عابدہ رحمانی
وقت بدلا حلات بدلے ملک بدلے تو عید کے طور طریقے بھی بدل گئے ایک شہر کے ایک گھر میں ایک زمانے میں عید کی ساری ٹینشن ساری پریشانی ایک ہی خاتون کو ہوا کرتی تھی چاہے وہ عیدالفطرہو یا عیدالالضحی کا موقع ، بس یہی فکر کہ کہیں پر کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوکسی
قسم کی کمی نہ رہ جائے ہفتوں پہلے تیاریاں شروع ہو جاتیں ، سب کیلئے کپڑے نئے تیار ، سوتی کپڑوں میں کلف لگی ہوئی ہو، استری کئے ہوئے ، آزاربند ڈلے ہوئے، جوتے ، چپل نئے ہوں تو بہتر، گھر میں کوئی لڑکی تو تھی نہیں اسلئے لڑکیوں والے تکلفات تو نہیں تھے لیکن لڑکوں کے اپنے مطالبے اور شوق– گھر صاف ستھرا چھم چھم کرتا ہوا عید پر پکوان کی تیاریاں، میٹھا بھی ، نمکین بھی ہو ، دو تین اقسام کی سوئیاں، مٹھائیاں، دہی بڑے ،کباب، چٹنیاں– بقر عید پر یہ مصروفئیت اور تیاری قربانی کے جانور کےآنے سے اور بڑھ جاتی -قربانی کا جانور منڈی سے لانا اگرچہ مردوں اور لڑکوں کا کام تھا-جانور لانے کا بھی کیا مرحلہ ہوتا تھآ- گھر کے بچے قربانی کے جانور کی خاطر مدارات میں لگ جاتے – گلی محلے، اڑوس پڑوس سے بکروں کے ممیانے اور گائیوں کے ڈکرانے کی آوازیں آرہی ہوتیں سڑکوں کے نکڑ پر چارہ، گھاس اور چنے بیچنے والے بیٹھ جاتے– — مصالحے کون کونسے ڈالے جائیںگے ابھی شان مصالحوں کا چرچا نہیں تھا
جمعہ بازاروں کے چکر اتوار بازار عید بچت بازار گھر کے کسی فرد کا کسی ملازم ،ملازمہ کا جوڑا نہ رہ جائے ، درزیوں کے چکر اور پھر سب کو عید کے لئے تیار کرنا اور بقر عید پر گوشت کا بانٹنا ،سمیٹنا ، پکانا عزیز و اقارب کی خاطر تواضع شام کو سیخیں لگانا ، تکے ، بہاری کباب اور نہ جانے کیا کیا؟ ایپرن پہننے کے باوجود خاتون کے کپڑے گوشت کی خوشبو یا بد بو میں بس گئے ہوتے تھے
بقر عید میں نماز کے فورا بعد قصائی کی ڈھونڈھیا، جیسے تیسے جانور ذبح ہوا تو ” بس آپکی کلیجی نکال کر قریشی صاحب کا بکرا گرا کر آتا ہوں – پھر آکر آپکی تکا بوٹی ، چانپیں ،سری پائے سب بنوادونگا ” اور جسکو سب سے زیادہ قربانیوں کا شوق تھا اسکی تو پھر جیسے بات ہی نہ ٹالی جاتی قصائیوں تک سے دوستی ہوگئی ، پھر تو قصائی ایک آدھ روز پہلے خود ہی آجاتا جانور کو پانی پلاکر نہلا دینا میں اتنے بجے تک آجاونگا-سب حیران یہ قصائی کو کیا گیدڑ سنگھی سونگھائی ہے ایسا رام کر لیا ہے- اس مبارک صبح وہ اس گھر کا خاص الخاص مہمان ہوتا تھا دو یا تین ہوتے تھے- مشہور تھا کہ بقر عید میں ہر کوئی چاقو ، چھری سنبھال کر قصائی بن جاتا ہے-تازہ تازہ کلیجی نکال کر اسکے پارچے کاٹ کر تل دئے جاتے-یہ انکے ہاں کی مخصوص ڈش تھی- احباب بھی فرمائش کرتے- حصے بخرے کرنا، مانگنے والوں کی ایک لائن لگ جاتی، ملازم پہلے سے تلقین کردیتے ہمارا