۰
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
قرآن حکیم میں سورہ نساء کی آیت نمبر ۶۹ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ اور رسول ا کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کے انعام یافتگان کی معیت پائے گا۔ جو انبیاء صدیقین، شہداء اور اولیاء و صالحین ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ کتنے اچھے رفیق اور کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ اس آیت میں جو مضمون بیان ہوا وہ دراصل سورہ فاتحہ کی اس آیت کریمہ کی تفسیر ہے، جس میں ہمیں یہ دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی کہ اے اللہ ہمیں صراط مستقیم عطا کر، پھر صراطِ مستقیم اور ہدایت کی راہ کی خود وضاحت کی کہ یہ اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی راہ ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی راہِ ہدایت اور صراط مستقیم کو گویا مشخص identify کر دیا ہے اور ہدایت اور صراطِ مستقیم کی پہچان ان شخصیات کے حوالے سے کی جن پر اس کا خاص انعام ہوا۔
اللہ کے انعام یافتہ بندے کون ہیں؟ اس کا جواب سورہ نساء کی مذکورہ بالا آیت میں دیا گیا کہ وہ انبیاء و رُسل علیہم السلام ہیں۔ اس کے بعد صدیقین، پھر شہداء اور پھر صالحین ہیں۔ ان سب کے نقوش قدم سے ہدایت کی منزل پائی جاسکتی ہے۔ اگر ان کی راہ سے تم نے گریز پائی اختیار کی اور مجرّد بحث مباحثوں، مناظروں میں الجھے رہے اور کتابوں میں کھوئے رہے تو ان سے علم تو حاصل ہوسکتا ہے مگر ہدایت بالیقین نہیں مل سکتی۔ علم تب ہدایت میں بدلتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے ہدایت یافتہ بندوں سے راہنمائی حاصل کی جائے۔
اس آیت کریمہ سے ایک اور بات واضح ہوجاتی ہے کہ انعام یافتہ بندوں کی چار طبقات میں تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ سب سے اونچا انعام اور سب سے بلند درجہ مل جانے سے اللہ تعالیٰ کی سب سے اونچے درجے کی نعمت بھی مل گئی۔ گویا بارگاہ رب العزت میں نعمت بھی چار قسموں میں تقسیم ہوگی: نبوت، صدیقیت، شہادت اور صالحیت۔ سب سے اونچی نبوت کی نعمت ہے۔ اب چونکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے، قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اور نبوتِ محمدی کا فیض ابد تک جاری رہے گا۔۔ تاہم نبوت کے اتباع میں اللہ کی دائمی نعمت باقی تین شکلوں میں جاری و ساری رہے گی۔ اس نعمت الٰہیہ کا دوام صدیقیت، شہادت اور صالحیت و ولایت کی شکل میں ابد تک ا رہے گا۔
دنیا میں آقا ں کی بعثت سے پہلے اور بعد بے شمار شہادتیں ہوئیں صحابہ کرام، تابعین اور بعد کے آنے والے ادوار میں آج تک بڑے بڑے اکابرین امت شہادت سے سرفراز ہوتے رہے لیکن کسی شہادت کو وہ شہرت اور دوام نہ مل سکا جو شہادتِ امام حسین ص کے حصے میں آئی۔
آج ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ شہادت امام حسین ص اپنی حقیقت کے اعتبار سے دراصل سیرتِ مصطفی ا کا ایک باب ہے۔ شہادتِ امام حسین ص میں کمال نبوتِ مصطفی ا کا اظہار اپنی پوری آب و تاب سے ہوتا ہے۔ اس لئے اس شہادت کو امام حسین ص کی شخصیت کے تناظر میں نہیں آئینہ کمالاتِ محمدی ا میں دیکھا جائے تو پھر اس کی عظمت سمجھ میں آجائے گی۔
اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت کو جو نعمت بھی عطا کی وہ واسطہ نبوتِ محمدی ا سے عطا کی سب نعمتوں کی طرح شہیدوں کو شہادت بھی حضور ا کے وسیلۂ جلیلہ سے ملتی ہے۔ کوئی بھی عمل نیکی اور تقویٰ تب بنتا ہے جب حضور ا کی اتباع میں ہو۔ اتباع اور پیروی بھی عمل حضور ا کی سند سے بنتی ہے۔ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا کہ اگر میری محبت چاہتے ہو تو پھر میری اور میرے حبیب ا کی پیروی کرو۔ اگر شہادت حضور ا کی پیروی میں نہ ہو تو دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے مر جانا نعمت اور شہادت کے درجے کو نہیں پہنچے گی۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۵۴ میں ارشاد ہوا کہ کشتگانِ راہ خدا کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی حیات کا شعور نہیں۔سنن ابی داؤد کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ وہ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اللہ کی بارگاہ میں رزق بھی پا رہے ہیں۔ کتنی بڑی نعمت ہے کہ شہید قبر میں مدفون ہوکر بھی زندہ ہیں۔
شہادتِ نعمت تبھی نعمت ہے کہ پہلے یہ نعمت شہادت حضور ا میں پائی جائے۔ اگر سیرت محمدی ا میں شہادت کا باب نہ ہو تو پھر نہ کوئی شہید شہید ہے اور نہ کوئی نعمت نعمت۔ ایک بنیادی نکتہ قابل توجہ ہے کہ حضور ا نے فرمایا کہ ساری نعمتیں اللہ مجھے دیتا ہے اور تقسیم میں کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح حضور ا کو اسوۂ کامل بنایا گیا۔ جو حضور اکی پیروی کرے گا اس کا عمل حسنہ بن جائے گا۔ تو شہادت ایک عمل حسن ہے۔ اب یہاں سوال ہے کہ حضور ا کی ذات میں شہادت ظاہراً دکھائی نہیں دیتی اور بادی النظر میں آپ ا شہید نہیں ہوئے۔ جب ایسا ہے تو پھر نعمت شہادت حضور ا کی ذات میں کیسے پائی گئی۔ اس مقام پر دو جہتیں قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ نعمت نبوت کا تقاضا ہے کہ حضور ا میں شہادت ہونی بھی چاہئے اور آپ شہید ہوئے بھی نہیں یعنی آپ کو ان معنوں میں شہید نہیں کیا جاسکتا جس طرح دوسرے شہید ہوئے۔ حسب ارشاد ربانی کسی میں اتنی استطاعت نہیں کہ آپ کو شہید کرسکے کہ قرآن کا صاف فرمان ہے: اے حبیب کسی دشمن کا ہاتھ آپ تک نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ نے اپنے دستِ قدرت سے آپ کو محفوظ و مامون کرلیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ اللہ نے حضور ا کو شہید نہ کرتے ہوئے بھی مرتبہ شہادت پر فائز کرنا چاہا۔
آقائے دو جہاں ا کی حیاتِ طیبہ میں آرزوئے شہادت اپنے کمال پر تھی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ ا اللہ کے حضور دست بہ دعا رہتے اور فرماتے میری شدید آرزو ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کردیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں جان ملتی رہے اور میں جان دیتا رہوں۔ گویا آقا ا نے ظاہری حیات میں اپنی شہادت کی آرزو اتنی شدت سے کی اور اس کا اظہار کیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ جوہر شہادت حضور ا میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ لیکن ظاہری شہادت ممکن نہ تھی، اگر کوئی بدبخت حضور ا کو شہید کردیتا تو ارشادِ خداوندی کی تکذیب ہوجاتی۔
اس آرزوئے شہادت کی ابتدا حضور ا کی زندگی میں غزوۂ احد میں ہوئی جب حضور ا پر سنگ زنی کی گئی۔ شہادت کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ دشمن اپنے ہتھیار سے حملہ آور ہو اور انسان زخمی ہوجائے اور اس کے جسم سے خون بہنے لگے اور آخری شکل یہ ہے کہ اس شہادت میں موت واقع ہوجائے۔ میدان احد میں دشمن نے حضور ا پر نیزے سے بھی حملہ کیا اور پتھروں سے بھی جس سے دندان مبارک شہید ہوئے اور رخسارِ مبارک سے خون بھی بہا۔ تو ہیئت شہادت کی چار شکلوں میں تین پوری ہوگئیں۔ دشمن کا حملہ، رخساروں کا زخمی ہونا اور خون بہنا یہاں تک کہ آپ ا پر غشی کی حالت طاری ہوگئی جس سے دشمنوں کو یہ افواہ اڑانے کا موقع بھی ملا کہ حضور ا شہید ہوگئے۔ یہ محض افواہ ہی رہی اور اب صرف شہادت یعنی چوتھی شرط انتہائے شہادت کی باقی رہ گئی۔
