عید الاضحی قریب آتے ہی میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا پر ایسے مفکروں کی بھرمار ہوجاتی ہے کہ جو انتہائی جذباتی انداز میں یہ پروپیگنڈاکرتے نظر آتے ہیں کہ حج و قربانی پر کروڑوں ، اربوں روپے ضائع کرنے کی بجائے غریبوں کی مدد کی جائے ۔۔۔
انتہائی دردناک قسم کی تصاویر اور گرافکس بنائے جاتے ہیں، تحریریں لکھی جاتی ہیں کہ ’کیوں نہ کسی کے منہ میں روٹی کا نوالہ ڈالاجائے‘کسی پھٹے پرانے کپڑے والے بچے کی تصویر لگا کر ۔۔۔کسی غریب کی بیٹی کو جہیز بنا کر دے دیا جائے اور ایسی ہی بہت سی خدمت خلق کی باتیں۔۔۔
میڈیا ، لبرل طبقہ ،سیکولر دانشور اور ” انسانیت کے نام نہاد علمبردار اپنے عالیشان بنگلوں میں بیٹھے جذبات بھری کہانیاں ترتیب دے رہے ہیں ۔۔۔ اگلے چند روز میں سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر اور تحریروں کی بھرمار ہونیوالی ہے جن میں انسانیت کے دکھ دیکھائے جائیں گے۔۔۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں غریب دیکھائے جائیں گے ، میلا کچیلا دوپٹہ لئے کوئی بچی مانگتی نظر آئے گی ، کوئی بوڑھا فریاد کرتا دیکھایا جائے گا اور غربت کی تصویر بنا کوئی خاندان ہوگا ۔۔۔ ایسی تصاویر اکٹھی کر کے پوسٹیں بنائی جا رہی ہیں ۔۔۔ انہیں جلد سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز کا موضوع بنایا جائے گا ۔
ایسی جذبات بھری تحریریں سامنے آئیں گی مثلا ایک غریب ڈرائیور کے بیٹے کے ساتھ حادثہ ہوجاتا ہے وہ ہسپتال میں زیر علاج ہوتا ہے۔۔ ڈرائیور اپنے مالک کے پاس آکر کہتا ہے۔۔۔ صاحب میرے بیٹے کی زندگی خطرے میں ہے ۔۔۔علاج کے لیے دس ہزار روپے درکار ہیں ۔۔مالک اپنے ڈرائیور کو دھتکار دیتا ہے کہ جاؤ میرے پاس کہاں سے آگئے دس ہزار؟؟؟ تجھے پتہ بھی ہے کاروبار کے حالات کیا چل رہے ہیں ؟؟؟ تجھے تنخواہ پتہ نہیں کہاں سے پوری کر کے دی ہے۔۔۔ اور مالک اگلے دن دو چار لاکھ کا جانور قربانی کے لیے لے آتا ہے ۔۔۔اسی طرح کی اور کتنی ہی کہانیاں بنائی جائیں گی ۔ مثلا کہ کئی دن فاقوں میں رہنے والے خاندان کے ہمسائے میں سیٹھ صاحب دو لاکھ کا بکرا لے آئے ۔۔۔۔ کسی لڑکی کی شادی کے لئے مدد نہ دینے والے حاجی صاحب نے مہنگی قربانی کر دی ۔۔۔۔اور اپنی بڑی بڑی گاڑیاں اے سی والے کمرے، پرتعیش لوازمات سے بھرے گھر ، ہر رات آباد ہوتے مہنگے ترین ہوٹل ، صرف ایک پارٹی کے لئے ہزاروں کے خرچے کے میک اپ ، جیولری اور کاسمیٹیکس پر لاکھوں کے خرچے، محل جیسے مکانات لاکھوں کی مالیت کے موبائل فون۔۔۔۔ یہ سب حلال ہے بس گناہ ہے توسال بھر میں ایک بار قربانی ۔۔۔
کوئی ان بیچاروں کو بتائے کہ تم تو صرف مہنگے ہوٹلوں میں بیرونی امداد سے غربت کے خاتمے کے سیمینار ہی کرتے ہو ، غریبوں کے دکھ درد میں بھی وہی شامل ہوتے ہیں جو کہ حج و قربانی جیسے عبادات کا خیال رکھتے ہیں ۔۔۔ اس لئے جیسے پورا سال غائب رہتے ہو، اپنی عیاشیوں میں مگن رہتے ہو اپنے بھاشن اپنے پاس ہی رکھا کرو ۔۔۔ یہ قربانی بھی دراصل غریبوں کے لئے ہی روزگار پیدا کرتی ہے ، انہیں کھانے کو گوشت ملتا ہے ، کھالوں سے ایسے ادارے چلتے ہیں جو غریبوں کے بچوں کو پڑھاتے ہیں یا پھر ہسپتال اور دیگر فلاحی ادارے ۔۔۔
عید آ رہی ہےآگاہ رہیں ،جلد آپ کے پاس جذبات بھری کہانیاں پہنچنے ہی والی ہیں بس۔۔دراصل حقیقت میں ان کو تکلیف صرف یہ ہے کہ کیونکر ابھی تک اس قوم میں سنت نبویﷺ پر عمل کی کچھ رہی سہی کسر موجود ہے! ۔ یہ بیچارے سنت نبویﷺ کو بزور طاقت روکنے اور اس پر براہ راست تنقید کی بجائے جذباتی ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ ۔ ہمارے معاشرے میں سب سے آسان ترین کام دوسروں پر تنقید کرنا اور مفت کے مشورے دینا ہے۔۔۔ یہاں ایسے ایسے غائب دماغ سکالر اور تجزیہ نگار مل جاتے ہیں کہ جن بیچاروں کو اپنے خاندان والے گھرمیں بہت کم وقت رہنے دیتے ہیں کہ یہ اپنی منفی خیالات سے سب کا سر کھاتے ہیں ۔۔۔