حصہ تو فریزر میں ڈالدیں وہ سوچتی چلو اسطرح شائد ثواب میں مزید اضافہ ہو- کھالوں کے لئے پہلے سے تعئین ہوچکا ہوتا تھا کس کو دینی ہے ورنہ شہر میں کھالوں کی چھینا جھپٹی بقر عید پر ایک معمول تھا،بہت پہلے ایک جماعت کی اجارہ داری تھی – اسکے اوپر دوسری تنظیم جو غالب آئی تو شہر اور ووٹوں کے ساتھ ساتھ کھالوں پر ایسا قبضہ جمایا کہ لوگوں کو جانور کے ساتھ اپنی کھالوں کے لالے پڑ گئے–
اور اگر کارپوریشن والوں نے غفلت برتی تو ڈھیروں پڑی ہوئی اوجھڑیاں اور دیگر آلائیشیں جو تعفن پھیلاتیں کہ خدا کی پناہ– سانس لینا دوبھر ہوجاتا–
ایک مرتبہ اسکی بقر عید امریکہ میں گزری -توبہ توبہ یہ بھی کوئی عید ہے ٹھٹھروں ٹوں ایک گھر میں عید باقی تمام شہر جانتا بھی نہیں کہ آج عید ہے -خاتون خانہ اپنی جاب پر تھیں ایک کوشر کلیجی منگوا کر پکائی اور عید کا قدرے اہتمام ہوا لیکن اسنے کان پکڑے کہ ائیند ہ اس ملک میں عید کبھی نہیں منانی- اسکا بڑا بول شائد اللہ کو بھی پسند نہ آیا حالا ت نے ایسا پلٹا کھایا کہ اسکی قیام گاہ یہی ممالک بن گئے اور عید منانے کی” ہمت ہر کس بقدر او است، کے مصداق کوئی تو اسے واقعتا اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے ایک قابل ذکر دن بنانا چاہتا ہے -وہ جو دین سے منسلک ہیں وہ کوشش میں ہیں کہ اس دن کو خوب دل کھول کر منائیں اور ہر طرح سے اہتمام کریں ، گھروں کو سجائین ، قمقمے لگائین ، بچوں کو زیادہ سے زیادہ ایسی محفلوں میں لے جائیں تاکہ انکو اس روز کی اہمئیت کا احساس ہو اور کچھ ہو نہ ہو اسلامک سنٹرز جاکر نماز عید کی آدایئگی ان ممالک کا خاصہ ہے اور یہ پہلو پاکستان میں اسکی زندگی سے غائب تھا- کیا لطف آتا ہے ہر رنگ اور ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ ملکر-جتنا بڑا اجتماع اتنا ہی تنوع- اکثر مساجد میں نماز کے بعد اہتمام خورد و نوش بھی ہوتا ہے ورنہ بعد میں عید ملن پارٹیاں ہوتی ہیں ہر چیز ایک منظم انداز سے – اگر تو عید ویک اینڈ پر ہے تو کافی پروگرام بن جاتے ہیں وگرنہ اکثر اسکولوں اور کاموں سے چھٹی لینا دشوار ہوتا ہے -جو بھی کرلیں اس ماحول کو بنانے کیلئے خوب تگ و دو کرنی پڑتی ہے اب تو بڑے شہروں میں کچھ معلومات مقامی لوگوں کو حاصل ہو گیء ہیں کہ مسلمانوں کا کوئی تہوار ہے ورنہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟–