اس انتہائے شہادت کی تکمیل کے لئے حضرت امام حسین ص کو منتخب کیا گیا۔ جو ظاہراً بھی شبیہ مصطفی ا بنائے گئے اور باطناً بھی شبیہ مصطفی ا۔ صحیحین، جامع ترمذی اور دیگر کتب حدیث میں ہے کہ آقا ا حسین ص سے بھی مشابہ تھے اور حسن ص سے بھی مشابہ تھے۔ سیدنا امام حسین ص کے بارے میں حضور ا کا ارشاد کہ میں حسین ص سے ہوں اور حسین ص مجھ سے ہے اور یہ کہ جس نے حسین ص سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جو حسین ص سے دشمنی اور بغض رکھے اور جنگ کرے اس نے گویا مجھ سے دشمنی اور بغض رکھا اور جنگ کی۔ احادیث مبارکہ میں کثرت سے مذکور ہے کہ حضور ا نے فرمایا کہ میں حسین ص کا مظہر ہوں اور حسین ص میرا مظہر ہے۔ آپ ا نے باطناً اور ظاہراً حسین ں سے مشابہت بیان فرمادی۔
جامع ترمذی اور صحاحِ ستہ میں حضور ا کا یہ فرمان مذکور ہے کہ حسین ص مجھ سے ہے۔ اب جز اپنے کل اور بیٹا اپنے باپ سے ہوتا ہے مگر حضور ا کا یہ فرمان کہ میں حسین ص سے ہوں اس کا کیا معنی ہے اور مصطفی ا کیسے حسین ص ہوگئے اس حدیث کا مفہوم اور معنی کا ادراک کرلیں تویہ مضمون مکمل ہوجائے گا۔ حسین ص مجھ سے ہے اس کا معنی یہ ہے کہ حسین ص کے اندر جو کمال موجود ہے اس کا مظہر میں ہوں یعنی حسین ص کے اندر پائی جانے والی عظمت کا منبع میں ہوں۔ حسین ص کے اندر جو حسن و جمال کمال اور کرامت ہے اس کا مصدر اور سرچشمہ میں ہوں۔ میں حسین ص ہوں کا معنی یہ ہے کہ میری سیرت کا جو اظہار ہے اس کا کمال حسین ص سے ہے۔ جس طرح حسین ص نے مجھ سے کمال لیا ہے میری سیرت کے ایک باب کی تکمیل جو ابھی باقی ہے وہ حسین ص کی شہادت سے مکمل ہوگی اور اس طرح میری سیرت کا وہ باب بھی مکمل ہوجائے گا جو ۔۔۔ظاہری شہادت نہ ہونے کی وجہ سے تشنۂ تکمیل ہے۔ گویا میری شہادت کا ظہور عملی صورت میں شہادتِ حسین ص سے ہوگا۔
اسی طرح شہادت حسین ص سے چاروں شرطیں پوری ہوگئیں اور آخری شکل جو وفات کی صورت میں ہونا باقی تھی وہ بھی مکمل ہوگئی۔ اللہ رب العزت نے ظاہراً و باطناً حسین ص کو شبیہ بنا کر جس شہادت کی ابتدا میدان احد سے کی اس کی تکمیل میدان کربلا میں کردی۔ شہادت حسین کا اعلان خود آقا ا نے اپنی زبان مبارک سے کردیا۔ اس پر کئی روایات متعدد کتب حدیث میں ام المومنین حضرت ام سلمہ ص سے مروی ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس بھی اس کے راوی ہیں۔
حضرت ام سلمہ ص فرماتی ہیں کہ حضرت جبرائیل ں نے حضور ا کو کربلا کی مٹی دی۔ پھر یہ مٹی آپ ا نے مجھے دی اور فرمایا کہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے گی تو سمجھ لینا کہ میرا حسین ص شہید ہوگیا ہے۔ اس کو زمانے بیت گئے۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک دن جب دس محرم تھا حضور ا ظہر کے بعد میرے خواب میں آئے اس عالم میں کہ آپ ا کا سر مبارک گرد آلود تھا آپ کے دست اقدس میں ایک شیشی تھی جس میں خون تھا میں نے پوچھا حضور یہ شیشی میں خون کیسا اور آپ کی یہ کیفیت ؟ آپ ا نے فرمایا کہ میرا حسین ص کربلا میں شہید ہوگیا ہے اور اس شیشی میں حسین ص اور اصحابِ حسین ص کا خون جمع کر کے لایا ہوں۔
شہادت حسین کا جو باب کربلا کی زمین پر رقم ہوا اس سے سیرت مصطفی ا کا وہ باب جو ابھی نا مکمل تھا تکمیل پذیر ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہادتِ امام حسین کو ابدالاباد تک موجود رہنے والی شہرت اور دوام نصیب ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں دوسروں کی شہادت ان کی اپنی شہادت ہے۔ امام حسین ص کی شہادت ان کی اپنی شہادت نہیں بلکہ خود مصطفی ا کی شہادت ہے۔