sent by :Abrar Ahmed
مبشر حسین لاہوری
بلاناغہ ہر سال ربیع الاو ل کی بارہ تاریخ کو ’عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جشن منایا جاتا ہے۔ ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی اس جشن میلاد کی تقریبات کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔ نوجوان گلی کوچوں اور چوراہوں میں راہ گیروں کا راستہ روک کر زبردستی چندے وصول کرتے ہیں۔ علما حضرات مسجدوں میں جشن ولادت منانے کے لئے دست ِسوال دراز کرتے ہیں۔
پھر بارہ ربیع الاول کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتااور گلیوں، بازاروں ، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، تانگوں، گدھا گاڑیوں اور بسوں میں سوار ہوکر پورے ملک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ جشن، یہ میلاد اور یہ سلسلۂ تقریبات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار کا ذریعہ گردانا جاتا ہے اس لئے چاروناچار حب ِرسول سے سرشار ہر پیروجوان حسب ِحیثیت اس میں شمولیت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔
گورنمنٹ بھی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا احترام کرتے ہوئے سرکاری طور پر چھٹی کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ حکومتی سطح پر بڑی بڑی سیرت کانفرنسوں کا بھی انعقاد کرتی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار بجاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و احترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے … مگر دیکھنا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن و جلوس کا یہ سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں…؟ شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں…؟!
عید ِمیلاد چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ اسلئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سردست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اسکے معیار و تقاضے پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی قلبی محبت جزوِایمان ہے اور وہ بندہ ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘ (بخاری: کتاب الایمان: باب حب رسول من الایمان؛۱۴)
صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے دل میں میری محبت نہ پیدا ہوجائے۔‘‘ (ایضاً ؛۱۵)
لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟ کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کردینا ہی کافی ہے یا اس کے لئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟ صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم و جان پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کی حاکمیت ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیث ِنبوی کی روشنی میں صادر ہوتا ہو۔ اس کی ساری زندگی اللہ کے رسول کے اُسوئہ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کو موجب ِعذاب خیال کرتا ہو۔
لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپ کی سنت و ہدایت کے مقابلہ میں بدعات و رسومات کو ترجیح دیتا ہو تو ایسا شخص ’عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حب ِرسول کا لاکھ دعویٰ کرے یہ کبھی اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے مگر اللہ کے رسول ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’فمن رغب عن سنتي فلیس مني‘‘ (بخاری؛۵۰۶۳) ’’جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
تیسری عید کہاں سے آئی؟
۱۲ ربیع الاول کو نہ صرف آنحضرت کے یومِ ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے تیسری ’عید‘ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں۔ ان دو عیدوں کو خوشی کا تہوار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود اسی طرح مقرر فرمایا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام کو متعین فرمایا ہے۔
جیسا کہ حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ خوشی کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ قدیم دورِ جاہلیت سے ہم اسی طرح یہ تہوار مناتے آرہے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إن اللہ قد أبدلکم بھما خیرا منھما یوم الأضحٰی ویوم الفطر‘‘ (ابوداود: کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین ؛۱۹۳۱)
’’اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو خوشی کے دن عطا فرمائی ہیں ؛ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی ہے۔‘‘
ان دونوں عیدوں کے موقع پر باادب طریقہ سے نمازِ عید ادا کی جاتی اور اللہ کا شکر بجا لایا جاتا ہے۔ نیز عیدالاضحی کے موقع پر جانور قربان کئے جاتے ہیں، مگر ۱۲ ربیع الاول کی ’عیدمیلاد‘ کو اوّل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر ہی نہیں فرمایا پھر اسے عید قرار دینے والے اس روز نمازِ عید کی طرح کوئی نماز ادا نہیں کرتے اور نہ ہی عیدالاضحی کی طرح قربانیاں کرتے ہیں اور فی الواقع ایسا کیا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ ’عید‘ ہے ہی نہیں مگر اس کے باوجود اسے عید ہی قرار دینا بے جا تحکم، ہٹ دھرمی اور شریعت کی خلاف ورزی نہیں تو پھر کیا ہے؟
یہ جشن ِولادت ہے یا جشن ِوفات؟
