حالات حاضرہ پر معروف عالم دین و سلسلہ اویسیہ کے روحانی پیشوا حضرت علامہ پیر محمد تبسم بشیر
اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال کا انٹرویو
تعارف:علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی پاکستان کے معروف عالم دین ہیں۔دینی خدمات اور تحریری کاوشوں کے پیشِ نظر ان سے انٹرویو کیا گیا۔ان کا تعارف حسبِ ذیل ہے۔وہ ضلع نارووال میں پیدا ہوئے ۔نارووال میں انگلش میڈیم سکول سے میٹرک کیا ۔ایف اے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے جبکہ سی۔ کام اور انگلش شارٹ ہینڈ و ٹائپ نارووال کامرس کالج سے ۔فاضل عربی گوجرانوالہ بورڈسے او ٹی ۔ایلیمینٹر ی کالج نارووال سے ۔بی اے پنجاب یونیورسٹی سے جبکہ درسیات جامعہ حنفیہ غوثیہ شیراکوٹ لاہور سے درس نظامی و تنظیم المدارس کے شہادة العالمیہ تک کے امتحانات اچھے نمبروں میں پاس کیے اور ایم اے عربی و اسلامیات کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ان کی تصانیف میں(i)جشن عید میلاد النبی ۖ قرآن و حدیث و بزرگانِ دین کی نظر میں(ii)دعا بعد نماز جنازہ(iii)اسلامی عقائد و مسائل سوالاً جواباً150صفحات شامل ہیں۔مختلف مذہبی جماعتوں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیںجن میں (i)مہتمم جامعہ اویسیہ کنز الایمان نارووال۔ (ii)ناظم اعلیٰ اویسیہ اسلامک سنٹر اویس نگر چوہالی(iii) مرکزی وائس چیئرمین بین المذاہب امن کمیٹی پاکستان( iv)مرکزی ناظم اعلیٰ تحریک اویسیہ پاکستان(v)چیئر مین اتحاد بین المسلمین امن کمیٹی ڈسٹرکٹ نارووال(vi)صوبائی امیر عالمی تنظیم اہلسنت پنجاب(vii)سربراہ اتحاد تنظیمات اہلسنت ضلع نارووال (viii)سرپرست اعلیٰ بزم ثنائے حبیب ضلع نارووال (ix)سرپرست اعلیٰ بزم رضائے محمدضلع نارووال(x)سرپرست اویسیہ پبلک سکول رجسٹر ڈکلاس گورایہ شامل ہیں۔ نارووال سے عقائد اہلسنت و افکار اولیاء کا ترجمان ”ماہنامہ تاجدار یمن”عرصہ 9 سال سے شائع کر رہے ہیں جو ملک و بیرون ملک کثیر تعداد میں ارسال ہو تا ہے ۔ان کی روحانی نسبت سلسلہ عالیہ اویسیہ سے ہے اور ان کو دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف ضلع گوجرانوالہ پر حضور بدرالمشائخ قبلہ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ کا مرید اور خلیفہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔جن کی روحانی نسبت حضرت امام العاشقین حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے ۔اسی وجہ سے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ان کے ملک کے تمام قومی چھوٹے بڑے اخبارات میں مذہبی مضامین شائع ہوتے ہیں بلکہ تمام رائٹر ز سے زیادہ آپ کے مضامین ہر جمعہ اور مذہبی تہواروں پر شائع ہوتے ہیں ۔نارووال جیسے پس ماندہ علاقے میں خدا و رسول ۖ کے فضل و کرم اور اپنے مرشد کامل کی نظرِ فیض سے دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ضلع نارووال میں اکثر مساجد اور فعال مدارس میں انکے شاگرد اور جامعہ اویسیہ کنز الایمان کے فارغ التحصیل علماء خدمتِ دین سر انجام دے رہے ہیں ۔ان کا انٹرویو نظر قارئین ہےسوال :۔ آپ انگلش میڈیم سکول سے میٹرک پاس کر کے دینی ذوق کی طرف کیسے مائل ہوئے؟جواب:۔ میٹرک سے پہلے ہی میں نے سلسلہ عالیہ اویسیہ کی عظیم روحانی شخصیت ،برھان الواصلین ،حجة الکاملین ،بدرالمشائخ حضرت قبلہ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ وارث دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف ضلع گوجرانوالہ کی زیارت اپنے محلہ کی جامع مسجد میں سالانہ منعقدہ جشن میلاد مصطفےٰ ۖ کانفرنس میں کی ۔