عظیم علمی اور روحانی شخصیت مولوی محمد حسینؒ المعروف جنوں والے

تحریر:احمدحسین اتحادی(عبدالحکیم سٹی)
دنیا دار فنا ہے جو پیدا ہوا ہے اسے ایک نہ ایک دن رخت سفر باندھنا ہے و ہ جس حیثیت کا مالک اورجس قدربھی مقبول ومبروک ہووہ جانے کے لئے آیاہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جودنیاسے جانے کے باوجود اپنی یادیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتے ہیں یہ دل آویزی،یہ محبوبیت ان بندگان خدا کے حصے میں آتی ہے جو اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری،آپؐ کے جمال و کردار کے تذکرے اور آپ کے دین و متین کی تبلیغ میں صرف کر دیتے ہیں اسی مقدس گروہ کے فرد فریددروحید فخرالمشائخ مولوی محمد حسینؒ فیروزپوری المعروف جنوں والے علیہ الرحمت ہیں جن کی زندگی اسوہ حسنہ کا عملی نمونہ اوریادہمارااسلاف تھی انہوں نے ساری زندگی قرآن وسنت کی تبلیغ واشاعت میں گزاری آپ کونبی اکرم ؐسے بے انتہاعشق تھااکثر فرمایاکرتے تھے کہ آج امت مسلمہ سنت رسولؐ پر عمل پیراہوجائے توتمام اختلافات خودبخودختم ہوجائیں گے آپ 1936ء میں ڈھولے والا تحصیل زیرہ ضلع فیروزپور(بھارت)میں جلوہ افروزہوئے یہ ضلع اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ اس سرزمین پر عقیدہ سلف صالحین کے حامل اورعادل علماء،بڑے بڑے رجال،اہل قلم اوربہت سی ممتاز شخصیات پیدا ہوئیں آپ کا گھرانہ شرافت راست گوئی کسب حلال اور اوصاف حمیدہ میں مشہور تھا یہ پورا گھرانہ علماء کامعتقداورقران وسنت کا عملی گہوارہ تھاآپ کے والدبزرگوارم احمداللہ انتہائی نیک سیرت اورمتقی شخص تھے توحیدوسنت کی محبت اور دینی غیرت وحمیت ان میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی آپ کی والدہ محترمہ بھی ایک نیک سیرت خاتون تھیں ان کی دعاؤں کے طفیل آپ چاروں بھائی مولانا جان محمدؒ،مولاناسردارمحمدحلیمؒ،مولانامحمد حسینؒ،مولاناقاری محمدایوب فیروزپوری ؒحقیقی معنوں میں دین اسلام کے داعی و مبلغ بن گئے اور بہت ہی کم عرصے میں سب بھائیوں کا شمارممتازجید علمائے دین میں ہونے لگاآپ کے خاندان کی دین اسلام کے لئے خدمات ناقابل فراموش ہیں آپ کوممتازعلماء کرام کی صحبت حاصل رہی جن میں مولانا سیدبدیع الدین شاہ راشدی ؒپیر آف جھنڈا،پروفیسرعبداللہ بہاول پوری ؒ،شیخ الحدیث عبدالرشیدہزاروی،صوفی محمد عبداللہ ؒماموں کانجن،مولانا احمد دین گکھڑویؒ،مولاناعلی محمدسعیدیؒ، مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ شامل ہیں آپ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنمااورطبی وروحانی معالج بھی تھے اسی مناسبت سے آپ مولانا محمد حسین جنوں والے کے نام سے زیادہ مشہور تھے کیونکہ آپ نے قرآنی علم کے ذریعے جنات کو تابع کررکھاتھا آپ فطری طور پر انتہائی ذہین تھے آپ کی ذہانت حاضرجوابی برجستہ گوئی اورجرات مسلمہ تھی آپ کا یہ دعوی تھاکہ انہیں اچانک نیند سے اٹھا لیاجائے اوربیس افراد یکے بعد دیگرے سوالات کی بوچھاڑ کر دیں تووہ بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں آپ کے چنددوستوں نے اس کا تجربہ بھی کر دیکھا،انڈیا میں آپ کا خاندان 100گھماؤں زمین کا مالک تھاقیام پاکستان کے وقت آپ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے راستے میں ہندؤں اور سکھوں کے ظلم وستم کا جوانمردی کے ساتھ سامنا کیا آخرکار گوجرہ کے نواحی گاؤں 363صوبے دار والا پہنچ کروہاں عارضی سکونت اختیار کی آپ نے ولی کامل صوفی محمد عبداللہ کی شہرت سنی توان سے ملاقات کااشتیاق ہوا،ایک روز