عیدالاضحیٰ ۔۔۔۔خواہشاتِ نفسانی کی قربانی کا دن
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ۔۔۔۔۔نارووال
اسلام دین فطرت اور ماننے و الوں کیلئے پیغام محبت والفت ہے ۔اس کے اصول و ضوابط اور قوانین و اطوار ایسے پسندیدہ وہمہ جہت ہیں جو بیگانوں کو یگانہ اور نا آشنا ئوں کو آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے کر دیتا ہے جیسے دوجسم یک جان ہوں ۔احکامات اسلام پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کا منشا یہی ہے کہ بنی آدم ایک ووسرے سے لاتعلق نہ رہیں ۔یہ اپنی ہی ذات میں گم نہ ہوں ۔بلکہ افراد مختلفہ ملت واحدہ بن کر کلمۂ واحدہ پر جمع ہو جائیں تاکہ ایک خدا، ایک رسول ،ایک ہی قرآن ،ایک ہی کعبہ پر ایمان رکھنے والے ظاہر بین نگاہوں میں بھی ایک ہی سطح پر متحد و متفق اور ایک دوسرے کے بہی خواں نظر آئیں اور دنیا والے اس اتحاد معنوی میں کوئی اختلاف ظاہری محسوس نہ کر سکیں ۔اسلام میں اہل محلہ میں محبت و اتحاد پیدا کرنے اور اسے ان میں قائم دائم رکھنے کیلئے پنچگانہ نمازوں کے وقت، اہل محلہ کی مسجد میں جمع ہو کر نماز ادا کرنا واجب کیا گیا ہے ۔اہل شہر میں محبت و تعلقات بڑھانے کیلئے ہفتہ میں ایک بار ان کا جامع مسجد میں اکٹھا ہو کر نماز جمعہ ادا کرنا ضروری و لازمی ٹھہرایا گیا ہے تو ضروری تھا کہ شہری باشندوں بلکہ قرب و جوار کے رہنے والوں میں تعارف و تعلق اور محبت و شناسائی قائم کرنے اور مستحکم رکھنے کیلئے بھی کوئی اہتمام کیا جائے ۔جبکہ عالم اسلام میں رابطۂ دین کو مستحکم و مضبوط کرنے کیلئے مختلف ملکوں کے اشخاص کو دین واحد کی وحدت میں شامل ہونے کیلئے عمر بھر میں ایک بار ان تمام مسلمانوں پر جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتے ہیں حج کعبة اللہ فرض کیا گیا ہے ۔تو اہل شہر اور دیہات قرب و جوار میں اسی شناسائی اور مودت و محبت اور تعلق کو پیدا کرنے کیلئے سال میں دو بار عیدین کی نماز کو سنن ھدیٰ بلکہ لازم قرار دیا ہے ۔ہر دو موقعوں پر دیہات والے شہروں کی طرف آتے ہیں اور شہر والے شہر سے باہر نکل کر ان سے ملاقات کرتے اور سب مل جل کر عبادت الہٰی ادا کرتے ہیں۔ ابو دائود شریف میں روایت ہے حضور نبی اکرم ۖ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن (مہرگان۔نیروز) خوشی کرتے تھے ۔آپ ۖنے فرمایا یہ کیا دن ہیں ؟ لوگوں نے عرض کی ”جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیئے ۔عید الفطر ،عید الضحٰی اسلام نے ان ایام میں تجمل و زیب و زینت اور رکھ رکھائو کو تو باقی رکھا ۔البتہ زمانۂ جاہلیت کی رسم و رواج ۔لہوو لعب اور کھیل کود میں وقت کے ضیاع کو ختم کر دیا اور جشن کے ان ایام کو خدائے بزرگ و برتر کی اجتماعی عبادت کے ایام بنا دیا تاکہ ان کا یہ تجمل و اجتماع یاد الہٰی سے غفلت میں بسر نہ ہو۔ایک طرف اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے دنیاوی فرحت و انبساط کے اہتمام کی اجازت دی تو دوسری طرف ان کیلئے بندگی کے دورازے کھول دئیے تاکہ یاد الٰہی سے بھی غافل نہ رہیں اور اسلامی برادری سے شناسائی کے مواقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ غرض اسلامی تہواربھی لہو و لعب اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے نہیں بلکہ دوسری تمام اقوام سے اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ وہ فرحت و نشاط کا ذریعہ بھی ہیں اور وحدت و اجتماعات اور ایثار قربانی و اجتماعی عبادتوں کا وسیلہ بھی ۔عید کی نماز مدینہ منورہ میں آکر قائم ہوئی لیکن جس سال آپ تشریف لائے اس سال نہیں بلکہ 2ھ میں اس کا قیام عمل میں آیا ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ عید کی نماز رمضان المبارک کے روزوں کے تابع ہے اور رمضان شریف کے روزے ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئے اور عید کہتے ہیں اس خوشی کو جو بار بار لوٹ کر آئے۔