۱۲ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ آنحضرت کی ولادت کا دن ہے حالانکہ ۱۲ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں۔ البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ ۱۲ ربیع الاول کو حضور کی وفات ہوئی۔ جیسا کہ مندرجہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے :
یومِ ولادت کی تاریخ
تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سوموار کے دن ہوئی جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ذاک یوم ولدت فیہ ویوم بعثت أو أنزل علی فیہ‘‘’’یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔‘‘ (مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام ؛۱۱۶۲)
البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا)میں پیدا ہوئے۔
نیز فرماتے ہیں کہ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ پھر حافظ ابن کثیر نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا ۲۶۲ ج۲)
علاوہ ازیں بہت محققین نے ۱۲ کی بجائے ۹ ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے ، مثلاً قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت دان:قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہورہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب ’التقویم العربی قبل الاسلام‘ میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ’’عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول ’حضرت ابراہیم ‘ کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی صحیح تاریخ ۹ ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت ۲۰ اپریل ۵۷۱ء بروز پیر کی صبح قرار پاتا ہے۔‘‘ (بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص۶۲ ج۱/ حدائق الانوار:ص۲۹ ج۱)
رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب ’الرحیق المختوم‘ کے مصنف کے بقول ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹ ربیع الاول سن۱، عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔‘‘ (ص:۱۰۱)
برصغیر کے معروف مؤرخین
مثلاً علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی ۹ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحقیق ِجدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:سیرت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱ج۱/تاریخ اسلام از اکبر شاہ :ص۸۷ ج۱/رحمۃ للعالمین از منصور پوری: ص۳۶۱ ج۲)
ربیع الاول یوم وفات ہے !
جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲ ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہے۔ بطورِ مثال چند ایک حوالہ جات سپردِ قلم کئے جاتے ہیں:
1۔ابن سعد، حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے۔ (طبقات ابن سعد : ص۲۷۲ ج۲)
2۔حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔ (دیکھئے تاریخ اسلام از ذہبی: ص۵۶۹)
3۔حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (البدایۃ والنھایۃ: ۲۵۵/۵)
4۔مؤرخ ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔ (اسدالغابۃ: ۴۱/۱/الکامل:۲۱۹/۴)
5۔حافظ ابن حجر نے بھی اسے ہی جمہور کا موقف قرار دیا۔ (فتح الباری ۲۶۱/۱۶)
6۔محدث ابن حبان کے بقول بھی تاریخ وفات ۱۲ ربیع الاول ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن حبان: ص۴۰۴)
7۔امام نووی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ (شرح مسلم :۱۵/۱۰۰)
8۔مؤرخ و مفسر ابن جریر طبری نے بھی ۱۲ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔ (تاریخ طبری:۲۰۷/۳)
9۔امام بیہقی کی بھی یہی رائے ہے۔ (دلائل النبوۃ: ۲۲۵/۷)
10۔ملا علی قاری کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ۱۰۴/۱۱)
11۔سیرت نگار مولانا شبلی نعمانی کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ (سیرت النبی: ص۱۸۳/ج۲)
12۔قاضی سلیمان منصور پوری کی بھی یہی رائے ہے۔ (رحمۃ للعالمین:ص۲۵۱ ج۱)
13۔صفی الرحمن مبارکپوری کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ (الرحیق: ص۷۵۲)
14۔ابوالحسن علی ندوی کی بھی یہی رائے ہے۔ (السیرۃ النبویۃ: ص۴۰۴)
15۔مولانا احمد رضا خان بریلوی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲ ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔ (ملفوظات)
ایک اور تاریخی حقیقت
گذشتہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ۱۲ ربیع الاول یومِ ولادت نہیں بلکہ یوم وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور برصغیر میں عرصۂ دراز تک اسے ’۱۲ وفات‘ کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس دن جشن اور خوشی منانے والوں پرجب یہ اعتراض ہونے لگے کہ یہ تو یوم وفات ہے اور تم وفات پر شادیانے بجاتے ہو!… تو اس معقول اعتراض سے بچنے کے لئے کچھ لوگوں نے اس کا نام ’۱۲ وفات‘ کی بجائے ’عیدمیلاد‘ رکھ دیا جیسا کہ روزنامہ ’مشرق‘ لاہور کی ۲۶ جولائی ۱۹۸۴ء کی درج ذیل خبر سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے :
’’اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ ، مولانا محمد بخش مسلم، نور بخش توکلی اور دیگرعلما نے ایک قرار داد کے ذریعے اسے ’میلادالنبی ‘ کا نام دے دیا۔‘‘
قصہ مختصر کہ اس روز جشن اور خوشیاں منانے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش نہیں بلکہ یوم وفات ہے!
