈز نہیں بدل سکتا۔ انسانی زبان جو ذائقے چکھتے چکھتے جوان ہوتی ہے، وہ دوسرے ذائقے صرف تبدیلی کے لئے کھاتی ہے مگر اپناتی نہیں۔ پاکستانی، انڈین یا افغانی لوگوں کو50قسم کے کھانے کھلا دو۔وہ پھر بھی وہ چپاتی اور دودھ والی چائے کا منتظر ہو گا۔ ایک جاپانی یا چینی کو 100ڈیشیں کھلا دو وہ اُبلے چاول ڈھونڈتا رہے گا۔
دنیا کی کوئی عورت یا باورچی کسی کی ماں سے بہتر کھانا نہیں بنا سکتی۔ اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ماں بہت اعلیٰ پائے کا کھانا بناتی ہے۔ دراصل ماں کے کھانے کھاتے بچہ جس ذائقے کا عادی ہو جاتا ہے پھر وہ ساری عمر وہی کھانے تلاش کرتا رہتا ہے۔آجکل دنیا میں immigrationکا رواج بہت فروغ پا گیا ہے۔ پہلی نسل جس ملک میں بھی جاتی ہے وہ اپنے کھانے ہی کھاتی ہے۔ ہر ملک کے ہوٹل آپ کو امریکہ میں اِس لیے نظر آ جائیں گے کیونکہ وہاں دنیا کے ہر خطے سے لوگ آ آ کر بستے ہیں۔پاکستانی روٹی، شوربا، پلاؤ اور دودھ والی چائے۔ انڈین روٹی، چاول، دال، بھاجی، سموسہ ، چائے، اور عرب چپاتی، پلاؤ حمس وغیرہ کے بغیر نہیں زندہ رہ سکتے۔ اگلی نسل مقامی اور آبائی کھانے دونوں کھاتی ہے اور تیسری یا چوتھی نسل پھر آبائی نسل کھانے کھاتی ضرور ہے مگر اُس کی محتاج نہیں رہتی۔
زیادہ تر لوگ کھانے کے معاملے میں بہت زیادہ choosyہوتے ہیں۔ جیسے ابھی تک بے شمار لوگ اگر چائنیزکھانے کھانا پڑ جائے تو منہ بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ چین جاکر پتا چلا کہ چائنیزکھانے کیا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہا ں کے چائنیزکھانے اگر چینیوں کو کھانا پڑ جائیں تو وہ شاید اُن کو پاکستانی کھانے سمجھیں۔
ایک دفعہ ہم نے کچھ دوستوں کی دعوت چائنیزہوٹل میں کی۔ ایک مہمان رانا صاحب نے جب کھانا لگ چکا تو بھی ہاتھ باندھ کر بیٹھے رہے۔ عرض کی۔
’’جناب شروع کریں۔ یہ ایگ فرائیڈ رائیس ہیں۔ یہ چکن وِد المانڈ بھی خاص ڈش ہے اور منچورین تو سب کو بھاتا ہے‘‘ ہم نے رانا صاحب کو پلیٹ دیتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب ہاتھ باندھ کر بیٹھے رہے اورگویا ہوئے۔ ’’چکھتا ہو ں یہ بھی پہلے روٹی تو آ جائے‘‘۔
عرض کی کہ چائنیزمیں روٹی نہیں آئے گی۔ یہی سب کھائیں گے۔ آپ چاول لے لیں۔
’’مجھے چاول بادی کرتے ہیں۔ ایک نان منگوا دیں۔ وہ اِس لال چٹنی سے کھا لیتا ہوں‘‘ رانا صاحب نے منچورین کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا۔ کافی ترلے منتیں کرکے ہوٹل انتظامیہ سے ایک نان کہیں سے منگوایا جو رانا صاحب نے پیپسی کے ساتھ کھایا۔
