عقیدۂ تحفظ ناموس رسالت اور ہماری ذمہ داریاں
مغرب کی گستاخانہ فلم کی اشاعت کے رد عمل پر حامیان اسلام کی ترجمانی پر خصوصی تحریر
(علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال)
اسلام میں عقیدہ توحید کے بعد دوسرے نمبر پر عقیدہ رسالت (ۖ)پر ایمان لانا بہت ضروری ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ تمام پیغمبروں پر ایمان لائیں ان کا ادب و احترام کریں اور پھر نبی آخرالزماں حضرت محمد ۖ پر ایمان لانے کے بعد ان کی اطاعت کریں اور آپ کی جملہ امور میں پیروی بھی کریں اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
ترجمہ:۔”ہر وہ شخص جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے اللہ کے رسول ۖ کی حیات طیبہ میں بہترین نمونہ موجود ہے ۔(آل عمران 31)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:۔”ترجمہ:۔ ”اے پیغمبر ۖ فرمادیں اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو پھر میری اتباع کروپھر اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔”ایک تیسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :۔ ترجمہ:۔”جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی ہی اطاعت کی۔”
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لئے نبی کریم ۖ کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ موجود ہے آپ ۖ کی اتباع کرنے سے ہی مسلمان اللہ کو راضی کر سکتے ہیں اور اس کی رضا و رحمت و محبت بھی حاصل کر سکتے ہیں اس سے مسلمانوں کے گناہ کی بخشش ہو گی تیسری آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول (ۖ) کو عین اپنی اطاعت قرار دیا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ رسول ۖ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہیں اورتمام الہٰی تعلیمات اللہ کے بندوں تک پہنچانے والے ہیں ۔ قرآن و سنت ،آثار صحابہ اور مذاہب اربعہ کی روشنی میں رسول اکرم ۖ احترام و اکرام واجب ہے اور آپ ۖ کے خلاف تحقیر آمیز الفاظ کہنے ،گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے والے شخص کو قتل کرنا واجب ہے اندلس کے قاضی عیاض نے اپنی معروف تصنیف”الشفائ” میں توہین رسالت کے موضوع پر کئی ابواب وقلمبند کئے ہیں وہ لکھتے ہیں” تمام علماء امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شاتم رسول ۖ یا وہ شخص جو آپ ۖ کی ذات میں نقص نکالے کافر ہے اور مستحق وعید عذاب ہے اور پوری امت کے نزدیک واجب القتل ہے اس طرح امام مالک رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ”جو شخص حضور اکرم ۖکو یا کسی نبی کو گالی دے، اسے قتل کیا جائے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔”
ناموس رسالت ۖ کے بارے میں غیرت الہٰی اس قدر حساس ہے کہ قرآن نے گستاخان رسول کو ہمیشہ سخت لہجے میں جواب دیا ان پرلعنتیں بر سا ئیں اور ان کو عذاب الیم کی وعیدیں سنائیں مثلاً ابو لہب کے بارے میں سورة لہب نازل ہوئی امیہ بن خلف کے بارے میں سورة ہمز اور ابی بن خلف کے بارے میں سورة یٰسین 78تا83،عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں سورة فرقان آیات 23تا31ولید بن مغیرہ کے بارے میں سورة زخرف آیت 31تا32اور القلم آیات 8سے12،نفر بن الحارث کے بارے میں سورة لقمان آیت7,6اور عاص بن وائل سہمی کے بارے میں مکمل سورة کوثر نازل ہوئیں یہ تو رب ذالجلال کا توہین رسالت کرنے والوں کے بارے میں سخت رد عمل تھا ان سب دشمنوں کا خوفناک انجام کسے معلوم نہیں ابو لہب اس کے بیٹے عقبہ ،ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل سہمی کی موتیں بڑی عبرتناک تھیں پھر خود رسول مقبول ۖ کے حکم پر اس طرح کے پندرہ کے لگ بھگ گستاخوں کا قتل اور عبرتناک انجام سب کے سامنے ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ۖ کی اطاعت اور اتباع مسلمانوں پر واجب قرار دی تو اس کے لئے دلوں میں حب رسول ۖ کا جذبہ پیدا کیا اور توہین رسالت ۖ سے خود اللہ کریم نے حضرت محمد ۖ کا دفاع کیا اور مسلمانوں پر بھی رسول اکرم ۖ کی عزت و ناموس اور آبرو کا احترام کرنا اور اس کی حفاظت کرنا واجب قرار دیا جب تک آپ ۖ کی سچی محبت دل میں موجود نہیں کوئی آپ ۖ کی پیروی کیسے کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و محبت کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
محمد ۖ کی محبت کا رشتہ سب رشتوں سے اعلیٰ ہے یہ رشتہ قانون کے سب رشتوں سے بالا ہے
محمد ۖ متاع عالم ایجاد سے پیارا پدر ،مادر ،برادر ، مال و جان،اولاد سے پیارا
ایک مسلمان کے نزدیک اللہ کے رسول ۖ کی محبت عین ایمان ہے مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اللہ کے رسول ۖ کی شان اقدس میں ادنیٰ سی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔حضور خاتم النبین ۖ اور امت مسلمہ کے مابین وہی ربط تعلق ہے جو جسم و جان کا ہے آپ ۖ کی ناموس ملت اسلامیہ کا اہم ترین فریضہ ہے مسلمان آپ ۖ کی توہین ،تنقیص ،بے
ادبی برداشت نہیں کر سکتا وہ اپنے آقا و مولا حضرت محمد ۖ کی عزت و ناموس پر مر مٹنے اور اس کی