اگر یہ جشن ولادت ہے تو تب بھی بدعت ہے !
اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ۱۲ ربیع الاول ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت ہے تو تب بھی اس تاریخ کو جشن عید اور خوشیاں منانا اور اسے کارِ ثواب سمجھنا از روئے شریعت درست نہیں کیونکہ
جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کا ’جشن‘ نہیں منایا، کبھی ’عیدمیلاد‘ کا انتظام یا حکم نہیں فرمایا، نہ ہی صحابہ کرام نے کبھی یہ خود ساختہ ’عیدمیلاد‘ منائی اور نہ تابعین ، تبع تابعین، مفسرین ، محدثین اور ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل) سے اس کا کوئی ثبوت فراہم ہوتا ہے
تو لامحالہ یہ دین میں اضافہ ہے جسے آپ بدعت کہیں یا کچھ اور… بہرصورت اگر اسے کارِ ثواب ہی قرار دینا ہے تو پھر اس ہٹ دھرمی سے پہلے اعلان کردیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام صحابہ، تابعین، تبع تابعین وغیرہ اس ثواب سے محروم رہے اور ہم گنہگار (نعوذ باللہ) ان عظیم لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں!
بدعت ِعیدمیلاد کا موجد کون؟
عیدمیلاد کاجشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حب ِنبوی اور حب ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف’ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کا تہوار جاری کیا بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ’میلاد‘ بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ ’’یہ کافر و فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیا کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔‘‘
نیز لکھتے ہیں کہ ’’فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔ ان کے ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میںمنکرات و بدعات ظہور پذیر ہوئیں… سلطان صلاح الدین ایوبی نے۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور ۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔‘‘ (البدایۃ والنھایۃ : ۱۱/۲۵۵ تا ۲۷۱)
بدعت ِعیدمیلاد اور میلاد حسن و حسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے ثبوت کے لئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہیں :
1۔مصر ہی کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت اپنی کتاب ’’أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الأحکام‘‘ میں صفحہ ۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ ’’إن أول من أحدثھا بالقاھرۃ الخلفاء الفاطمیون وأولھم المعز لِدین اﷲ توجہ من المغرب إلی مصر فی شوال سنۃ (۳۶۱ھ) إحدی وستین وثلاث مائۃ ھجریۃ …‘‘ ’’سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعزلدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلادالنبی، میلادِ علی، میلادِ فاطمہ، میلادِ حسن، میلادِ حسین، اور حاکم وقت کا میلاد… یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔‘‘
2۔ علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں : ’’کان للخلفاء الفاطمیین فی طول السنۃ أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنۃ وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبی ومولد علی بن أبی طالب ومولد فاطمۃ الزھرأ ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفۃ الحاضر‘‘(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱/ ص۴۹۰)
’’فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز (New year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبی، میلادِ علی، میلاد فاطمۃ الزہرا، میلادِ حسن، میلاد حسین اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔‘‘