زیادہ تر لوگ مختلف پکوان ذائقہ کی تبدیلی کے لئے کھا لیتے ہیں مگر آپ کو بہت لوگ مل جائیں گے جو مخصوص کھانے کی علاوہ بھوکے رہ لیں گے کھائیں گے نہیں۔ کسی کو گائے کا گوشت بادی کرتا ہے اور کسی کو چکن سے گھن آتی ہے۔ کسی کے دانتوں میں بکرے کا گوشت پھنس جاتا ہے۔ آپ کو ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جو صرف بکرے کا گوشت یا دال ہی کھاتے ہیں۔ سبزی چکھتے بھی نہیں اور چکن کو فضول کردانتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ڈاکٹر فاروق نے ساری دنیا گھوم لی اور کافی عرصہ باہر رہ بھی لیا مگر خالصتاً پاکستانی کھانے ہی کھا سکتے ہیں۔ اُن کی چائنیز کھا نوں سے جان نکلتی ہے۔ ایک دفعہ چائنیز نوڈلز، چاومن،دیکھ کر کہنے لگے۔ ’’اگر دودھ اور چینی ہو تو یہ سویاں کھا سکتا ہوں‘‘۔
چاو منز کی اتنی بے قدری پر بندہ سر ہی پیٹ سکتا ہے۔ باہر جاکر حلال حرام کا مسئلہ آن کھڑا ہو جاتا ہے۔ مگراُس سے بھی بڑا مسئلہ زبان کے ذایقہ کاہوتا ہے۔ 50کھانوں کی سجی سجائی کھانے کی ٹیبل پر بھی اندر کا دیسی پاکستانی دال، شوربا اور روٹی اور دودھ والی چائے ہی تلاش کر تا ہے۔اور طرح طرح بہانے بناتا ہے کہ چاول بادی ہیں۔ سبزی اِن کی کچی ہے، اُس کے کھانے سے پیٹ میں ہوا بھرتی ہے۔ مشروم کی شکل اچھی نہیں۔ مچھلی سے ناگوار بو آتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر سب سے نرالا بہانا ڈاکٹر واحد کا تھا کہ مچھلی، سبزیاں وغیرہ کھانے سے اُن کی شوگر بڑھ جاتی ہے اور 4سلائس ، 2-3فرائی انڈے، مکھن، شہد، میٹھے جوس اور چینی والی چائے سے شوگر بہتر ہوتی ہے۔
میرے جیسا بندہ جو سب کچھ کھا لیتا ہے اور باہر کے نئے اور مقامی ذائقوں کی تلاش میں رہتا ہے اُسکا دل بھی چینیوں نے کھٹا کر دیا۔جب آنکھوں سمیت مچھلی ، مچھلی کی بو والا سوپ اور پھیکی کسیلی سبزی اور اُبلے چاول کے علاوہ کچھ نظر نہ آئے تو پھر بندہ کیا سوائے بادی سفید چاول کھانے سے۔ بندہ چاول کھانے سے بھی جاتا ہے اگر ساتھ والے میز پر چینی سانپ، مینڈک، دُم سمیت چوہے مزے لے لے کے نوش فرما رہے ہوں۔ ہم آخر اُکتا کر ’’لانچو لاما‘‘ پہنچتے ہیں جو کہ پورے چین میں ہلال کھانوں کے ہوٹل ہیں۔ وہاں بھی پانی کی جگہ مرغیوں کے پنجون کا سوپ پیش کیا گیا۔ آکر امان پائی تو گوجرانوالہ کے کاکا قصائی کے ہوٹل میں ۔چکن کڑاہی، دال ماش، بریانی اور تازہ گرم گرم تنور کی روٹی ملی تو سب یوں جھپٹے جیسے صدیوں کا روزہ کھولا ہو۔