قبلہ سائیں صاحب رحمة اللہ علیہ کی سادگی ،مشفقانہ انداز گفتگو اور نورانی چہرے نے مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا ۔ اس سے قبل میں شیخ الحدیث استاد العلماء نائب محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ ابو محمد محمد عبد الرشید قادری رضوی رحمة اللہ علیہ سمندری شریف اور شہنشاہ ولایت حضرت پیر سید صابر حسین شاہ چشتی رحمة اللہ علیہ سبز کوٹ کی زیارت بھی کر چکا تھا ۔رات محفل میلاد سے واپسی پر سوتے وقت استخارہ کیا جس میں بدرالمشائخ ماہتاب ولایت حضرت قبلہ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا اشارہ ہو ا۔ صبح مجھے آپ کے دست بیعت ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ۔میٹرک کے امتحانات قریب تھے اور میں سخت بیمار ہو گیا ۔حضرت سائیں صاحب رحمة اللہ علیہ سے میرے والد گرامی صوفی بشیر احمد رحمة اللہ علیہ نے عرض کیا آپ کے مرید کی تعلیم شاید ادھوری ہی رہ جانی ہے ۔اس پر سائیں صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ پتہ نہیں کیا پڑھانا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی اور ہی تعلیم مقصود ہے ۔میرے والد گرامی تعلیم میں مجھے نمایاں اور ذہین و محنتی دیکھتے ہوئے ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے ۔جب سائیں صاحب رحمة اللہ علیہ نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا تو والد صاحب نے عرض کیا کہ حضور جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہے وہی تعلیم حاصل کر ے۔اس کے بعد حضرت قبلہ سائیں صاحب رحمة اللہ علیہ نے دعا فرمائی اور فرمایا کہ یہ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرے گا۔ دعائے مرشد کی برکت سے دینی علو م کی طرف رجحان بڑھ گیا اور سکول و کالج کے ساتھ ساتھ دینی مروجہ علوم ،درس نظامی اور دورۂ حدیث مکمل کیا ۔پھر دینی علوم کی اشاعت کے لئے جامعہ اویسیہ کنز الایمان کے نام سے 1996ء میں ادارہ قائم کیا جس سے اب تک 150کے قریب بچے اور بچیاں حفظ القرآن ،300کے قریب دورۂ تفسیر القرآن اور سینکڑوں بچے اور بچیاں تجوید و قرأت کے ساتھ ناظرہ قرآن اور کمپیوٹر کورسز کر کے فارغ ہو چکے ہیں ان میں سے کئی بچے اور بچیاں تعلیم قرآن کو عام کر رہے ہیں ۔سوال :۔ کیا آج کے مدارسِ دینیہ کا نصاب موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے ؟جواب: مدارس دینیہ کا نصاب دن بدن تلخیص کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔اس نصاب میں دور جدید کے تمام تقاضے پورے نہیں ہو رہے ۔ دینی بورڈ ز مدارس کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ کریں ۔کمپیوٹر اور سائنس کی تعلیم مدارس دینیہ میں لازمی قرار دی جانی چاہیے ۔عالمی زبانوں کو سکھانے کا معقول بندو بست ہونا چاہیے ۔گلی گلی کھلنے والے مدارس پر پابندی عائد ہونی چاہیے ۔ہر مکتبہ فکر کا ایک یا دو ماڈل معیاری مدرسہ ہر شہر میں موجود ہونا چاہیے جس میں طلباء کی فکری ،اخلاقی ،سیاسی اور سماجی تربیت ہونی چاہیے تاکہ وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک باوقار محب وطن شہری کاکردار ادا کرسکیں ۔حکومت کو سرکاری سکولوں کی طرح مدارس کی بھی مکمل سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ دینی و دنیاوی علوم کی خلیج کو ختم کیا جا سکے۔ مدارس میں تقابل ادیان پر خصوصی تربیت دی جانی ضروری ہے۔سوال :۔ تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ اہلسنت کا کیا کردار رہا اور آج استحکام پاکستان کیلئے کیا خدمات سرانجام دے رہے ہیں؟