3۔علامہ ابوالعباس احمد بن علی قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’ فاطمی حکمران ۱۲ ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ دارالفطرۃ (مقام) میں ۲۰ قنطار (پیمانہ) عمدہ شکر سے انواع و اقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے ۳۰۰ خوبصورت برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک ِمیلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی و مبلغ اور خطباء و قرأ حضرات، قاہرہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان و نگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔‘‘ (دیکھئے: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ، ج۳ ص۴۹۸ تا ۴۹۹)
بدعت ِمیلاد سے متعلقہ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الابداع فی مضار الابتداع (ص۱۲۶) از شیخ علی محفوظ، البدعۃ ضوابطھا وأثرھا السیئۃ فی الأمۃ (ص ۱۶تا۲۱) از ڈاکٹر علی بن محمد ناصر، القول الفصل فی حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل (ص۶۴ تا ۷۲) از شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری، المحاضرات الفکریۃ، ص۸۴ از سیدعلی فکری … وغیرہ
بدعت ِمیلاد ؛ مصر کے فاطمیوں سے عراق (اِربل و موصل) کے سنّیوں تک
عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا، وہ اگرچہ خلیفہ افضل بن امیر الجیوش نے اپنے عہد ِحکومت میں ختم کردیا مگر اس کے مضر اثرات اطراف واکناف میں پھیل چکے تھے۔ حتیٰ کہ رافضی شیعوں سے سخت عداوت رکھنے والے سنی بھی ان کی دیکھا دیکھی عیدمیلاد منانے لگے۔ البتہ سنیوں نے اتنی ترمیم ضرور کرلی کہ شیعوں کی طرح میلادِ علی، میلادِ حسن و حسین وغیرہ کی بجائے صرف میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر زور دیا۔ چنانچہ ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المعروف ابوشامہ کے بقول : ’’وکان أول من فعل ذلک بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا أحد الصالحین المشھورین وبہ اقتدی فی ذلک صاحب إربل وغیرہ‘‘ (الباعث علی انکار البدع والحوادث ص۲۱) ’’(سنیوں میں سے) سب سے پہلے موصل شہر میں عمر بن محمد ملا نامی معروف زاہد نے میلاد منایا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی ’اربل‘کے حاکم نے بھی (سرکاری طورپر) جشن میلاد منانا شروع کردیا۔‘‘
اربل کا یہ حاکم ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن بکتیکن بن محمد تھا جو مظفر الدین کوکبوری کے لقب سے معروف تھا۔ ۵۸۶ ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے اربل کا گورنر مقرر کیا مگر یہ بے دین، عیاش اور ظالم و سرکش ثابت ہوا جیسا کہ یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ : ’’یہ گورنر بڑا ظالم تھا، عوام پر بڑا تشدد کرتا، بلا وجہ لوگوں کے اَموال ہتھیالیتا اور اس مال ودولت کو غریبوں، فقیروں پر خرچ کرتا اور قیدیوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتا
اور ایسے ہی شخص کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ
کساعیۃ للخیر من کسب فرجھا
لک الویل لا تزنی ولا تتصدقی
’’یہ تو اس عورت کی طرح ہے جو بدکاری کی کمائی سے صدقہ خیرات کرتی ہے۔ اے بدکار عورت! تیرے لئے ہلاکت ہے۔نہ تو زنا کر اور نہ ایسی گندی کمائی سے صدقہ کر۔‘‘ (معجم البلدان:ص۱۳۸، ج۱)
اسی ’صاحب ِاربل‘ ہی کے بارے میں امام سیوطی رقم طراز ہیں کہ ’’وأول من أحدث فعل ذلک صاحب إربل الملک المظفر أبوسعید کوکبوري‘‘ (الحاوی للفتاوی: ص۱۸۹ ج۱) ’’سب سے پہلے (اربل میں) جس نے عید ِمیلاد کی بدعت ایجادکی، وہ اربل کا حاکم الملک المظفر ابوسعید کوکبوری تھا۔‘‘
