سویڈن کی ڈائری
کالم نگار ڈاکٹر عارف محمود کسانہ
عید میلادالنبی اور کشمیری تحریک آزاد ی
ربیع الاول کی مناسبت سے سویڈن میںعید میلادلنبی کی کئی تقریبات منعقد ہوئیں۔جن میں پیغمبر اسلام کی ولادت با سعادت کے حوالے سے محافل میلاد کا سویڈن کے انتہائی سرد اور شدید برف باری کے موسم میں انعقادہونا اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ محبت رسول سے اپنے قلوب کو منور کرنے کا سلسہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔دنیا کی تمام اقوام اور مذاہب میں خاص ایام کو منانے کا خصوصیت سے رواج ہے۔جو ان کے ملی تشخص کا اظہار ہوتا ہے۔اہل اسلام کو قرآن حکیم سورہ یونس میں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ قرآن حکیم کا نزول ایک بہت بڑی نعمت خدا وندی ہے۔اور اس کے ملنے پر جشن منانا چاہیے۔ اب قرآن حکیم کو صاحب قرآن سے الگ تو نہیں کیا جا سکتا۔اس لیے جہاں قرآن حکیم کے ملنے پر جشن منانا چاہیے وہاں صاحب قرآن کے دنیا میں تشریف لانے کا جشن بھی صاحب ایمان کا وطیرہ ہے۔سویڈن میں تو مقامی مذہبی تنظیمیں یہ دن اہتمام کے ساتھ منایا کرتی تھیں۔مگر تین سال قبل جب پاکستان کے سفیر جناب ندیم ریاض صاحب پاکستان سے سویڈن تشریف لائے تو انہوں نے سفارت خانہء پاکستان میں ہر سال بارہ ربیع الاول کو باقائدگی سے عید میلادا لنبی کی تقریب خصوصی طور پر منانا شروع کی۔یہ تقریبات پاکستانی سفارت خانہ میں انہوں نے اس وقت شروع کی تھیں جب وہ سفارتی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ندیم ریاض اب سویڈن میں اپنی مدت سفارت کے بعد پاکستان واپس جا چکے ہیں۔خوش آئیند بات یہ ہے کہ سویڈن میں پاکستان کے قائمقام سفیر جناب نجیب درانی نے یہ سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیااور اس سلسلے میں سفارت خانے میں عید میلاد النبی کی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔عید میلاد النبی کی ان تقریبات میں بعض مقررین جوواقعات اور حضور کی ولادت کے حوالے سے جوتفصیلات بیان کرتے ہیں انہوں نے بہت سے سامعین اور بالخصوص یورپ میں پروان چڑھنے والے نو جوانوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔ضعیف روایات اور بعض اوقات ایسے واقعات بیان کیے جاتے ہیں جنہیں غلو بھی کہا جا سکتا ہے اور پیدائش کے واقعات اور تفصیلات تو سو ادب کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضور کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے تو دوسری طرف ایسے مافوق الفطرت واقعات کی بھرمار ہوتی ہے کہ ایک شخص یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایسی ہستی ہمارے لیے کیونکر نمونہ ہو سکتی ہے ۔خدا کے بنائے ہوئے قوانین اور سنت کو بیان کرنے سے قبل بہت سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ قرآن پاک اور احادیث کی روشنی میں خاتم المرسلین کی ذات کی صفات بیان کی جایئں تو وہ حقیقت میں سیرت رسول ہوں گی کہ جس طرح حضرت عائشہ نے فرمایا کہ حضور صلعم کا خلق قرآن تھا اور خود قرآن میں کم از کم تیرہ مقامات پر حضور صلعم سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں خود وحی کی پیروی کرتا ہوں۔اور اگر ہم بھی وحی کی پیروی کریں تو خود بخود اسلام کی پیروی ہو جائے گی۔قرآن کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کی ضرورت ہے خواہ ہر روز ایک آئیت ہی مفہوم کے ساتھ نہ صرف پڑہی جائے بلکہ سمجھی بھی جائے۔سویڈن میں بھی یوم یکجہتیء کشمیر کی تقریب قومی سفارت خانے میں منعقد ہوئی۔جس میں سویڈن میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں نے آزادیء کشمیر کی جدو جہد میں مصروف کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا۔حکومت پاکستان کے کشمیر پالیسی کے کئی پہلوئوں سے اختلاف ممکن ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اگر آج بھی مسلہء کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور بین الاقوامی طور پر زندہ ہے تو اس کی وجہ کشمیر میں بہنے والا خون اور پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے۔اگر پاکستان چاہے کہ یہ مسلئہ اقوام متحدہ میں نہ رہے تو بھارت فوراً تیار ہو گا بلکہ بھارت نے تو پاکستان میں کشمیر کی سرحد پر متعین اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو ہٹانے کی کوشش اور خواہش بھی کی ہے۔