یہاں ہر دوسرا بندہ دین اور مذہبی معاملات پر بغیر کسی تحقیق رائے دینا اپنا حق سمجھتا ہے کہ جیسے اس سے بڑا عالم تو شائد کوئی ہے ہی نہیں ۔۔۔ ہمارے ہاں ایک روایت یہ بھی چل نکلی ہے کہ اگرکوئی بیچارہ رو دھو کر تھوڑا بہت پڑھ لکھ جائے تو پھر وہ انگریزی بول کر خود کو ماڈرن اور عجیب و غریب خصوصا مغربی مفکرین کے نظریات پیش کرکے خود کو روشن خیال ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔۔۔انہیں اپنے معاشرے میں موجود ہر رسم و رواج اور مذہبی روایات یکدم فرسودہ اور قدامت پرستی لگنے لگتی ہیں ۔۔۔ایسے میں مذہبی روایات اور عقائد کو حرف تنقید بناکر خود کو ماڈریٹ ثابت کرنا سب سے آسان ترین نسخہ ہے ۔۔۔
ہمیں آج کے پاکستانی معاشرے میں ایسے ہی خود کو عقل کل سمجھنے والے نام نہاد سکالرز کا سامنا ہے جو مغربی سوچ سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ اب ان کی اپنی کوئی سوچ نہیں رہی ۔۔۔ یہ ہر چیز کو سیکولرازم کی عینک سے دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ انہیں سب کچھ ہی برا لگتا ہے ۔۔۔۔حجاب میں دم گھٹتا ہے ، داڑھی والا ہر کوئی دہشت گرد نظر آتا ہے ، مدارس کو بند کرنے کی خواہش دل میں مچلتی ہے اور بہت کچھ۔۔۔ حج و قربانی کے خلاف اس پروپیگنڈے سے بہت سے لوگ متاثر بھی دیکھائی دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ انسانیت کے ان ہمدردوں کو غریبوں کی مدد کے لئے صرف حج و قربانی ہی کیوں نظر آتی ہے ۔ حج و قربانی کا خیال تو اسی کے ذہن میں آتا ہے کہ جوزکوة اور صدقات جیسے فرائض ادا کر چکا ہو ۔۔۔صاحب استطاعت ہو ۔۔۔ ہمارے یہ مغرب زدہ سیکولر مفکرین یہی مشورے اپنے ہم خیال ان امیر زادوں کو کیوں نہیں دیتے کہ جو نیوائیر نائٹ ، ویلنٹائن ڈے اور ددیگر تہواروں پر کروڑوں لٹا دیتے ہیں ۔۔۔۔
ان میں سے بہت سوں کے تو صرف پرفیوم اور کاسمیٹکس کے خرچے سے کئی گھروں کے چولہے جل سکتے ہیں ۔۔۔۔ ایک سمارٹ فون کی قیمت میں کئی قربانی کے بکرے آ سکتے ہیں ؟ کیا یہ لوگ فضول خرچی روکنے کے لئے سمارٹ فونز کی خریدو وفروخت پر پابندی کا مطالبہ کرنے کی جرات کر سکتے ہیں ؟؟کیا کبھی یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ بیوٹی پارلرز اور لاکھوں روپے کا ایک ایک جوڑا فروخت کرنیوالے بوتیکوں پر اخراجات کی بجائے غریب بچیوں کے گھر بسائے جائیں ۔۔۔
ان کے ہاں تو شادیوں کے نام پر ہر سال اربوں روپے نمودو نمائش کی نظر ہوتے ہیں ۔۔۔۔ یہ حج و قربانی تو انسانوں کے اپنے خالق کے ساتھ تعلق کا ایک اظہار ہیں ۔۔۔۔ یہ گوشت اور دیگر اخراجات اللہ تعالی کو نہیں چاہیے بلکہ صرف اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔کاش حج و قربانی کو متنازعہ بنانے والے یہ سیکولر ذہن کبھی زکوۃ کی ادائیگی شروع کر دیں۔۔۔۔ان کی دولت کے اس صرف اڑھائی فیصد سے اس معاشرے میں غربت کا یکسر خاتمہ ہو جائے گا۔۔۔۔آج کے پاکستان کا معاشرتی المیہ یہی ہے کہ ایک طرف رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں دینی روایات ، مذہبی شعائر کو تفریح کی نظر کرکے ان کی روح کو مسخ کر دیا جاتا ہے تو دوسری جانب قرآن وحدیث کے واضح احکامات اور سنت نبویﷺ تک کو متنازعہ بنانے اور فضول خرچی ثابت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی ہے۔۔۔۔ایسا لگتا ہے کہ ہم مغرب کی تقلید میں ان سے بھی بڑھ کر روشن خیال بننا چاہتے ہیں۔۔۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