اس مرتبہ بقر عید بدھ کے روز یعنی 15 اکتوبر کو ہوگی اور مصدقہ اطلاع ہے کہ ہلال کمیٹی والے سولہ اکتوبر اور جمعرات کو کر رہے ہیں- اسی کو دیکھ لیجئے مسلمانوں کی تفرقہ بازی ، جو کہ حد درجہ افسوسناک ہے لیکن جسکا کوئی حل نظر نہیں آتا—عید پر اوپن ھاس یہیں کا خاصہ ہیں وقت طے کرکے احباب کو مطلع کر دیا جاتا ہے کہ میرے ہاں دوپہر 12 بجے سے شام 5 بجے تک اوپن ہاس ہے- صاحبان خانہ مختلف پکوان تیار کرکے رکھ دیتے ہیں اور مہمانوں کا سلسلہ وقت مقررہ تک چلتا ہے تحفے تحائف کا خوب تبادلہ ہوتا ہے بچوں کے خوب مزے ہو جاتے ہیں– نیء تہزیب سے بہت سی نئی اور اچھی باتیں سیکھ لیگیء ہیں–اس مرتبہ اوکول کینیڈا میں اکنا کی طرف سے عید کے روز پروگرام تھا -” ایک کھلونا اپنے بچے کیلئے اور ایک پڑوسی بچے کے لئے لے جائیں ” اور یہ پروگرام وہاں سٹی ٹی وی سے براہ راست دکھایا گیا- مسلمان گروہ بہت سارے تفریحی پارکوں کو بک کر دیتے ہیں اسطرح مسلم کمیونٹی کو آپس میں ملنے کے اور سیر و تفریح کے مواقع مل جاتے ہیں-
رہیںقربانیاں اور اسکا اہتمام، دنیا رفتہ رفتہ جدت پسند ہوتی جارہی ہے اب تو حج میں بھی ٹوکن سسٹم ہوگیا ورنہ جانوروں کو ٹھکانے لگانا کتنا مشکل کام ہوتا تھا – یہ شعبہ تو زندگی سے جیسیخارج ہوگیا اللہ سلامت رکھے اپنے پیاروں کو انکے توسط سے قربانیاں یا تو مادر وطن میں ہورہی ہیں یا پھر آن لائن خیراتی ادارون کے ساتھ وہ خوش کہ انکو وافر مقدار میں گوشت میسر آگیا ورنہ پاکستان میں گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اور یہاں کی قربانیوں کا کیا کہنا کسی کسی فارم میں اجازت ہے کہ آکر اپنے جانور پر چھری پھیر دو لیکن وہ بھی ہزار تکلفات کے ساتھ البقرقی میں ایک فارم تھا مالک غالبا اردن کا عیسائی تھآ – وہاں جانور خرید کر قربانی کرو تو وہ اسوقت تازہ کلیجی نکال کر دے دیتا تھا ایک صاحب کے متعلق سنا تھا کہ وہ اپنے باتھ ٹب میں لاکر بکرا ذبح کرتے تھے خوش قسمت تھے جو بچ گئے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا آجکل پاکستان میں اچھے عھدے پر فائز ہیں- ورنہ قربانی کا گوشت عموما تیسرے روز ملتاہے وہ بھی انکی مرضی سے جیسے کاٹ کردیں پچھلی بقر عید پر ران رکھنے کو کہا تو ثابت سری مل گء یوں دنبے ،بکرے اور گائے سب کی قربانیاں موجود ہیں- بلکہ فینکس میں ایک خاتون نے بتایا کہ انکا دو ایکڑ کا گھر ہے ایک ایکڑ پر مویشی پالے ہیں اپنے گھر کے پلے بکرے ہمیشہ ذبح کرتے ہیں واہ یہ لطف تو گا ں ہی میں آسکتا ہے- – پاکستان میں جو ہوشربا گرانی ہے اب بکرے کا گوشت 6 یا 7سو روپے کلو تک ملتا ہے گائے کا 4 یا 5 سو روپے کلو، کافی مہنگا ہے اب وہاں بھی مرغی سب سے سستی ہے اسلئے بقر عید پر غریبوں کو اب واقعی خوشی ہوتی ہے اور فریج فریزر تو اب ہر ایک کے ہاں ہے-
اور وہ جن خاتون کا تذ کرہ تھا انکے تو اب عیش ہی عیش ہیں نہ گوشت کا جھنجھٹ نہ ہانڈی نہ چولھا وقت بھی کیا کروٹ بدلتا ہے —– بس اسکا شکر ادا کرنے کی دیر ہے–
آپ سبھوں کو بمع اہل خانہ عید ا لاضحی کی دلی مبارکباد اللہ ہماری قربانی اور تمام عبادت کو اپنی بارگاہ میں قبول کرے اور ہم سب پر اپنا فضل وکرم فرمائے
Abida Rahmani