چینیوں کی ترقی کا راز سمجھ آ گیا جہاں وہ سخت محنت،صفائی، ایمانداری اور بے پناہ بجلی کے باوجود بجلی کی بچت کرتے ہیں وہاں وہ چھوٹی سی چھوٹی چیز کی بھی بے پناہ عزت کر تے ہیں۔ کھانے میں جہاں سانپ، بچھو، مینڈک سب کچھ کھا جاتے ہیں وہاں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ دنیا جن چیزوں کو حقیر جان کر نفرت کا اظہار کر دیتی ہے چینی اُن کو بھی مزے سے عزت و احترام سے مزے مزے لے لے کر کھا جاتے ہیں۔ اگرخدانخواستہ کبھی کٹرا وقت آن پڑے تو کہاں سے چکن ، مٹن ، باسمتی چاول اور دودھ پتی ملے گی۔ سب بھوکے مریں گے مگر چینی کیڑے مکوڑے ، سانپ، بچھو، بندر کو مزے لے کر کھا رہے ہوں گے۔پاکستانی دعوت میں صرف اعلی قسم کے پھل جیسے چونسا، دھسہری آم، کینو، کالا کُلو سیب ،چتری والے کیلے ہی کو عزت بخشیں گے۔ جبکہ ہم اگر کسی مہمان کو ذرا ہرے رنگ کا سیب، کچا ہرا کیلا، دیسی آم وغیرہ پیش کر بیٹھیں تو مہمان اپنی سبکی محسوس کر تا ہے اور میز بان بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔ باقی رہے جاپانی پھل، ملوک، شہتوت، امرود، فالسہ اور بیروغیرہ تو اُن کو ہم صرف غریبوں کا پھل سمجھتے ہیں اور اللہ کی اِن نعمتوں کو ناشکری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اچھی مارکیٹ اور دوکانوں پر ان پھلوں کو بھی یا تو رکھا ہی نہیں جاتا یا پھر قدرے چھپا کر رکھا جاتا ہے اور مہمانوں کو پیش کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ آم کو پینڈو نہ سمجھ جائیں۔
چین کو ترقی کرنی چاہیے جو اللہ کی ہر نعمت کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمانوں کے لئے اعلیٰ ضیافت میں جس پھل نے سب سے بہتر جگہ پائی وہ ’’بیر‘‘ تھا جسے ہم لوگوں نے صرف مذاق میں نیکر پہنے سکھ کو بیر کھاتے دیکھ کر اچھے لباس اور اچھی خوراک کے لطیفے کی حد تک محدود رکھا ہے۔ بیر کی اس قدر اعلیٰ عزت پر ہم بھی جل اُٹھے۔ یہ خواہش اجاگر ہوئی کہ عزت و مقام و مرتبہ پاؤ تو چین میں بیر جیسا۔
’’چینی ہے؟‘‘ ڈاکٹر واحد نے 4سلائس ، 2فرائی انڈے او ر اورنج جوس کے گلاس کا ناشتہ کر کے چائے کی پھیکی چُسکی لیتے ہوئے پوچھا۔
’’ایک ارب سے زیادہ چینی ہیں اِدھر۔‘‘ ہم نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’میں نے چینی چائے میں ڈالی ہے‘‘ واحد نے مُنہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب اتنی نعمتیں چھوڑ کر وہی پاکستانی ناشتہ لے آئے ہیں۔ ادھر دیکھیں‘‘ ۔میں نے اپنی اور دوسروں کی پلیٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، جو اُبلی سبزیوں، مالٹا، ٹماٹر، چکوترے کی کاش، جھینگوں، مشروم، سویٹ کارن، چاول اور کھجور کے پھیکے کیک، شکرقندی اور دیگر انواع و اقسام کے کھانوں سے بھری تھیں ۔
’’یار۔ یہ سب کچھ کھا کر میری شوگر بہت بڑھ گئی ہیں۔ مجھے نہیں کھانا یہ آلا بلا‘‘۔ واحد نے چائے میں چینی ڈالتے ہوئے کہا