جواب:۔ تحریک پاکستان میں ہمارے اسلاف علماء و مشائخ جن میں امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ،شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی ،مجاہد ملت علامہ عبد الستار خاں نیازی، مولانا عبد الحامد بدایونی، خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا سیدنعیم الدین مرادآبادی، پیر آف مانکی شریف ،پیر آف بھر چونڈی شریف، پیر آف زکوڑی شریف، حضرت سائیں فقیر اللہ اویسی اور ہزاروں علماء و مشائخ اہلسنت قائد اعظم محمد علی جناح کا ہر اول دستہ رہے ۔اس سلسلہ میں آل انڈیا سنی بنارس کانفرنس تاریخی حیثیت کی حامل ہے جس میں پانچ ہزار سے زائد علماء و مشائخ نے حصول پاکستان پر متفقہ فیصلہ دیا ۔آج استحکام پاکستان کے لئے بھی انہی علماء و مشائخ کے روحانی وارثان سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ملک سے دہشت گردی کے خاتمے ،امن کا پرچم لہرانے اور نفاذِ نظام مصطفےٰ ۖ کے لئے کوشاں ہیں ۔جن لوگوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی ان لوگوں کی اولادیں آج پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ عوام محب وطن او ر دشمنان وطن کا فرق محسوس کریں۔سوال :۔ تحریک ختم نبوت میں علماء و مشائخ اہلسنت کے کردار پر روشنی ڈالیں؟جواب:۔ عقیدہ ختم نبوت حامیانِ اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے ۔مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریز کی ایماء پر قصرِ ختم نبوت پر شب خون مارا تو عاشقانِ مصطفےٰ ۖ نے حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی ،امام احمد رضا خاں بریلوی ،امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری اور صاحبزادہ پیر سید فیض الحسن شاہ آلو مہار شریف رحمہم اللہ تعالیٰ کی قیادت میں عقیدۂ ختم نبوت کا دفاع کیا ۔پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے خاتمے تک اس کا پیچھا کیا ۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں تحریک ختم نبوت نے ایک بار پھر زور پکڑا تو قائد ملت اسلامیہ مولانا الشاہ احمد نورانی صدیقی ،مولانا عبد الستار خاں نیازی کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے متفقہ تحریک چلا کر قادیانیوں کو شرعاً و قانوناً آئین پاکستان میں کافر قرار دلوایا۔قادیانیوں کے خلاف سب سے پہلے کفر کا فتویٰ بھی امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ نے جاری فرمایا۔سوال :۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟جواب:۔ میںوضاحت کر دوں کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر دہشت گردی نہیں ہو رہی بلکہ غیر ملکی ایجنٹ اس کو مذہبی رنگ دے رہے ہیں۔اسلام کو دہشت گردی سے تعبیر کر کے بد نام کرنے کی مذموم سازش کی جا رہی ہے ۔اسلام امن و محبت کا دین ہے جس میں انسانیت کی فلاح و بقا کے قوانین موجود ہیں ۔موجودہ دہشت گردی غیر ملکی ایجنڈا ہے جو پاکستان کو بد نام کرنے کی سازش ہے ۔اس کے تدارک کے لئے تمام مسالک کے صاحب الرائے افراد کو ملی یکجہتی کونسل کی طرز پر ایک پلیٹ فارم بنا کر استحکام پاکستان کے لئے توانائیاں بروئے کار لانی چاہئیں۔ کیونکہ پاکستان کی سلامتی ہی ہماری سلامتی ہے ۔سوال :۔ گستاخِ رسول کی شرعی سزا کے بارے آپ کا کیا مؤقف ہے ۔؟جواب:۔ تعجب سے!گستاخ رسول کی شرعی سزا پر میرا وہی مؤقف ہے جو قرآن و سنت ،اجماعِ صحابہ ،آئمہ مجتہدین اور اسلاف کامؤقف ہے کہ گستاخِ رسول واجب القتل ہے ۔