پتہ چلا کہ امیرالمجاہدین صوفی محمد عبداللہ ؒمولانامحمدیعقوب کے مدرسے میں مقیم ہیں چنانچہ آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ ان کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے صوفی محمد عبداللہ صاحب بڑے حسن سلوک اور محبت سے پیش آئے اورانہوں نے مولانامحمد حسین کا ماتھاچوما اوران کاسراپنی گود میں لے کر کہنے لگے “بیٹا تم جن نکالا کرو”تو آپ حیرت سے صوفی صاحب کا منہ تکنے لگے اور کہا”جی میں…کیا آپ یہ حکماًفرما رہے ہیں “توموصوف مسکرادیئے اورپھر فرمایا”بیٹا تم جن نکالا کرو”اورپھرحضرت صوفی محمد عبداللہ کی دعاؤں سے آپکی کایاپلٹ گئی یوں آپ کی زندگی میں ایک نئے روحانی باب کا اضافہ ہوگیاپھر گوجرہ سے چک نمبر105/10Rجہانیاں منتقل ہو گئے وہاں بھی قرآن وسنت کی ترویج و ترقی میں اہم کرداراداکیابعدازاں 1959ء میں عبدالحکیم میں آکر مستقلاًآباد ہو گئے مرشد کامل صوفی محمد عبداللہ ؒسے جو عہدوفاباندھاتھا تو اس کی مرض الموت تک وفا کی اور انسانیت کی خدمت اورفرض کی بجا آوری میں اپنی صحت کی بھی پرواہ نہ کی آخری ایام میں جب اہل خانہ نے آپ کو کچھ دن آرام کا مشورہ دیاتو اکثریہی جواب دیتے کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی مصیبت زدہ میرے درپر آس لے کر آئے اورمایوس لوٹ جائے،اللہ جل شانہ نے بھی آپ کوانسانیت سے ہمدردی وخلوص کے پیش نظردست شفاء سے نوازا۔ یوں لاکھوں افرادجسمانی وروحانی بیماریوں سے شفایاب ہوئے، آپ ہرسائل کوخلاف شرع رسم ورواج سے بچنے اورقرآن وسنت کی اتباع کاحکم دیتے تھے،آپ پروقاروجیہہ،بھاری بھرکم،بارعب اورہردل عزیز شخصیت کے مالک تھے اللہ نے آپ کو خطابت کی تمام دل ربائیوں سے نوازاتھاآپ شگفتگی اورشستگی کاحسین مرقع تھے جس نے بھی آپ کی گفتگوسنی وہ متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکا آپ کی حق گوئی و بے باکی پرہرکوئی آپکی عزت و تکریم کرتا تھاحتی ٰکہ مخالفین اپنے جھگڑوں کے فیصلے آپ سے کرواتے تھے آپ فرقہ واریت،لسانی ومذہبی تعصبات اورانتہاپسندی کے خلاف تھے آپ ہمیشہ لوگوں کوامن وسلامتی اور محبت واخوت کی تلقین کرتے تھے 1953ء اور1974ء میں تحریک ختم نبوت بہت زوردار،موثراور ہمہ جہتی تحریکیں تھیں آپ نے ان میں بھرپور حصہ لیاجس کے نتیجہ میں مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیامتعددبارپابندسلاسل ہوئے لیکن آپکے عزم واستقلال میں ذرابھر بھی کمی نہ آئی۔آپ کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خان،وزیراعلی پنجاب (سابق)غلام حیدروائیں، وزیراعظم چودھری محمدعلی مرحوم سمیت نامورسیاستدان اہم قومی وسیاسی امورپرآپ سے صلاح مشورہ کرتے تھے،سابق اسپیکرقومی اسمبلی سیدفخرامام شاہ اور ڈاکٹرسیدخاورعلی شاہ کی کامیابی میں مولاناصاحب کا اہم کردار رہاہے۔ آپ کی جولانگاہ فکربے اندازہ وسعتوں کی حامل ہوتی تھی، عالم اسلام میں بھی آپ کوقدرکی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں امام کعبہ فضیلتہ الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل پاکستان تشریف لائے تو آپ سے ملاقات کے لئے عبدالحکیم تشریف لائے تھے1992ء میں آپ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب تشریف لے گئے وہاں خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز کے شاہی محل میں آپ کے اعزاز میں خصوصی ضیافت ہوئی نیزقیام حج کے دوران آپ کی زیارت کے لئے لوگوں کا تانتا بندھارہا۔