’’ماشاء اللہ ۔ آپ کی نرالی شوگر ہے۔ جو ٹماٹر ، سلاد، ابلی سبزیوں، فِش، مشروم، رائیس کیک وغیرہ سے بڑھ جاتی ہے جبکہ ڈبل روٹی، فرائی انڈے، اورنج جوس اور چینی والی چائے سے نہیں بڑ ھتی‘‘ ۔ہم نے بڑی سنجیدگی سے عرض کی۔
’’میرا نہیں پیٹ بھرتا اِن چینی کھانوں سے۔ میرا معدہ اِن اشیاء کا عادی نہیں ہے۔ یہ جتنا بھی کھا لو لگتا ہے ابھی کھانا کھانا ہے۔ بھئی پیٹ بھی تو آخر بھر نا ہے۔ ‘‘ واحد نے اُکتا کر کہا۔
’’یوں کہیں نا حضور، شوگر کا بہانہ کیوں کرتے ہیں‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان شاید اپنا لباس، حلیہ، سٹائل، زبان اور رہن سہن حتی ٰ کہ کبھی کبھار اپنے خیالات اور سوچ تک نئی جگہ یا حالات میں بدل لیتا ہے مگر اپنے ٹیسٹ بڈز نہیں بدل سکتا۔ انسانی زبان جو ذائقے چکھتے چکھتے جوان ہوتی ہے، وہ دوسرے ذائقے صرف تبدیلی کے لئے کھاتی ہے مگر اپناتی نہیں۔ پاکستانی، انڈین یا افغانی لوگوں کو50قسم کے کھانے کھلا دو۔وہ پھر بھی وہ چپاتی اور دودھ والی چائے کا منتظر ہو گا۔ ایک جاپانی یا چینی کو 100ڈیشیں کھلا دو وہ اُبلے چاول ڈھونڈتا رہے گا۔
دنیا کی کوئی عورت یا باورچی کسی کی ماں سے بہتر کھانا نہیں بنا سکتی۔ اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ماں بہت اعلیٰ پائے کا کھانا بناتی ہے۔ دراصل ماں کے کھانے کھاتے بچہ جس ذائقے کا عادی ہو جاتا ہے پھر وہ ساری عمر وہی کھانے تلاش کرتا رہتا ہے۔آجکل دنیا میں immigrationکا رواج بہت فروغ پا گیا ہے۔ پہلی نسل جس ملک میں بھی جاتی ہے وہ اپنے کھانے ہی کھاتی ہے۔ ہر ملک کے ہوٹل آپ کو امریکہ میں اِس لیے نظر آ جائیں گے کیونکہ وہاں دنیا کے ہر خطے سے لوگ آ آ کر بستے ہیں۔پاکستانی روٹی، شوربا، پلاؤ اور دودھ والی چائے۔ انڈین روٹی، چاول، دال، بھاجی، سموسہ ، چائے، اور عرب چپاتی، پلاؤ حمس وغیرہ کے بغیر نہیں زندہ رہ سکتے۔ اگلی نسل مقامی اور آبائی کھانے دونوں کھاتی ہے اور تیسری یا چوتھی نسل پھر آبائی نسل کھانے کھاتی ضرور ہے مگر اُس کی محتاج نہیں رہتی۔
زیادہ تر لوگ کھانے کے معاملے میں بہت زیادہ choosyہوتے ہیں۔ جیسے ابھی تک بے شمار لوگ اگر چائنیزکھانے کھانا پڑ جائے تو منہ بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ چین جاکر پتا چلا کہ چائنیزکھانے کیا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہا ں کے چائنیزکھانے اگر چینیوں کو کھانا پڑ جائیں تو وہ شاید اُن کو پاکستانی کھانے سمجھیں۔
ایک دفعہ ہم نے کچھ دوستوں کی دعوت چائنیزہوٹل میں کی۔ ایک مہمان رانا صاحب نے جب کھانا لگ چکا تو بھی ہاتھ باندھ کر بیٹھے رہے۔ عرض کی۔
