عید الفطر ۔۔۔۔ عام معافی کا دن
تحریر پیر بشیر تبسم اویسی
اسلام دین فطرت اور ماننے و الوں کیلئے پیغام محبت والفت ہے ۔اس کے اصول و ضوابط اور قوانین و اطوار ایسے پسندیدہ وہمہ جہت ہیں جو بیگانوں کو یگانہ اور نا آشنا ئوں کو آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے کر دیتا ہے جیسے دوجسم یک جان ہوں ۔احکامات اسلام پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کا منشا یہی ہے کہ بنی آدم ایک ووسرے سے لاتعلق نہ رہیں ۔یہ اپنی ہی ذات میں گم نہ ہوں ۔بلکہ افراد مختلفہ ملت واحدہ بن کر کلمۂ واحدہ پر جمع ہو جائیں تاکہ ایک خدا، ایک رسول ،ایک ہی قرآن ،ایک ہی کعبہ پر ایمان رکھنے والے ظاہر بین نگاہوں میں بھی ایک ہی سطح پر متحد و متفق اور ایک دوسرے کے بہی خواں نظر آئیں اور دنیا والے اس اتحاد معنوی میں کوئی اختلاف ظاہری محسوس نہ کر سکیں ۔اسلام میں اہل محلہ میں محبت و اتحاد پیدا کرنے اور اسے ان میں قائم دائم رکھنے کیلئے پنچگانہ نمازوں کے وقت، اہل محلہ کی مسجد میں جمع ہو کر نماز ادا کرنا واجب کیا گیا ہے ۔اہل شہر میں محبت و تعلقات بڑھانے کیلئے ہفتہ میں ایک بار ان کا جامع مسجد میں اکٹھا ہو کر نماز جمعہ ادا کرنا ضروری و لازمی ٹھہرایا گیا ہے تو ضروری تھا کہ شہری باشندوں بلکہ قرب و جوار کے رہنے والوں میں تعارف و تعلق اور محبت و شناسائی قائم کرنے اور مستحکم رکھنے کیلئے بھی کوئی اہتمام کیا جائے ۔جبکہ عالم اسلام میں رابطۂ دین کو مستحکم و مضبوط کرنے کیلئے مختلف ملکوں کے اشخاص کو دین واحد کی وحدت میں شامل ہونے کیلئے عمر بھر میں ایک بار ان تمام مسلمانوں پر جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتے ہیں حج کعبة اللہ فرض کیا گیا ہے ۔تو اہل شہر اور دیہات قرب و جوار میں اسی شناسائی اور مودت و محبت اور تعلق کو پیدا کرنے کیلئے سال میں دو بار عیدین کی نماز کو سنن ھدیٰ بلکہ لازم قرار دیا ہے ۔ہر دو موقعوں پر دیہات والے شہروں کی طرف آتے ہیں اور شہر والے شہر سے باہر نکل کر ان سے ملاقات کرتے اور سب مل جل کر عبادت الہٰی ادا کرتے ہیں۔
ابو دائود شریف میں روایت ہے حضور نبی اکرم ۖ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن (مہرگان۔نیروز) خوشی کرتے تھے ۔آپ ۖنے فرمایا یہ کیا دن ہیں ؟ لوگوں نے عرض کی ”جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیئے ۔عید الفطر ،عید الضحٰی اسلام نے ان ایام میں تجمل و زیب و زینت اور رکھ رکھائو کو تو باقی رکھا ۔البتہ زمانۂ جاہلیت کی رسم و رواج ۔لہوو لعب اور کھیل کود میں وقت کے ضیاع کو ختم کر دیا اور جشن کے ان ایام کو خدائے بزرگ و برتر کی اجتماعی عبادت کے ایام بنا دیا تاکہ ان کا یہ تجمل و اجتماع یاد الہٰی سے غفلت میں بسر نہ ہو۔ایک طرف اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے دنیاوی فرحت و انبساط کے اہتمام کی اجازت دی تو دوسری طرف ان کیلئے بندگی کے دورازے کھول دئیے تاکہ یاد الٰہی سے بھی غافل نہ رہیں اور اسلامی برادری سے شناسائی کے مواقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
غرض اسلامی تہواربھی لہو و لعب اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے نہیں بلکہ دوسری تمام اقوام سے اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ وہ فرحت و نشاط کا ذریعہ بھی ہیں اور وحدت و اجتماعات اور ایثار قربانی و اجتماعی عبادتوں کا وسیلہ بھی ۔عید کی نماز مدینہ منورہ میں آکر قائم ہوئی لیکن جس سال آپ تشریف لائے اس سال نہیں بلکہ 2ھ میں اس کا قیام عمل میں آیا ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ عید کی نماز رمضان المبارک کے روزوں کے تابع ہے اور رمضان شریف کے روزے ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئے اور عید کہتے ہیں اس خوشی کو جو بار بار لوٹ کر آئے۔