آپ کلام پاک کے ذریعے لوگوں کا علاج کیا کرتے تھے آپ کاطریقہ علاج بے ضررتھاغیب کا علم توصرف اللہ جل شانہ کے پاس ہے مگرآپ مطیع جنات کے ذریعے حاجت رواؤں کے حالات وواقعات معلوم کرلیتے تھے آپ جادوٹونے، طلسماتی نقشوں،غیرشرعی تعویزگنڈے،کوڑیوں،موتیوں اور حیوانی ہڈیوں وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو ناجائزتنگ کرنے کے سخت خلاف تھے کیونکہ و ہ جانتے تھے کہ جادووہ زہر ہلاہل ہے جواچھے بھلے صحت مندانسان کو لمحوں میں قبر کی آغوش میں پہنچا دیتاہے اورہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے ظالم لوگ رہتے ہیں جوچندٹکوں کی خاطرپیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے جادو ٹونے اورجھاڑپھونک کے ذریعے دوسروں کے آنگن کو اجاڑتے ہیں اورجادو کے عمل سے دوسروں کی زندگی عذاب بنائے ہوئے ہیں بے شمارایسے گھرانے ان قبیح عملیات سے اذیت ناک زندگی گزاررہے ہیں آپ ان مصیبت زدہ لوگوں کے لئے مسیحا تھے آپ نے روحانی علوم کوصرف فلاح انسانیت کے لئے استعمال کیااورکبھی زرکے بدلے مجبورنہ ہوئے اگر کوئی کسی کو تنگ کرنے کی غرض سے آتاتو اسے گھر کی راہ دکھاتے تھے یقیناآپکی زندگی عاملوں اورنجومیوں کے لئے ایک مشعل راہ ہے دور حاضر میں طلسماتی قوتوں کے مالک عاملین کوانسانیت کی بھلائی کے لئے آپ کی تقلیدکرنی چاہیے آپ کی زندگی متعدد ایسے ناقابل فراموش واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں آپ کی انسانیت سے بے لوث ہمدردی کے بے شمارثبوت ملتے ہیں،فیصل آباد سے عبدالقیوم بٹ بیان کرتے ہیں کہ ایک مریض قریب المرگ تھاڈاکٹروں کووجہ مرض سمجھ نہ آسکی،لواحقین مولاناکو ہسپتال لے آئے آپ نے دم کیااورفرمایاکہ کل یہ ہوش میں آجائے گااگلے دن مریض نے معجزانہ طورپر آنکھیں کھول دیں مولانا نے دوبارہ آکر دم کیا اورکہنے لگے کہ اب یہ چلنے لگے گا بعینہ ایسا ہوا ڈاکٹرحیران تھے کہ یہ کیسے ممکن ہوا تو مولانا نے بیان کیا کہ جادو کے اثرسے دماغ کی انتہائی باریک شریان میں خون جم گیا تھاجس پر تمام دوائیں بے اثر تھیں جیسے ہی اللہ کی کلام سے سحرختم ہواخون کالوتھڑاتحلیل ہو ااورمریض صحت یاب ہو گیابعدازاں مریض نے انگلینڈ جاکرمعائنہ کروایاتو اسی بات کی تصدیق ہوگئی، اللہ نے آپکوتشخیص الامراض پرعبورعطاکیاتھا میاں چنوں کی ایک خاتون شدیدعلیل ہو گئی،ڈاکٹروں اورحکماء سے بڑے علاج کروائے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ملتان کے ڈاکٹروں نے لاعلاج قراردے دیا وہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے انہوں نے دو تین دفعہ دم کیامرض ختم ہوگیااورمریضہ صحت یاب ہو گئی، مکۃا لمکرمہ میں بیت اللہ کے نزدیک حافظ عرفان نامی بچے کوآسیب کی شکایت ہوگئی گھرمیں آگ کالگنا معمول تھا فائربریگیڈہروقت تیار رہتا تھا جنات کی شرارتیں بند نہ ہوئیں تو سعودی یونیورسٹی کے پروفیسرقاری حبیب الرحمن (لاہور)نے مریض کو مولانا کے پاس پاکستان بھیجاحضرت صاحب نے اس کا علاج کیاپھردوبارہ یہ تکلیف نہیں ہوئی، آپ غرباء ومستحقین کی سرپرستی کرتے تھے1968ء میں ایک دفعہ آپ کے پاس ایک عمررسیدہ بزرگ اپنی آسیب زدہ بچی کو لے کر آئے آپ نے بچی کو دم کیا اور ایک قرآنی تعویز چاندی میں بند کرکے گلے میں ڈالنے کو کہاتووہ بزرگ رونے لگے وجہ دریافت کی تو معلوم ہواکہ وہ نہایت غریب آدمی ہے اور ہفتہ بھرکی محنت ومشقت کے بعد کرائے کا بندوبست ہوا ہے چاندی کے تعویز کے لئے رقم کہاں سے لائے،یہ سن کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے پھرآپ نے اس کی مالی اعانت کی،اسی طرح منڈی یزمان سے تین آدمی آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کی