’’جناب شروع کریں۔ یہ ایگ فرائیڈ رائیس ہیں۔ یہ چکن وِد المانڈ بھی خاص ڈش ہے اور منچورین تو سب کو بھاتا ہے‘‘ ہم نے رانا صاحب کو پلیٹ دیتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب ہاتھ باندھ کر بیٹھے رہے اورگویا ہوئے۔ ’’چکھتا ہو ں یہ بھی پہلے روٹی تو آ جائے‘‘۔
عرض کی کہ چائنیزمیں روٹی نہیں آئے گی۔ یہی سب کھائیں گے۔ آپ چاول لے لیں۔
’’مجھے چاول بادی کرتے ہیں۔ ایک نان منگوا دیں۔ وہ اِس لال چٹنی سے کھا لیتا ہوں‘‘ رانا صاحب نے منچورین کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا۔ کافی ترلے منتیں کرکے ہوٹل انتظامیہ سے ایک نان کہیں سے منگوایا جو رانا صاحب نے پیپسی کے ساتھ کھایا۔
زیادہ تر لوگ مختلف پکوان ذائقہ کی تبدیلی کے لئے کھا لیتے ہیں مگر آپ کو بہت لوگ مل جائیں گے جو مخصوص کھانے کی علاوہ بھوکے رہ لیں گے کھائیں گے نہیں۔ کسی کو گائے کا گوشت بادی کرتا ہے اور کسی کو چکن سے گھن آتی ہے۔ کسی کے دانتوں میں بکرے کا گوشت پھنس جاتا ہے۔ آپ کو ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جو صرف بکرے کا گوشت یا دال ہی کھاتے ہیں۔ سبزی چکھتے بھی نہیں اور چکن کو فضول کردانتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ڈاکٹر فاروق نے ساری دنیا گھوم لی اور کافی عرصہ باہر رہ بھی لیا مگر خالصتاً پاکستانی کھانے ہی کھا سکتے ہیں۔ اُن کی چائنیز کھا نوں سے جان نکلتی ہے۔ ایک دفعہ چائنیز نوڈلز، چاومن،دیکھ کر کہنے لگے۔ ’’اگر دودھ اور چینی ہو تو یہ سویاں کھا سکتا ہوں‘‘۔
چاو منز کی اتنی بے قدری پر بندہ سر ہی پیٹ سکتا ہے۔ باہر جاکر حلال حرام کا مسئلہ آن کھڑا ہو جاتا ہے۔ مگراُس سے بھی بڑا مسئلہ زبان کے ذایقہ کاہوتا ہے۔ 50کھانوں کی سجی سجائی کھانے کی ٹیبل پر بھی اندر کا دیسی پاکستانی دال، شوربا اور روٹی اور دودھ والی چائے ہی تلاش کر تا ہے۔اور طرح طرح بہانے بناتا ہے کہ چاول بادی ہیں۔ سبزی اِن کی کچی ہے، اُس کے کھانے سے پیٹ میں ہوا بھرتی ہے۔ مشروم کی شکل اچھی نہیں۔ مچھلی سے ناگوار بو آتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر سب سے نرالا بہانا ڈاکٹر واحد کا تھا کہ مچھلی، سبزیاں وغیرہ کھانے سے اُن کی شوگر بڑھ جاتی ہے اور 4سلائس ، 2-3فرائی انڈے، مکھن، شہد، میٹھے جوس اور چینی والی چائے سے شوگر بہتر ہوتی ہے۔