شاہِ اربل بدعت ِمیلاد کا انعقاد کس جوش و خروش اور اہتمام و انصرام سے مناتا تھا، اس کا تذکرہ ابن خلکان نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’’محرم کے شروع ہوتے ہی بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار، نصیبین اور عجم کے شہروں سے فقہا، صوفیا، وعظا، قرأ اور شعرا حضرات اربل آنا شرو ع ہوجاتے اور شاہ اربل مظفرالدین کوکبوری ان ’مہمانوں‘ کے لئے چار چار، پانچ پانچ منزلہ لکڑی کے قبے تیار کرواتا۔ ان میں سب سے بڑا قبہ اور خیمہ خود بادشاہ کا ہوتا اور باقی دیگر ارکانِ حکومت کے لئے ہوتے۔ ماہِ صفر کے آغاز میں ان قبوں اور خیموں کو خوب سجا دیا جاتا اور ہر قبے میں آلاتِ رقص و سرود کا اہتمام کیا جاتا۔ ان دنوں لوگ اپنی کاروباری اور تجارتی مصروفیات معطل کرکے سیرو تفریح کے لئے یہاں جمع ہوتے۔ حاکم وقت ہر روز عصر کے بعد ان قبوں کی طرف نکلتا اور کسی ایک قبے میں رقص و سرود کی محفل سے لطف اندوز ہوتا۔ پھر وہیں محفل میں رات گزارتا اور صبح کے وقت شکار کے لئے نکل جاتا، پھربو قت ِدوپہر اپنے محل میں واپس لوٹ آتا۔ عید ِمیلاد تک شاہِ اربل کا یہی معمول رہتا۔ ایک سال ۸ ربیع الاول اور ایک سال ۱۲ربیع الاول کو عیدمیلاد منائی جاتی۔ اس لئے کہ (اس وقت بھی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ عیدمیلاد سے دو دن پہلے شاہِ اربل اونٹوں، گائیوں اور بکریوں کی بہت بڑی تعداد اور طبلے، سارنگیاں وغیرہ کے ساتھ میلاد منانے نکلتا اور ان جانوروں کو ذبح کرکے شرکائے میلاد کی پرتکلف دعوت کی جاتی۔‘‘ (وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان لابن خلکان : ص۱۱۷ ج۴)
سبط ابن جوزی کا بیان ہے کہ ’’اس بادشاہ (کوکبوری) کے منعقد کردہ جشن میلاد کے دستر خوان پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے اس نے دستر خوان پر ۵ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ۱۰۰ گھوڑے، ایک لاکھ پیالے اور ۳۰ ہزار حلوے کی پلیٹیں شمار کیں۔ اس کے پاس محفل میلا دمیں بڑے بڑے مولوی اور صوفی حاضر ہوتے جنہیں وہ خلعت ِفاخرہ سے نوازتا، ان کے لئے خیرات کے دروازے کھول دیتا اور صوفیا کے لئے ظہر سے فجر تک مسلسل محفل سماع منعقد کراتا جس میں وہ بذاتِ خود شریک ہوکر رقصکرتا۔ ہر سال اس محفل میلاد پر یہ بادشاہ تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔‘‘ (مرآۃ الزمان: ص۲۸۱ ج۸)
بدعت ِمیلاد اور نفس پرست علمآء
بدعت ِمیلاد جب شیعوں سے سنّیوں اور سنّیوں کے بھی بادشاہوں میں رائج ہوگئی تو اب ان بادشاہوں کے خلاف آواز حق بلند کرنا یا دوسرے لفظوں میں ان کے بدعات و خرافات پر مذمت کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس پرطرہ یہ کہ بعض خود غرض مولویوں نے بادشاہِ وقت کی ان تمام خرافات کو عین شریعت اور کارِ ثواب قرا ر دے دیا۔ چنانچہ عمر بن حسن المعروف ابن دحیہ اندلسی نامی ایک مولوی نے ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ نامی کتاب لکھی جس میں قرآن و سنت کے نصوص کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اور انہیں تاویلاتِ باطلہ کا لبادہ اوڑھا کر عید ِمیلاد کو شرعی امر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور بادشاہِ وقت سے ہزار دینار انعام حاصل کیا۔ (ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ۱۳/۱۲۴/وفیات الاعیان: ۴/۱۱۹/الحاوی للفتاوی: ۱/۱۸۹)
واضح رہے کہ اس ابن دحیہ اندلسی کو محدثین نے ضعیف اور ناقابل اعتماد راوی قرار دیا ہے مثلاً امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ متہم (جس پر جھوٹ کاالزام ہو) راوی ہے۔ (میزان الاعتدال :۳/۱۸۶) اسی طرح حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ
’’یہ ظاہری مذہب کا حامل تھا۔ ائمہ کرام اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ خبیث اللسان، احمق، شدید متکبر، دینی اُمور میں کم علم اور بے عمل شخص تھا۔‘‘ (لسان المیزان:ص۲۹۶/ ج۴)
بدعت ِمیلاد برصغیر (لاہور) میں!