وہ ماورائے عدالت قتل کیا جائے یا قانون اُس کو تختہ دار پر لٹکا ئے ۔سوال :۔ بادامی باغ جیسے سانحات سے ہمارا دین اور ملک دونوں بدنام ہوتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔؟جواب:۔ یقینا یہ بات درست ہے کہ اقلیتوں کی بستیوں پر جب دھاوا بولا جائے گا تو ملک و ملت کی بدنامی تو ضرور ہو گی۔ مگر اقلیتوں کو بھی اپنے طرز زندگی پر غور کرنا چاہیے۔ پاکستان میں بالخصوص یہ فیشن بنتا جا رہا ہے کہ غیر مسلم بالخصوص کچھ عیسائی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کی توہین کرتے ہیں اور امریکی ویزا حاصل کر لیتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے اور اصل مجرم کو حوالہ قانون کر کے گواہان کے ذریعے عدالت سے سزا دلوانی چاہئے تاکہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے ۔ جس کا جرم ہو وہی سزا کا حقدار ہے ۔پوری بستی اور مذہب کو سزا دینا یا جذبات کی بھینٹ چڑھا دینا دانشمندی نہیں۔سوال :۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنک اور ملک کے دوسرے حصوں میں بم دھماکے آپ ان حالات کے ذمہ دار کن لوگوں کو ٹھہراتے ہیں۔؟جواب:۔ میرا مؤقف ہے کہ قتل انسانیت ناقابل معافی جرم ہے ۔۔کراچی میں اور ملک کے دوسرے حصوں میں دھماکے اور خون کی ہولی کسی صورت بھی جائز نہیں۔ان حالات کے ذمہ دار سیاستدان ،حکمران اور ملکی ایجنسیوں سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں ۔جو اپنی روایتی بے حسی سے باہر نہیں آ رہے۔خلیفہ دوم حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسے مؤقف کے حامل حکمران ہوں تو انسان تو انسان جانور کو بھی ناجائز نہ مارا جائے۔سوال:۔ پاکستان میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں ۔آپ ان الیکشنز کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟جواب:۔ پاکستان میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال پورے کئے مگر عوام کی امنگوں کو پورا نہ کیا گیا۔ اسلام حکمران کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے ۔قیصر و کسریٰ جیسی اصولِ حکمرانی کی اسلام سختی سے ممانعت کرتا ہے ۔بد قسمتی سے جب سے پاکستان بنا ہے اس پر جا گیرداروں ،وڈیروں اور سرمایہ داروں کا تسلط رہا ہے ۔غریب عوام کی ترجمانی نہ کی گئی ۔ آنے والے الیکشن میں بھی یہی کچھ ہوگا۔ چہرے بدلے جائیں گے نظام نہیں۔الیکشن تو شفاف ہوتے نظر آتے ہیں مگر الیکشن پاکستان میں غریب کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اب قوم کو بیدار ی کا ثبوت دیتے ہوئے الیکشن میں ایسے افراد کو آگے لانا چاہیے جو پاکستان اور نظامِ مصطفےٰ کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔سوال:۔ مذہبی جماعتوں کی نااتفاقی سے دوسرے لوگوں کو حکمرانی کا موقعہ ملتا ہے ۔آپ کیا کہتے ہیں۔؟جواب:۔ آپ نے درست کہا ۔ مجموعی طور پر حامیانِ اسلام کا ووٹ بنک زیادہ ہے مگر نا اتفاقی کی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتیں فائدہ اٹھاتی ہیں ۔مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم سے ایک نشان پر الیکشن لڑنا چاہیے ۔اگر وہ اسلام کا نفاذ چاہتی ہیں ۔ورنہ ساری زندگی کی انفرادی کوشش کبھی کامیابی نہیں دلا سکتی ۔ اس میں ایک اضافہ اور کر لیں کہ اگر ایک مسلک کی بھی تمام مذہبی جماعتیں متحد ہو جائیں پھربھی اسلامی انقلاب آسکتا ہے۔سوال:۔ پاکستان میں نظام تعلیم پر تجربات کو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟جواب:۔ پاکستان میں نظام تعلیم و نصاب پر تجربات قوم کو مشکلات سے دو چار کر رہے ہیں۔ کبھی انگلش میڈیم اور کبھی اردو میڈیم ۔حالانکہ جن قوموں نے ترقی کی ہے اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی کی ہے ۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم غیر ملکی آقائوں کے اشاروں پر نصاب تعلیم میں پیچیدگیاں اور تبدیلیاں آئے روز پیدا کرتے جا رہے ہیں ۔موجودہ نصاب تعلیم اغیار سے تو ہم آہنگی کر سکتا ہے مگر پاکستانیت اور اسلام سے ہم آہنگی مشکل بنا تا جا رہا ہے ۔ہمیں قرآن و سنت سے راہنمائی لے کر نصاب تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہئے مگر غالب اسلام کو ہی رکھنا چاہئے تاکہ قوم میں پھر سے امام غزالی ،بو علی سینا اور ابن خلدون پیدا ہو سکیں۔سوال:۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔کیا اس کو بچانے کے لئے جدو جہد کرنا دہشت گردی ہے۔؟جواب:۔ آپ نے بہت اچھا سوال کیا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔کشمیر اور پاکستان مذہبی ،روحانی ،اخلاقی ، تہذیبی اور تقافتی اعتبار سے یکجان نظر آتے ہیں ۔ اولیاء اللہ نے اس دھرتی کو ذکر اللہ کے لئے منتخب فرمایا۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے ۔ پاکستانی حکمران اس دشمن کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوشش میں ہیں ۔جس وجہ سے جدو جہد آزادیٔ کشمیر کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔مگر سنجیدہ فکر حضرات اس جدو جہد کو جائز ہی نہیں بلکہ عبادت و ثواب سمجھتے ہیں ۔اپنا جائز حق لینے کیلئے تلوار و اسلحہ اٹھانا اسلام کے عین مطابق ہے ۔بھارت نے کشمیر پلیٹ میں رکھ کر نہیں دینا بلکہ یہ خطہ جہاد سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔سوال:۔ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ۔کیا یہ دہشت گردی کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔؟جواب:۔ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ۔مدارس دینیہ کو بدنام کرنے کے لئے ان پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے ۔چند مدارس کو چھوڑ کر ملک میںتمام مدارس بہترین این جی اوز کا کردار ادا کر رہے ہیں جن میں لاکھوں طلباء مفت تعلیم و خوراک حاصل کر رہے ہیں۔ ان مدارس سے محب وطن اور با کردار افراد پیدا ہو رہے ہیں۔مگر سیاستدانوں نے ہر دور میں مدارس کو نظر انداز کیا۔سوال:۔ آپ کے مضامین قومی اخبارات کی زینت بنتے ہیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان مضامین کی اشاعت سے لوگوں کی دینی راہنمائی ہو رہی ہے ۔؟جواب:۔ یقینا میرے مضامین ملک کے تمام قومی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں ۔میں اپنے کسی مضمون کا معاوضہ نہیں لیتا بلکہ تبلیغ دین کی نیت سے مضامین لکھتا ہوں جو اپنے معیار اور بہتر کوالٹی کی بنا پر شائع ہوتے ہیں ۔جہاں تک لوگوں کی دینی راہنمائی کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں یہ دور میڈیا اور انٹر نیٹ کا دور ہے ۔جو بات آپ سالوں بعد کسی جگہ پہنچاتے تھے آج میڈیا کے ذریعے چند منٹوں میں پہنچا ئی جا سکتی ہے ۔ اخبارات تو ہر جگہ جاتے ہیں پھر لوگوں کا ذہن ہے کہ اخبار میں شائع ہونے والا مضمون مسلکی اختلافات سے پاک اور تحقیق کا مجموعہ ہوتا ہے ۔لہٰذا ان سے بلا تفریق مسلک لوگ استفادہ کرتے ہیں ۔ کئی علمائے کرام تو جمعہ کے مذہبی ایڈیشن کا مطالعہ کر کے ہی جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں جو خوش آئند بات ہے ۔