ہم عید کیوں مناتے ہیں؟معزز قارئین!جب کوئی خطہ یا علاقہ کسی ظالم حکومت کے تسلط سے آزاد ہوتا ہے تو جس دن آزادی کی نعمت ملتی ہے اس ملک کے لوگ اس تاریخ کو ہر سال یادگار کے طور پر جشن مناتے ہیں یا جب کوئی طالب علم امتحان میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو جشن اور خوشی کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ماہ رمضان المبارک کی رحمتوںاور برکتوں کا تو جواب نہیں یہ وہ صاحب عظمت مہینہ ہے جس میںبنی نوع انسان کی فلاح و کامیابی اور اصلاح و بہتری کیلئے ایک ”نورانی دستور”یعنی قرآن حکیم نازل ہوا ۔یہی وہ ماہ مقدس ہے جس میں مسلمان کی حرارت ایمانی کا امتحان لیا جاتا ہے ۔ پس زندگی کی کامیابی کیلئے بہترین دستور العمل حاصل کرکے اور ایک ماہ کے سخت امتحان میں کامیاب ہو کر ایک مسلمان کا خوش ہونا فطری عمل ہے اسی خوشی کا نام”عید ” ہے۔انعام کی رات:(1)حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ۖ نے ارشاد فرمایا:” جو شخص پانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔ ذی الحجہ شریف کی 10-9-8ویں ،شعبان المعظم کی 15ویں رات اور عیدالفطر کی رات۔”(2) سرور دو عالم ۖ کا فرمان مبارک ہے:” جس نے عیدین کی رات(یعنی شب عید الفطر اور شب عید الضحٰے طلب ثواب کیلئے) قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا۔جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔(ابن ماجہ) یوم عید شیطان کی مایوسی:حضرت سیدنا وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یوم عید آتا ہے ۔ شیطان چیخ چیخ کر روتا ہے ۔اس کی ناکامی اور رونا دیکھ کر تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہو کر سوال کرتے ہیں کہ تجھے کس چیز نے غمناک اور اداس کر دیا؟ وہ کہتا ہے ہائے افسوس !اللہ تعالیٰ نے آج کے دن اُمت محمد ۖ کی بخشش فرمادی لہٰذا اب تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کر دو۔(مکاشفة القلوب) یوم عید اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ:معززقارئین! عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لئے حقیقت میں تو عید اس کی ہے جو عذاب الہٰی سے ڈرگیا ۔ہمارے اسلاف و بزرگان دین نے عید کی خوشی عبادات کی قبولیت کیساتھ مشروط فرمادی ۔جیسا کہ سیدنا فاروق ا عظم رضی اللہ عنہ کے دو ر خلافت میں لوگ عید کے روز کاشانہ خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیر المؤمنین دروازہ بند کر کے زارو قطار رو رہے ہیں لوگ حیرت زدہ ہو کر سوال کرتے ہیں کہ یا امیر المؤمنین ! آج تو عید کا دن ہے اس دن خوشی و شادمانی ہونی چاہیے اور آپ خوشی کی جگہ رو رہے ہیں؟سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ھذا یوم العید وھذا یوم الوعید۔ اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور یہ دن وعید کا بھی ۔آج جس کے نماز روزے اور عبادات رمضان قبول ہو گئیں بلا شبہ اس کیلئے آج عیدکا دن ہے اور جس کی عبادات رمضان مردود ہو گئیں اس کیلئے آج وعید کا دن ہے اور میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا یا رد کر دیا گیا ہوں۔معزز قارئین! سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ سے ہیں مگر خوف الہٰی سے رو رہے ہیں اور ایک ہم ہیں شکر کی بجائے خرافات میں مبتلا ہیں۔حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور یوم عید: اللہ تعالیٰ کے مقبول و محبوب بندوں کی ادائیں ہمارے لئے موجب صددرس عبرت ہیں ۔سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا مقام ولیوں میں بڑا بلند و بالا ہے مگر ہمارے لئے آپ کیا چیز چھوڑ گئے ۔آپ فرماتے ہیں :لوگ کہتے ہیں کل عید ہے! کل عید ہے ! اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس دن اس دنیا سے اپنا ایمان محفوظ لے کر گیا میرے لئے وہی دن عید کا دن ہو گا۔غریبوں کے والی پہ لاکھوں سلام:یوم عید جہاں خوشی اور اپنے احتساب کی تعلیمات ہمیں سنت رسولۖ اور عمل سلف صالحین سے ملتی ہیں وہاں سرکار مدینہ ۖ نے اس دن غرباء و مساکین کا خیال رکھنے کا بھی ہمیں حکم دیا ہے ۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفےٰ ۖ نے عید قربان کے دن ہمیں خطبہ دیا آپ ۖ نے فرمایا سب سے پہلے ہمیں آج کے دن نماز پڑھنی چاہیے ۔پھر لوٹ کر قربانی کرنی چاہیے ۔جس نے ایسا کیا اس نے سنت پر عمل کیا اور جس نے ہماری نماز پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر لیا تو وہ قربانی گوشت کی بکری ہے جس کو اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی سے ذبح کر لیا ہے ۔قربانی نہیں ۔(مسلم شریف) قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے ۔یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیونکہ قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر کے در حقیقت اپنے جذبہ عبودیت کا اظہار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بڑا ہی پسند ہے کیونکہ توحید باری تعالیٰ کا سب سے بڑا تقاضہ یہی ہے کہ انسان کی محبت کا محور صرف ذات باری تعالیٰ ہو اس کی جان نثاری ،اس کی عبادت غرض کہ اس کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اسی طرح انسان کے مال و جان کی قربانی بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو ۔لیکن انسان اپنے ابتدائی دور ہی میں زندگی کے اس مقصد سے دور ہو گیا ۔شیطان نے صراطِ مستقیم سے اسے بھٹکا دیا اس کی سوچ کو محسوسات کا گرویدہ کر دیا اور اسکے دل میں یہ وسوسہ ڈال دیا کہ توبن دیکھے خدا کو کیوں مانتا ہے؟ چونکہ حضرت انسان خدائے واحد کی پوجا کو چھوڑ کر مظاہر فطرت اور اپنے ہاتھ سے تراشیدہ بتوں کے آگے جھکنے لگا ۔اپنی محبت ،عجز و نیاز ،عقیدت اور ایثار و قربانی انہی بتوں کے لئے مخصوص کر بیٹھا ۔ آخر اللہ تعالیٰ کو اپنے تخلیق کر دہ انسان پر رحم آیا او ر اس نے مختلف اوقات میں اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو مبعوث فرمایا کہ وہ اہل دنیا کو راہ حق کا درس دیںاور اسی سلسلہ کی آخری ہستی حضور انور سید دو عالم حضرت محمد ۖ کے ذریعے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ تمہاری ہر طرح کی عبادت اور قربانی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے تاکہ انسان اللہ کے حضور سر بسجود رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحظہ قربانی کا وجود پایا جاتا ہے یعنی نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے ۔زکوٰة انسان کے مال وزر کی قربانی ہے ۔حج بیت اللہ بھی انسان کی ہمت ،مال و زر کی قربانی ہے غرض کہ حقوق اللہ اورحقوق العباد میں بہت سے تقاضے ایسے ہیںجو انسانی قربانی کے مترادف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو لاکھوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت عید قربان بھی ہے ۔مسلمان اس عید کے دن تین ایام میں مخصوص جانوروں کو ذبح کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں لیکن جب تک ہمیں صحیح طور پر قربانی کے فضائل و مسائل کا علم نہ ہو گا اس وقت تک اطمینانِ قلبی کا حصول ممکن نہیں ۔اسی عظیم مقصد کے تحت درج ذیل سطور ضبط تحریر میں لائی جا رہی ہیں۔