گذشتہ صفحات میں یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ بدعت ِمیلاد چوتھی صدی ہجری (۳۶۱ھ) میں مصر کے فاطمیوں (غالی شیعہ) نے ایجاد کی پھر چھٹی صدی ہجری میں سنیوں میں بھی یہ رواج پاگئی۔ تاہم گردشِ ایام کے ساتھ یہ بدعت طبعی موت مرگئی۔ پھر برسوں بعد برصغیر میں انگریز کے آخری دور میں یہ دوبارہ زندہ ہوگئی۔
اس لئے کہ برصغیر کی عیسائی حکومت ہر ۲۵ دسمبر کوسرکاری سطح پر حضرت عیسیٰ کے یومِ ولادت کا جشن مناتی تھی جس کی دیکھا دیکھی بعض کم علم مسلمانوں نے حب ِنبوی کے احساس سے اپنے طور پر عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا شروع کردی۔ اگرچہ بعض لوگ بدعت ِمیلاد کے قلابے اکبر دور سے ملاتے ہیں مگر معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ عیسائیوں کے کرسمس کے ردعمل میں مسلمانوں نے عید ِمیلاد کو رواج دیا۔
اس سلسلے میں درج ذیل دو تاریخی حوالے قابل توجہ ہیں:
1۔روزنامہ ’کوہستان‘ ۲۲ جولائی ۱۹۶۴ء میں احسان بی اے ’لاہور میں عیدمیلاد النبی ‘ کی سرخی کے تحت لکھتے ہیں کہ
’’لاہور میں عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس سب سے پہلے ۵ جولائی ۱۹۳۳ء مطابق ۱۲ربیع الاول ۱۳۵۲ھ کونکلا۔ اس کے لئے انگریزی حکومت سے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیاتھا۔ اس کا اہتمام انجمن فرزندانِ توحید موچی دروازہ نے کیا۔ اس انجمن کامقصد ہی اس کے جلوس کا اہتمام کرنا تھا۔ انجمن کی ابتدا ایک خوبصورت جذبہ سے ہوئی۔ موچی دروازہ لاہور کے ایک پرجوش نوجوان حافظ معراج الدین اکثر دیکھاکرتے تھے کہ ہندو اور سکھ اپنے دھرم کے بڑے آدمیوں کی یاد بڑے شاندار طریقے سے مناتے ہیں اور ان دنوں ایسے لمبے لمبے جلوس نکلتے ہیں کہ کئی بازار ان کی وجہ سے بند ہوجاتے ہیں۔ حافظ معراج الدین کے دل میں خیال آیا کہ دنیا کے لئے رحمت بن کر آنے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں اس سے بھی زیادہ شاندار جلوس نکلنا چاہئے … انہوں نے ایک انجمن قائم کی جس کا مقصد عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس مرتب کرنا تھا۔ اس میں مندرجہ ذیل عہدیدار تھے: (۱) صدر: مستری حسین بخش (۲) نائب صدر: مہر معراج دین (۳) حافظ معراج الدین (۴)پراپیگنڈہ سیکرٹری: میاں خیر دین بٹ (بابا خیرا) (۵) خزانچی: حکیم غلام ربانی… اشتہارات کے ذریعہ جلوس نکالنے کے ارادہ کو مشتہر کیا گیا۔ چست اور چاق و چوبند نوجوانوں کی ایک رضا کار جماعت بنائی گئی اور جگہ جگہ نعتیں پڑھنے کاانتظام کیا گیا… الخ‘‘
2۔روزنامہ ’مشرق‘ مؤرخہ ۲۶ جنوری ۱۹۸۴ء (۱۲ ربیع الاول ۱۴۰۴ھ) میں مصطفی کمال پاشا (صحافی)’’لاہور میں ۱۲ ربیع الاول کا جلوس کیسے شروع ہوا؟‘‘ کی سرخی کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’آزادی سے پیشتر ہندوستان میں حکومت ِبرطانیہ ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسیٰ کے یوم پیدائش کوبڑے تزک و احتشام کے ساتھ منانے کا انتظام کرتی اور اس روز کی فوقیت کو دوبالا کرنے کے لئے اس دن کو ’بڑے دن‘ کے نام سے منسوب کیا گیا … تاکہ دنیا میں ثابت کیا جاسکے کہ حضرت مسیح ہی نجات دہندہ تھے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲ ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے اور اسی روز وفات پائی۔ کچھ لوگ اس یومِ مقدس کو ’۱۲ وفات‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ آزادی سے پیشتر اس یوم کے تقدس کے پیش نظر مسلمانانِ لاہور نے اظہارِ مسرت و عقیدت کے طور پر جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا… ان دنوں کانگریس اپنے اجتماع موری دروازہ میں منعقد کیا کرتی تھی اور اس کے مقابلہ میں مسلمان اپنے اجتماع موچی دروازہ لاہورمیں منعقد کرتے تھے، لہٰذا موچی دروازہ کو سیاسی مرکز ہونے کے علاوہ سب سے پہلے عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس نکالنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ علمی طور پر اس کی قیادت انجمن فرزندانِ توحید موچی گیٹ کے سپرد ہوئی۔ جس میں حافظ معراج دین… وغیرہ شامل تھے۔
’’ انجمن کی زیر قیادت جلوس کو دلہن کی طرح سجایا جاتا۔ جلوس میں شامل نوجوانوں پرپھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں۔ سیاسی اور سماجی کارکنوں کے علاوہ جلوس کے آگے پہلوانوں کی ٹولی بھی شمولیت کرتی۔‘‘
واضح رہے کہ روزنامہ کوہستان نے انجمن فرزندانِ توحید کے عہد یداران کی تصاویر اخبارِ مذکور میں شائع کیں اور روزنامہ مشرق نے اس لائسنس کا عکس بھی شامل اشاعت کیا جو (میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس کی اجازت کے لئے) حکومت ِبرطانیہ سے حاصل کیاگیاتھا۔علاوہ ازیں مذکورہ اخبارات کی فوٹو سٹیٹ تحریریں ماہنامہ ’حرمین‘ جامعہ علوم اثریہ، جہلم کے ادارہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔
بدعت ِعید میلاد سے متعلقہ شبہات کا ازالہ اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ
عیدمیلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک تو باقی نہیں رہ جاتا مگر اس کے باوجود بعض علما اسے کسی نہ کسی طرح شرعی لبادہ پہنانا چاہتے ہیں خواہ اس کے لئے انہیں قرآنی آیات میں کھینچا تانی کرنا پڑے یاکفار (ابولہب وغیرہ) کے عمل سے استدلال کرنا پڑے مگر حق بہرحال حق ہے جوباطل کی ملمع سازیوں کے باوجود آخر کار نکھر ہی آتا ہے۔ اس لئے آئندہ سطور میں بدعت ِمیلاد کو جائز قرار دینے والوں کے دلائل کاجائزہ پیش کیا جاتا ہے :
قرآنی دلائل
…
مضمون نگار نے قوی دلائل کیساتھ میلاد النبی کو بدعت ثابت کیا ہے ۔تاہم دلائل سے قطع نظر ضرورت اس بات کی ہے عاشقان رسولؐ کو پیرویء رسول پر آمادہ کیا جائے۔نظریے سے عمل کا تعلق منقطع کرنے کی شیطانی سازش کا علاج محبت رسول ؐ کی اس لہر کو درست سمت دی جائے ۔تاکہ اس سے مفید و کار آمد بنایا جا سکے۔عشق رسول سے سرشار تمام تاجر ایمانداری،حکمران سچائی، جج انصاف، نوجوان جرت و بہادری، کا عہد کریں تو دیکھیں شیطان کو کس طرح یہ میلاد کھٹکنے لگے گا مگر جب تک مسلمان آپس میں اس کے درست ہونے یا نہ ہونے پر بحث و مباحثہ کرکے الجھتے رہیں گے۔وہ خوش ہوتا رہے گا۔
مضمون بہرحال بہت قوی دلائل رکھتا ہے جزاک الله خیر۔