ہم عید کیوں مناتے ہیں؟معزز قارئین!جب کوئی خطہ یا علاقہ کسی ظالم حکومت کے تسلط سے آزاد ہوتا ہے تو جس دن آزادی کی نعمت ملتی ہے اس ملک کے لوگ اس تاریخ کو ہر سال یادگار کے طور پر جشن مناتے ہیں یا جب کوئی طالب علم امتحان میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو جشن اور خوشی کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ماہ رمضان المبارک کی رحمتوںاور برکتوں کا تو جواب نہیں یہ وہ صاحب عظمت مہینہ ہے جس میںبنی نوع انسان کی فلاح و کامیابی اور اصلاح و بہتری کیلئے ایک ”نورانی دستور”یعنی قرآن حکیم نازل ہوا ۔یہی وہ ماہ مقدس ہے جس میں مسلمان کی حرارت ایمانی کا امتحان لیا جاتا ہے ۔ پس زندگی کی کامیابی کیلئے بہترین دستور العمل حاصل کرکے اور ایک ماہ کے سخت امتحان میں کامیاب ہو کر ایک مسلمان کا خوش ہونا فطری عمل ہے اسی خوشی کا نام”عید ” ہے۔
انعام کی رات:(1)حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ۖ نے ارشاد فرمایا:” جو شخص پانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔ ذی الحجہ شریف کی 10-9-8ویں ،شعبان المعظم کی 15ویں رات اور عیدالفطر کی رات۔”
(2) سرور دو عالم ۖ کا فرمان مبارک ہے:” جس نے عیدین کی رات(یعنی شب عید الفطر اور شب عید الضحٰے طلب ثواب کیلئے) قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا۔جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔(ابن ماجہ)
عام معافی کا اعلان:حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ۖ نے فرمایا کہ جب عیدالفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تو اسے ”لیلة جائزہ” یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جب عید الفطر کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لا کر سب گلیوں اور راہوں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں ”اے اُمت محمد ۖ اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو ! جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے۔”پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے۔”اے میرے بندو! مانگو! کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم! آج کے روز اس (نمازعید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرمائوں گے (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطائوں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا ۔میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں)کے ساتھ رسوانہ کروں گا۔بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جائو ،تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں بھی تم سے راضی ہو گیا ۔ (الترغیب والترھیب)یوم عید شیطان کی مایوسی:حضرت سیدنا وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یوم عید آتا ہے ۔ شیطان چیخ چیخ کر روتا ہے ۔اس کی ناکامی اور رونا دیکھ کر تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہو کر سوال کرتے ہیں کہ تجھے کس چیز نے غمناک اور اداس کر دیا؟ وہ کہتا ہے ہائے افسوس !اللہ تعالیٰ نے آج کے دن اُمت محمد ۖ کی بخشش فرمادی لہٰذا اب تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کر دو۔(مکاشفة القلوب)