قرآن اور قربانی:انسان کی طرح قربانی کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے چنانچہ قرآن مجید کی مختلف آیات مقدسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی امتِ محمدی ۖ سے قبل امتوں پر بھی لازم تھی ۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا تذکرہ قرآن حکیم میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ترجمہ آیت نمبر1:” اور ہر امت کے لئے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں اسکے دیئے ہوئے بے زبان چوپائیوں پر ” یعنی مطلب یہ ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے لیکر سابقہ تمام امتوں میں سے ہر امت کے لئے قربانی کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی قربانیوں پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیں۔ترجمہ آیت نمبر 2:”اللہ تعالیٰ کو ہر گز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ۔ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک بار یاب ہوتی ہے ۔” اس آیت مقدسہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اللہ کے لئے تقوی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کسی جانور کے خون یا گوشت کو قبول نہیں فرماتا مزید بر آں یہ تنبیہ ہے کہ جب کسی عمل کی نیت نہ صحیح ہو تو اس عمل کا کوئی فائد نہیں ہے ۔ترجمہ آیت نمبر3: ”تو تم اپنے رب کے لئے نماز اور قربانی کرو۔” مفسر شہیرمفتی احمد یار خان نعیمی رحمة اللہ علیہ میں لکھتے ہیں کہ قربانی اسلامی شعار ہے اس کے بدلہ میں قیمت وغیرہ نہیں دی جا سکتی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نحر سے مراد قربانی کے اونٹ اور دوسرے جانوروں کو اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا ہے ۔حدیث اور قربانی حدیث نمبر1:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ دس برس تک مدینہ منورہ میں رہے اور برابر قربانی کرتے رہے ۔(جامع ترمذی جلد نمبر1صفحہ نمبر277)حدیث نمبر2:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عید قربان کے دن حضور اقدس ۖ مدینہ منورہ میں اونٹ یا کسی دوسرے جانور کی قربانی کرتے ۔(سنن النسائی صفحہ202)حدیث نمبر3:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور اکرم ۖ نے مدینہ منورہ میں گندمی رنگ کے دو مینڈھے ذبح کئے ۔(صحیح بخاری جلد نمبر2صفحہ835)حدیث نمبر4:حضور اکرم ۖ نے فرمایا کہ ہر صاحب نصاب پر سال بھر میں ایک قربانی واجب ہے ۔(ابن ماجہ صفحہ226)فضائل قربانی:دین اسلام میں قربانی کی بے پناہ فضیلت ہے کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کریم کی بارگاہ میں بہت زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی بنا پر قربانی کی ضرورت و اہمیت کتاب و سنت میں بڑی شد و مد کے ساتھ بیان کی گئی ہے کیونکہ اسلامی معاشرے میں تعمیری طور پر قربانی کے بے شمار فوائد ہیں ۔قربانی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ انسانی افکار میں جذبہ ادائے اطاعت پیدا کیا جائے اسی عظیم جذبہ کے تحت انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے جانور کو قربان کرے جس سے اس میں حکم خدا وندی پر عمل پیر ا رہنے کی قوت برقرار رہے ۔ الغرض قربانی کے ظاہر فعل سے جو فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔حدیث نمبر5:حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ۔کہ نبی اکرم ۖ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بیان فرمایا ”اے فاطمہ ! کھڑی ہو ! اور اپنی قربانی پر حاضر ہو بیشک قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کیساتھ لایا جائے گا اور اسے ستر گنا بڑھا کر تمہارے میزان میں وزن کیا جائے گا حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما نے کہا :یا رسول اللہ ۖ کیا یہ اجر اٰل محمد ۖ کیساتھ مخصوص ہے کیونکہ وہ اس خیر کے اہل ہیں یا آل محمد اور تمام لوگوں کے لئے ؟ آپ ۖ نے فرمایا بلکہ یہ اجر آل محمد ۖ اور تمام لوگوں کے لئے ہے۔(کتب احادیث)قربانی نہ کرنے پر وعید :اگر کوئی قربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کرے تو وہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا نافرمان ہے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔فصل لربک وانحر۔ترجمہ ”اور تم رب کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔” نیز رسول اللہ ۖ نے فرمایا جس شخص نے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کی وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔(ابن ماجہ جلد2صفحہ232)قربانی کا حکم :حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور تمام احناف کے نزدیک قربانی واجب ہے۔ جس کا ثبوت مندرجہ ذیل حدیث مبارک سے ہو رہا ہے۔روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا قربانی واجب ہے ؟ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے قربانی کی اور مسلمانوں نے قربانی کی اس نے پھر سوال کیا تو انہوں نے کہا کیا تم میں عقل ہے؟ رسول اللہ ۖ نے قربانی کی اور مسلمانوں نے قربانی کی ۔(جامع الترمذی)قربانی سنت ابراہیمی:حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ۖ یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ ۖ نے فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔آپ ۖ سے پوچھا گیا ہمارے لئے ان میں کیا اجر ہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے آپ ۖ سے پوچھا گیا اور خون کے بدلہ میں ؟آپ ۖ نے فرمایا ہر خون کے قطرے کے بدلہ میں ایک نیکی ہے ۔(ابن ماجہ جلد نمبردو م صفحہ نمبر233)نماز عید سے قبل مسنون اعمال: (1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ تاجدار مدینہ ۖ عید الفطر کے روز کچھ کھا کر نماز کیلئے تشریف لے جاتے تھے۔اور عید الضحٰے کے روز نہیں کھاتے تھے جب تک نماز سے فارغ نہ ہو جاتے ۔ (ترمذی ،ابن ماجہ)(2) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ۖ عید الفطر کے دن چند کھجوریں تناول فرمالیتے اور وہ طاق ہوتیں پھر نماز کیلئے تشریف لے جاتے۔(بخاری شریف)(3) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ عید کو (نمازعیدکیلئے) ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔(ترمذی شریف) مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ فقہ کی کتابوں میں فقہائے کرام نے یوم عید یہ اعمال بھی سنت ذکر کئے ہیں:۔(1)حجامت بنوانا(2)ناخن ترشوانا(3)غسل کرنا(4)مسواک کرنا(5)اچھے کپڑے پہننا( 6) خوشبو لگانا (7)انگوٹھی پہننا (8) نماز فجر مسجد محلہ میں پڑھنا (9)نماز عید عید گاہ میں ادا کرنا(10)عید گاہ پیدل جانا (11)خوشی ظاہر کرنا(12)کثرت سے صدقہ کرنا(13)آپس میں مبارک باد دینا (14)بعد نماز عید مصافحہ کرنا اور معانقہ یعنی بغلگیرہوناوغیرہ۔عید کا تحفہ :نبی مکرم نور مجسم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ:” جو شخص عید کے دن 300مرتبہ سبحان اللّٰہ وبحمدہپڑھے اور فوت شدہ مسلمانوں کی ارواح کو اس کا ثواب ہدیہ کرے تو ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں اور جب پڑھنے والا خود فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ایک ہزار انوار داخل فرماتے ہیں ۔”(مکاشفة القلوب) آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حقیقی عید سعید کی خوشیاں نصیب فرمائے۔آمین!