لیکن یہ پاکستان کی کشمیری پالیسی ہی ہے جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔اس کے بعد سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ 1988 سے جاری اس تحریک آزادیء کشمیر میں پانچ لاکھ کشمیریوں کی شہادت اور انگنت قربانیوںکے باوجود بھی ہم عالمی سطح پر حمائیت نہیںحاصل کر سکے اور اس وقت تو حال یہ ہے کہ پاکستان کے انتہائی قریبی دوست چین سعودی عرب ،متحدہء عرب امارات مسلہء کشمیر پر پاکستان کی حمائیت تو دور کی بات ہے ایک بیان بھی جاری نہیں کرتے۔اس معاملے میں پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔اس صورتحال میں قومی کشمیر پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہو۔اور جب ایک کشمیری کو خود بین الاقوامی سطح پر کشمیری عوام کو اپنا مسلہء پیش کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔عالمی حمائیت ناممکن ہے۔قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی یا اسلامی کانفرنس میں حریت کانفرنس کو موثر درجہ دلانہ کافی نہیں۔بلکہ قائد اعظم کے سیکرٹری اور سابق صدر آزاد کشمیر کے ایس خورشید کا آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے اور بین الا قوامی سطح پر اس کی لابنگ کا فریضہ سونپنے جیسی قابل عمل تجاویز پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔بھارت نے آخر بال ٹھاکرے کا مطالبہ تسلیم کر کے حریت پسند افضل گرو کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی۔اس طرح کشمیریوں کا تہاڑ جیل سے رشتہ اور مضبوط ہوا جہاں اٹھائیس سال قبل گیارہ فروری انیس سو چوراسی میں حریت پسند مقبول بٹ کو تختہ وار پہ لٹکایا گیا تھا۔افضل گرو میڈیکل کے طالبعلم سے حریت کے سفر پہ کیونکر روانہ ہوا؟بھارتی ذہنوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔افضل گرو کی شہادت پر بہت سے بھارتی دانشوروں اور مقبوضہ کشمیر کے بھارتی نواز جماعتوں اور رہنمائوں نے بھی برملاء کہا ہے کہ افضل گرو کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور اسے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔کانگرس نے آئیندہ انتخابات میں کامیابی اور بی جے پی سے بچنے کے لیے افضل کو موت کے گھاٹ اتارا۔اس کے ساتھ یہ سب بھارت اور اس کے حکمران حکومت کانگرس کے دور میں ہواجس کے بانی وزیر اعظم نہرو نے خود مصلح جدو جہد کرنے والے رہنماء چندر بوس کی وکالت کی تھی۔پھر اس پھانسی میں خود بھارت نے اپنے ملکی قوانین پر عمل نہیں کیا۔جو خود کو جمہوری ریاست اور قانون کی حکمران قرار دیتی ہو۔ اس کے لیے باعث شرم بات ہے کہ پھانسی پانے والے کے اہل خانہ کو اطلاع دی جاتی ہے۔اور پھر لاش آخری رسومات کے لیے اہل خانہ کے سپرد کر دی جاتی ہے۔مگر گورو کے اہل خانہ کو پھانسی کی اطلاع میڈیا کے ذریعے ملی۔جبکہ اس کی لاش بھی مقبول بٹ شہید کی طرح جیل میں ہی دفن کر دی گئی۔جو کسی طرح سے بھی قابل جواز نہیں ہے۔گورو کی پھانسی کشمیر کی تحریک آزادی میں نئی روح پھونک دے گی۔بالکل اسی طرح جیسے انیس سو چوراسی میں مقبول بٹ کی شہادت نے کیا تھا۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور 1974 اندرا عبداللہ گٹھ جوڑ کی وجہ سے تحریک کشمیر سرد پڑ گئی تھی کہ 1976 میں پھر مقبول بٹ نے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر جا کرجدو جہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔حالانکہ وہاں انہیں پھانسی کی سزا ہو چکی تھی۔مقبوضہ وادی میں جا کر مقبول بٹ پھر گرفتار کر لیے گئے۔اور 1984 انیس سو چوراسی میں تہاڑ جیل میں پھانسی کے بعد ہی کشمیر کی تحریک آزادی شروع ہوئی۔اور انیس سو اٹھاسی میں پوری ریاست آزادی کے متوالوں کی جدو جہد سے متحرک ہو گئی۔ کچھ اسی طرح اب دو ہزار چار سے تحریک آزادی میں جو کمی آگئی تھی اسے افضل گرو کا خون توانائی دے گا۔اور اس کے لہو کی روشنی سے کشمیری ایک بار پھر متحرک ہوں گے۔ممکن تھا کہ افضل گرو جیل میں ویسے ہی طبّی موت کا شکار ہو جاتے مگر اس کے تحریک آزادی پر وہ اثرات مرتب نہ ہوتے جو ان کی شہادت سے ہوں گے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے شہید کو جو لہو ہے وہ قوم کی زکواة ہے