میرے جیسا بندہ جو سب کچھ کھا لیتا ہے اور باہر کے نئے اور مقامی ذائقوں کی تلاش میں رہتا ہے اُسکا دل بھی چینیوں نے کھٹا کر دیا۔جب آنکھوں سمیت مچھلی ، مچھلی کی بو والا سوپ اور پھیکی کسیلی سبزی اور اُبلے چاول کے علاوہ کچھ نظر نہ آئے تو پھر بندہ کیا سوائے بادی سفید چاول کھانے سے۔ بندہ چاول کھانے سے بھی جاتا ہے اگر ساتھ والے میز پر چینی سانپ، مینڈک، دُم سمیت چوہے مزے لے لے کے نوش فرما رہے ہوں۔ ہم آخر اُکتا کر ’’لانچو لاما‘‘ پہنچتے ہیں جو کہ پورے چین میں ہلال کھانوں کے ہوٹل ہیں۔ وہاں بھی پانی کی جگہ مرغیوں کے پنجون کا سوپ پیش کیا گیا۔ آکر امان پائی تو گوجرانوالہ کے کاکا قصائی کے ہوٹل میں ۔چکن کڑاہی، دال ماش، بریانی اور تازہ گرم گرم تنور کی روٹی ملی تو سب یوں جھپٹے جیسے صدیوں کا روزہ کھولا ہو۔
چینیوں کی ترقی کا راز سمجھ آ گیا جہاں وہ سخت محنت،صفائی، ایمانداری اور بے پناہ بجلی کے باوجود بجلی کی بچت کرتے ہیں وہاں وہ چھوٹی سی چھوٹی چیز کی بھی بے پناہ عزت کر تے ہیں۔ کھانے میں جہاں سانپ، بچھو، مینڈک سب کچھ کھا جاتے ہیں وہاں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ دنیا جن چیزوں کو حقیر جان کر نفرت کا اظہار کر دیتی ہے چینی اُن کو بھی مزے سے عزت و احترام سے مزے مزے لے لے کر کھا جاتے ہیں۔ اگرخدانخواستہ کبھی کٹرا وقت آن پڑے تو کہاں سے چکن ، مٹن ، باسمتی چاول اور دودھ پتی ملے گی۔ سب بھوکے مریں گے مگر چینی کیڑے مکوڑے ، سانپ، بچھو، بندر کو مزے لے کر کھا رہے ہوں گے۔پاکستانی دعوت میں صرف اعلی قسم کے پھل جیسے چونسا، دھسہری آم، کینو، کالا کُلو سیب ،چتری والے کیلے ہی کو عزت بخشیں گے۔ جبکہ ہم اگر کسی مہمان کو ذرا ہرے رنگ کا سیب، کچا ہرا کیلا، دیسی آم وغیرہ پیش کر بیٹھیں تو مہمان اپنی سبکی محسوس کر تا ہے اور میز بان بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔ باقی رہے جاپانی پھل، ملوک، شہتوت، امرود، فالسہ اور بیروغیرہ تو اُن کو ہم صرف غریبوں کا پھل سمجھتے ہیں اور اللہ کی اِن نعمتوں کو ناشکری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اچھی مارکیٹ اور دوکانوں پر ان پھلوں کو بھی یا تو رکھا ہی نہیں جاتا یا پھر قدرے چھپا کر رکھا جاتا ہے اور مہمانوں کو پیش کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ آم کو پینڈو نہ سمجھ جائیں۔
چین کو ترقی کرنی چاہیے جو اللہ کی ہر نعمت کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمانوں کے لئے اعلیٰ ضیافت میں جس پھل نے سب سے بہتر جگہ پائی وہ ’’بیر‘‘ تھا جسے ہم لوگوں نے صرف مذاق میں نیکر پہنے سکھ کو بیر کھاتے دیکھ کر اچھے لباس اور اچھی خوراک کے لطیفے کی حد تک محدود رکھا ہے۔ بیر کی اس قدر اعلیٰ عزت پر ہم بھی جل اُٹھے۔ یہ خواہش اجاگر ہوئی کہ عزت و مقام و مرتبہ پاؤ تو چین میں بیر جیسا۔