چوھدری افتخار
ویسے یہ بات کس قدر عجیب ہے اور تاریخ میں لکھی جائے گی کہ ایک شخص سے کہا گیا تھا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے اور اس کا جواب یہ تھا کہ میری بیوی وفا کی ایک علامت ہے میں دنیاوی قیدو کے کہنے پر اس سے الگ نہیں ہو سکتا
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال ایک ایسی داستان بن چکی ہے جہاں جمہوریت کے اصول، اخلاقیات اور انسانی حقوق کی پامالی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ حالیہ واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ذاتی زندگی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا نہ صرف عام ہو چکا ہے بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک عورت کی نجی زندگی کو عوامی سطح پر موضوعِ بحث بنانا کسی بھی معاشرے کے لیے شرمناک عمل ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک خاتون پر عدت کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے، جس سے نہ صرف اس کی شخصیت کو نقصان پہنچا بلکہ اس کی ازدواجی زندگی کو بھی تماشہ بنا دیا گیا۔ عدت جیسے حساس مذہبی اور نجی معاملے کو سیاسی جلسوں اور میڈیا پر اس انداز میں زیرِ بحث لانا معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ معاشرے میں ایسی گفتگو گھروں، بازاروں اور میڈیا پر عام ہو گئی، جہاں لوگوں نے ایک دوسرے سے یہ سوال کیا کہ “کیا عدت پوری ہوئی تھی یا نہیں؟” یہ نہ صرف ایک عورت کی توہین ہے بلکہ اس کے خاندان اور معاشرتی رشتوں کو بھی مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
اس سے بڑھ کر، فیصل واوڈا کا یہ کہنا کہ عمران خان اپنی جان بچانے کے لیے اپنی بیوی کو طلاق دے دیں، ایک انتہائی گھناؤنا اور افسوسناک بیان ہے۔ یہ نہ صرف سیاسی اخلاقیات کی تنزلی کی علامت ہے بلکہ ایک عورت کی عزت، حقوق اور ازدواجی زندگی پر کھلا حملہ ہے۔
تصور کریں کہ وہ عورت جسے پہلے عدت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا، اب اس کے کردار کو مزید تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شاید وہ خود اپنے دل میں یہ سوچے کہ اگر میرے خاوند کی جان بچانے کا واحد راستہ یہی ہے، تو میں یہ قربانی دینے کو تیار ہوں۔ یہ کیفیت پنجابی کے اس شعر میں خوبصورت انداز میں بیان کی گئی ہے:
“میرے یار نوں مندانہ بولی،
میری پاواں جان کٹ لے۔”
(میرے محبوب کو برا نہ کہو، میری جان لے لو لیکن اس کی بے عزتی نہ کرو۔)
پاکستان کی سیاست اس وقت ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں جمہوری اقدار اور اصولوں کی پامالی ایک معمول بن چکی ہے۔ عارف علوی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات، جہاں مبینہ طور پر انہیں بلیک میل کرنے کے لیے ویڈیوز دکھائی گئیں، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کچھ عناصر ذاتی زندگی کو سیاسی دباؤ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیا ریاستی اداروں کا یہ کردار ہونا چاہیے کہ وہ افراد کی ذاتی زندگی کو یرغمال بنائیں؟
کیا فوج یا دیگر ریاستی ادارے ویڈیوز بنانے اور ان کا استعمال کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں؟ کیا ہم دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہماری جمہوریت ذاتی زندگی کے معاملات کو عوامی تماشے میں بدل کر چلتی ہے؟ یہ سوالات نہ صرف ہمارے ملک کی سیاست بلکہ معاشرتی اقدار کے مستقبل کے لیے بھی اہم ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جمہوریت میں ذاتی زندگی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا کبھی قابلِ قبول نہیں رہا۔ سلطنتِ عثمانیہ یا دیگر بادشاہتوں میں، جہاں طاقت مطلق تھی، وہاں بھی حکمرانوں نے ذاتی اور ریاستی امور کو علیحدہ رکھا۔ لیکن آج پاکستان میں، جمہوریت کے نام پر ذاتی زندگی کو سیاست کا میدان بنا دینا ایک نیا اور خطرناک رجحان ہے۔
اسلام میں عورت کے وقار اور حقوق کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے۔ عدت، طلاق اور ازدواجی زندگی کے معاملات شریعت کے دائرہ کار میں آتے ہیں، نہ کہ سیاسی جلسوں اور بیان بازی کے۔ لیکن جب یہ معاملات سیاسی سودے بازی کا حصہ بن جائیں، تو یہ نہ صرف مذہبی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
پاکستان میں عوام، سیاستدانوں اور اداروں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جہاں ذاتی زندگی، جمہوریت اور اخلاقیات کی بنیاد پر چلنے کے بجائے ذاتی مفادات اور سیاسی چالبازیوں کی بھینٹ چڑھ جائے؟ فیصل واوڈا جیسے بیانات اور طرزِ عمل کی کھل کر مذمت ضروری ہے۔
عورت کا وقار، جمہوریت کے اصول، اور انسانی حقوق کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ سیاست اور اقتدار کی جنگ انسانی عزت، وقار اور حقوق کی قیمت پر نہیں لڑی جا سکتی۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی اقدار کو مضبوط کریں اور ایسے رجحانات کو ختم کریں جو ہماری جمہوریت اور معاشرتی اخلاقیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ھوتا ھے کہ ملک پر مسلط مافیا کس قدر گھٹیا اور گراوٹ کا شکار ہے یہ انسانیت کے روپ میں شیطان منافق لوگ ہیں۔کون سی برائی جو ان میں نہیں ہے؟ یہ تاریخ کے گھٹیا ترین کردار ھیں۔