بس اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ سارا سلسلہ جاری ہے ۔سوال:۔ اتحاد امت کیلئے آپ کی کیا رائے ہے اور یہ کس طرح ممکن ہے ۔؟ جواب :۔ اتحاد امت کا نقطہ صرف ایک ہی ہے کہ تمام مسالکِ اسلام مشترکات پر جمع ہو جائیں اور جہاں اختلاف کی صورت ہو تو درمیانہ راستہ اختیار کیا جائے ۔اتحاد امت ہی غلبۂ اسلام کی نوید ہے ۔سوال:۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت خانقاہوں سے وابستہ ہے ۔ موجودہ دورخانقاہ اور مشائخ عظام سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔؟جواب:۔ یقینا پاکستان سمیت دنیا میں عوام کی اکثریت خانقاہوں سے عقیدت رکھتی ہے ۔خانقاہیں دکھی انسانیت کی پناہ گاہیں ہیں۔عوام روحانی سکون اور مذہبی راہنمائی کے لئے خانقاہوں سے رجوع کرتے ہیں ۔موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق مشائخ عظام کا فریضہ ہے کہ وہ خانقاہوں کو شریعت و علم سے زینت دیں ۔سجادگان روایتی اندازِ پیری سے نکل کر شرعی تقاضوں کے مطابق عوام کی اصلاح و فلاح کا طریقہ اپنائیں ۔خانقاہوں پر لائبریریاں اور مدارس و سکولز بنائے جائیں ۔ذکر و مراقبہ کی طرف عوام کا رجحان بڑھایا جائے تاکہ پھر سے ان خانقاہوں پر عوام کو وہی سکون میسر آئے جو بابا فرید اور میاں محمد بخش رحمة اللہ علیہما کے دور میں آتا تھا۔سوال :۔ پیر کامل کی کیا شرائط ہیں۔؟جواب:۔ پیر کامل کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ وہ شریعت و سنت کا پابند ہو۔ بے عمل اور شریعت کا تارک کبھی ولی نہیں بن سکتا۔ پیری مریدی نہ کاروبار ہے اور نہ حکمرانی ۔بلکہ خدمتِ انسانیت سے تعبیر ہے ۔سوال:۔ آئین پاکستان میں قادیانی کافر ہیں ۔کیا ملکی دہشت گردی میں قادیانی ہاتھ بھی ملوث ہے۔؟جواب:۔ قادیانی اسلام اور پاکستان کے ازلی ابدی دشمن ہیں ۔قادیانیوں نے عقیدۂ ختم نبوت پر شب خون مار کر ملتِ اسلامیہ میں رخنہ ڈالا ہے ۔پاکستان اور اسلام کے خلاف کوئی سازش کو قادیانی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ قادیانی چاہتے ہیں کہ پاکستان (خدا نہ کرے) ٹوٹ جائے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ قادیانیوں کی مذموم حرکتوں پر کڑی نظر رکھیں اور ہر سطح پر ان کی سرگرمیوں پر پابندی ضروری ہے ۔پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے یقینا قادیانی لابی کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے ۔سوال:۔ ملک و ملت کے استحکام کے لئے محراب و ممبر کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔؟جواب:۔ معاشرۂ اسلامی میں محراب و ممبر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ملک و ملت کے استحکام کیلئے محراب و ممبر سے امن و محبت ،اتحاد و یگانگت اور فلاحِ انسانیت کی آواز بلند ہو تو یقینا اچھے ثمرات مرتب ہوں گے ۔ ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لئے بھی مسجد سے رجوع کرنا چاہیئے ۔سیاست بھی مسجد کے تابع ہونی چاہئے۔ مسجد کے امام و خطیب کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ مشترکات کی طرف ہی رجحان رکھے ۔ کم علم واعظ ہی اختلافی مسائل کو ہوا دے کر قوم کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔سوال:۔ غازی ممتاز حسین قادری کے عمل کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟جواب:۔ غازی ممتاز حسین قادری پوری مسلم قوم کا ہیرو ہے ۔اس کا فعل کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کی عکاسی ہے ۔اُس نے دنیاوی ڈیوٹی پر مذہبی ڈیوٹی کو فوقیت دی ہے ۔