کہ ان کی ہزاروں کی نقدی گم ہو گئی ہے آپ نے کچھ توقف کے بعد فرمایا کہ جاؤریت کے ٹیلے پرپتھر کے نیچے رقم موجود ہے یہ لوگ وہاں پہنچے تورقم واقعی موجودتھی اسے مولانا کا کشف قراردیجئے یاکرامت بہرحال ان کی بات درست ثابت ہوئی عبدالحکیم سے حاجی منورنے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ مولاناکے ساتھ سفرپرگئے کشتی کے ذریعے دریائے چناب عبور کیاانہیں شدیدبھوک لگی تھی ساتھیوں نے حضرت نوراللہ مرقدہ سے اس بابت عرض کی تونجانے کہاں سے کھجوروں بھری پلیٹ نمودار ہوگئی حالانکہ قرب وجوار میں کوئی آبادی یاشجراورکجھوروں کا موسم بھی نہ تھا۔
مولانا کی خدمت میں ملک بھرسے لوگ دعااورتعویزکے لئے آتے تھے کوئی کاروبارکے لئے، کوئی اولاد کے لئے،کوئی رفع مرض کے لئے،کوئی زرعی پیداوار میں اضافہ کی دعاکراتا تھا،کوئی امتحان میں کامیابی کاخواہاں ہوتاتھاتوکوئی اس لئے آتاتھا کہ اس کی اولادصالح ہو،کوئی مصیبت سے نجات پانے کی غرض سے دعا کا خواست گار ہوتاتھامولانا صاحب کسی کے لئے دعا کرتے کسی کو قرآنی تعویزدیتے کسی کو پڑھنے کے لئے کوئی وظیفہ بتاتے کسی کو نصیحت فرماتے اوراعمال نیک کی تلقین کرتے کسی کو تہجدپڑھنے کا حکم دیتے کسی کو تلاوت قرآن مجیدکی تاکید کرتے کسی کو انفقوافی سبیل اللہ کاوعظ کرتے کسی کے سامنے الکاسب حبیب اللہ کی فضیلت بیان کرتے کسی کو اطاعت والدین کا درس دیتے آپ سے ملاقات کے بعدسائل کو اطمینان ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے من کی مراد پوری ہوئی، آپ نے ساری زندگی کسی سے بھی علاج معالجہ کے عوض کبھی کوئی معاوضہ وصول کیا نہ اشتہاری عاملین کی طرح بے کسوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا۔مولانا مستجاب الدعوات تھے آپ کے اٹھے ہوئے ہاتھ کبھی بھی بارگاہ الٰہی سے خالی نہ لوٹے تھے جہاں اللہ نے ان کو صالحیت اور اعمال خیرکی دولت عطافرمائی تھی اوران کی دعاکو شرف قبولیت بخشاتھا وہاں مردم شناسی کی نعمت سے بھی نوازا تھا انہوں نے شرک وبدعت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں توحید کی شمع روشن کی آپ درباروں پر چڑھاوے چڑھانے سے منع کرتے تھے، معاشرے کوغیراسلامی رسومات وخرافات سے پاک کیا خصوصاً تعویزگنڈے،جھاڑپھونک اورتبرکات کی پھیلی ہوئی بیماریوں کومعاشرے سے ختم کرنے کے لئے مصروف عمل رہے الغرض آپ نے ساری زندگی مسلمانوں کی صحیح رہنمائی اورخدمت خلق میں بسرکی اندرون وبیرون ملک آپ کے عقیدت مندوں کی تعدادلامحدودہے اقلیم ولایت کا یہ درخشندہ آفتاب3نومبر1998ء کو غروب ہوااور اہل وطن عبقریانہ اوصاف کی حامل عظیم ہستی سے محروم ہوگئے مگرفیضان کرم اور نظر رحمت کے وجودمعنو ی کے ساتھ تا ابد، ہم میں موجود ہیں۔نوٹ-: اللہ نے آپ کے فرزندان حکیم احمدحسین اتحادی اورمحمدحسنین اتحادی کونیک نیتی اخلاص اور پاکیزگی کے انہی جواہرسے مالامال کیاہے جومولاناصاحب کی زندگی کاخاصہ تھے آپ نے دوران حیات اپنے صاحبزادے حکیم احمدحسین اتحادی (آف عبدالحکیم) کو متذکرہ روحانی منصب تفویض کردیاتھا۔ احمدحسین نے نیشنل کونسل فارطب (وزارت صحت،حکومت پاکستان)سے شعبہ طب میں طلائی تمغہ حاصل کیاہے جبکہ روحانی علاج میں اپنے والد کے صحیح جانشین ثابت ہوئے ہیں انہوں نے طب روحانی کوکبھی پیشہ
نہیں سمجھابلکہ وہ اسے اخلاقی فریضہ کے طورپرنبھارہے ہیں یوں آپ کے خاندان سے روحانی فیوض وبرکات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
قارئین نیچے دیے گئے باکس میں‌ رابطہ کرسکتے ہیں (ادارہ

اپنا تبصرہ لکھیں