تحریر شا،زیہ عندلیب
ناروے میں اس وقت مختلف ممالک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔یہ مسلمان اپنے اپنے گروپ اور آرگنائیزیشنوں کے ساتھ مل کر اسلامی تہوار مناتے ہیں۔انہیں اسلامی تہوار کسی کو ڈسٹرب کیے بغیر منانے کی پوری اجازت ہے بلکہ اسٹیٹ ایک حد تک ان کی مالی اعانت بھی کرتا ہے۔مثلاً مختلف تہواروں اور تقریبات کے لیے جگہ مہیاء کرنا۔پروگرام کے لیے فنڈز دینا اور مذہبی تہواروں پر سال میں ایک یا دو چھٹیاں وغیرہ۔
عید قربان پر بعض گروپ اور دوکاندار مسلمانوں کو اسلامی طریقے سے مذبح خانوں میں قربانی کے جانور بکنگ پر ذبح کر دیتے ہیں جو گاہکوں کو عید کے تیسرے چوتھے دن مل جاتا ہے۔یہ گوشت کوالٹی اور ذائقے کے لحاظ سے عام دنوں کے گوشت سے بے حد مختلف اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ قربانی کے جانور جھٹکا مشین سے ذبح کیے جاتے ہیں ۔اس سلسلے میں جب قربانی کا اہتمام کرنے والے ایک دوکاندار سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ بات غلط ہے ۔ہم قربانی کے جانور کو ہاتھ سے اللہ اکبر کہہ کر چھری پھیرتے ہیں۔اس کے بعد جانور فریزر میں رکھ دیتے ہیں اور اگلے روز گاہک کے سامنے انکی مرضی سے مشینوں سے کاٹ کر دیتے ہیں۔قربانی کے گوشت میں سری پائے نہیں دئے جاتے جبکہ دل کلیجی شامل ہوتی ہے۔سری پائے نہ دینے کی دوکاندار نے کوئی خاص وضاحت نہیں کی۔
ناروے میں رہنے والے بیشتر پاکستانی پاکستان مین قربانی کرتے ہیں ،کئی پاکستانی اس بات سے لا علم ہیں کہ یہاں بھی قربانی ہوتی ہے ۔اس کا طریقہ کار پاکستان سے مختلف ہے۔نہ بکرہ منڈی ہے یہاں اور
نہ بکرہ ڈھونڈنے کے جتن کرنے پڑتے ہیں اور نہ قربانی کے جانوروں کی نمائش کا موقع ملتا ہے۔گوشت البتہ ضرور مل جاتا ہے اور وہ بھی خوشذائقہ اور صحت مند جانور کا ۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ بے شک پاکستان میں قربانی کریں لیکن بیشترپاکستانی یہاں رزق حلال کماتے ہیں وہ یہاں بھی قربانی کر کے عید قرباں سے لطف اندوز ہوں اور ثواب بھی کمائیں۔اس میں خرچہ بھی ذیادہ نہیں مگر ثواب اور لطف بہت ہے ۔اگلی عید قرباں کے لیے ابھی سے عہد کر لیں آزمائش شرط ہے۔
اس معاملے میں فلاحی آرگنائیزیشنیں مساجد کے ساتھ مل کر قربانی کا اہتمام کر سکتی ہیں۔جبکہ مساجد میں پہلے سے ہی اسکا بندو بست ہے۔جو لوگ مساجد سے منسلک ہیں وہ اس بارے میں مزید رائے اور معلومات ان صفحات پر دے سکتے ہیں۔ خواہشمند لوگ خود بات کر سکتے ہیں یا پھر نیچے دیے ہوئے اکائونٹ میں لکھ بھیجیں۔