یوم عید اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ:معززقارئین! عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لئے حقیقت میں تو عید اس کی ہے جو عذاب الہٰی سے ڈرگیا ۔ہمارے اسلاف و بزرگان دین نے عید کی خوشی عبادات کی قبولیت کیساتھ مشروط فرمادی ۔جیسا کہ سیدنا فاروق ا عظم رضی اللہ عنہ کے دو ر خلافت میں لوگ عید کے روز کاشانہ خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیر المؤمنین دروازہ بند کر کے زارو قطار رو رہے ہیں لوگ حیرت زدہ ہو کر سوال کرتے ہیں کہ یا امیر المؤمنین ! آج تو عید کا دن ہے اس دن خوشی و شادمانی ہونی چاہیے اور آپ خوشی کی جگہ رو رہے ہیں؟سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ھذا یوم العید وھذا یوم الوعید۔ اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور یہ دن وعید کا بھی ۔آج جس کے نماز روزے اور عبادات رمضان قبول ہو گئیں بلا شبہ اس کیلئے آج عیدکا دن ہے اور جس کی عبادات رمضان مردود ہو گئیں اس کیلئے آج وعید کا دن ہے اور میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا یا رد کر دیا گیا ہوں۔معزز قارئین! سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ سے ہیں مگر خوف الہٰی سے رو رہے ہیں اور ایک ہم ہیں شکر کی بجائے خرافات میں مبتلا ہیں۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور یوم عید: اللہ تعالیٰ کے مقبول و محبوب بندوں کی ادائیں ہمارے لئے موجب صددرس عبرت ہیں ۔سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا مقام ولیوں میں بڑا بلند و بالا ہے مگر ہمارے لئے آپ کیا چیز چھوڑ گئے ۔آپ فرماتے ہیں :لوگ کہتے ہیں کل عید ہے! کل عید ہے ! اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس دن اس دنیا سے اپنا ایمان محفوظ لے کر گیا میرے لئے وہی دن عید کا دن ہو گا۔غریبوں کے والی پہ لاکھوں سلام:یوم عید جہاں خوشی اور اپنے احتساب کی تعلیمات ہمیں سنت رسولۖ اور عمل سلف صالحین سے ملتی ہیں وہاں سرکار مدینہ ۖ نے اس دن غرباء و مساکین کا خیال رکھنے کا بھی ہمیں حکم دیا ہے ۔غریبوں ، مسکینوں اور یتیموں کو اس روز خوشیوں میں برابر شریک کرنے کیلئے صدقۂ فطر کی ادائیگی کا حکم ہے۔
نماز عید سے قبل مسنون اعمال:
(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ تاجدار مدینہ ۖ عید الفطر کے روز کچھ کھا کر نماز کیلئے تشریف لے جاتے تھے۔
اور عید الضحٰے کے روز نہیں کھاتے تھے جب تک نماز سے فارغ نہ ہو جاتے ۔ (ترمذی ،ابن ماجہ)
(2) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ۖ عید الفطر کے دن چند کھجوریں تناول فرمالیتے اور وہ طاق ہوتیں پھر نماز کیلئے تشریف لے جاتے۔(بخاری شریف)
(3) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ عید کو (نمازعیدکیلئے) ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔(ترمذی شریف)
مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ فقہ کی کتابوں میں فقہائے کرام نے یوم عید یہ اعمال بھی سنت ذکر کئے ہیں:۔(1)حجامت بنوانا(2)ناخن ترشوانا(3)غسل کرنا(4)مسواک کرنا(5)اچھے کپڑے پہننا( 6) خوشبو لگانا (7)انگوٹھی پہننا (8) نماز فجر مسجد محلہ میں پڑھنا (9)نماز عید عید گاہ میں ادا کرنا(10)عید گاہ پیدل جانا (11)خوشی ظاہر کرنا(12)کثرت سے صدقہ کرنا(13)آپس میں مبارک باد دینا (14)بعد نماز عید مصافحہ کرنا اور معانقہ یعنی بغلگیرہوناوغیرہ۔
عید کا تحفہ :نبی مکرم نور مجسم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ:” جو شخص عید کے دن 300مرتبہ سبحان اللّٰہ وبحمدہپڑھے اور فوت شدہ مسلمانوں کی ارواح کو اس کا ثواب ہدیہ کرے تو ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں اور جب پڑھنے والا خود فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ایک ہزار انوار داخل فرماتے ہیں ۔”(مکاشفة القلوب)
آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حقیقی عید سعید کی خوشیاں نصیب فرمائے۔آمین!