حکمرانوں کو سنت نبوی ۖ ادا کرتے ہوئے غازی ممتاز قادری کو با عزت رہا کر دینا چاہئے۔سوال :۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے نعرہ” سیاست نہیں ریاست بچائو” پر آپ کا کیا خیال ہے اور یہ مؤقف کہاں تک کامیاب رہا ؟جواب:۔ ڈاکٹر طاہر القادری ایک مدبر عالم دین ہیں ۔مگر کئی بار سیاست سے توبہ کر کے دوبارہ توبہ توڑ ڈالتے ہیں۔انہیں شاید امیر المؤمنین بننے کا کافی شوق ہے ۔علمی کام اور تحقیقی و روحانی کام میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر سیاسی حوالے سے ناکام شخص ہیں۔ انہوں نے سیاست نہیں ریاست بچائو کے نعرے پر عوام کے جذبات کو ہوا دی اور اسلام آباد تک پہنچ گئے مگر جن کو یزیدی کہہ کر قابل نفرت کہہ رہے تھے انہی سے ناکام قسم کے مذاکرات کر کے خالی ہاتھ گھر لوٹ آئے ۔اتنا سرمایہ اور قوم کا وقت ضائع کر کے انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ پاکستان میں تبدیلی ووٹ سے لائی جا سکتی ہے ۔تبدیلی کے خواہاں ڈاکٹر طاہر القادری نے اب آنے والے الیکشن کا بائیکاٹ بھی کر دیا ہے اور دھرنے دینے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔اُن کی منطق وہی جانتے ہیں۔سوال :۔ ملکی امن میں امن کمیٹیوں کا کیا کردار ہے۔؟جواب:۔ پاکستان میں قیام امن کیلئے بین المذاہب و بین المسالک امن کمیٹیاں یقینا اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔مگر انتظامیہ ان سے جز وقت فوائد حاصل کرتی ہے ۔حالانکہ ان کمیٹیوں کا کردار کل وقتی ہونا چاہیے تاکہ جس سطح پر اختلاف ہو اُسی سطح پر حل کر دیا جائے ۔سوال :۔ سلسلہ اویسیہ کی اشاعت کے لئے اور فروغِ عشقِ رسول ۖ کے لئے آپ کیا کر رہے ہیں۔؟جواب:۔ اس سلسلہ میں تحریک اویسیہ پاکستان کے ذریعے مختلف ماہانہ ،سالانہ کانفرنسز منعقد کی جاتی ہیں۔ماہنامہ تاجدا ریمن نارووال سے ہر ماہ شائع کیا جا تا ہے ۔بین المذاہب اور بین المسالک سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں ۔28نومبرکو مرکز اویسیاں نارووال میں مرکزی اجتماع ہوتا ہے اور دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف ضلع گوجرانوالہ پر سال میں دو مرتبہ 15رجب اور 9صفر کو دینی و روحانی اجتماعات ہوتے ہیں ۔فلاح انسانیت کے لئے خواجہ اویس قرنی فائونڈیشن کا م کرتی ہے ۔سوال:۔ آپ کی مصروفیات اور اتنا دینی کام کیسے ایڈجسٹ کرتے ہیں۔؟جواب:۔ بس اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فیضان نبوی ۖ کا صدقہ ہی وقت کو ایڈجسٹ کیا ہے ۔میرے پیر و مرشد بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمة اللہ علیہ نے میرے لئے بہت دعائیں فرمائیں ۔کوشش کرتا ہوں زیادہ وقت دینی کاموں میں ہی گزرے ۔سوال :۔ آپ قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔؟جواب :۔ میں قوم کو یہ پیغام دوں گا کہ یہ زندگی عارضی ہے ۔دنیا سے سب نے جانا ہے ۔مگر زندہ ایسے رہو کہ تمہاری خوش اخلاقی کی خوشبو سے پورا معاشرہ معطر رہے اور جب تم دنیا سے جائو تو ایک جہان مغموم ہو۔ اپنے جسم پر اپنا حق نہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ۖ کا حق سمجھو۔ والدین کا احترام، عبادت و ذکر کی کثرت ، عشقِ رسول ۖ کی جو لانیوں کے لئے کثرت درود شریف اور اتحاد امت کے لئے طریقۂ صوفیاء اپنائو ۔پاکستان ہمارا ملک ہے اور اسلام کا قلعہ بھی ۔اس سے محبت کرو۔ کوشش کر کے اس ملک کو کچھ اچھا دو۔ نفرتوں کو ختم کر دو محبتوں کے چراغ روشن کرو اور غلبۂ اسلام کیلئے اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنی ذات پر نافذ کرو۔