عید کے دن
یہ بحث کافی توجہ طلب ہے ان ممالک میں جہاں مسلمان قلیل تعداد میں ہیں ، انکی عادات و اطوار اور انکے تہواروں کا کافی دلچسپی سے جائزہ لیا جاتا ہے تو یہاں پر عید اور رمضان کے چاند اور اسپر تفرقات کا خصوصی جائزہ لیا جاتا ہے اور اکثر کافی مزاق بنتا ہے کہ یہ کیسی قوم ہے جو ایک روز تہوار منانے پر ہی متفق نہیں ہوتی تو دنیا میں باقی فرائض کیسے انجام دے سکتی ہے ؟ جب ڈاکٹر مزمل صدیقی صاحب نے جنکا تعلق اثناISNA
سے ہے پہلا اسلامی کیلنڈر بنایا اکنا اور مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن بھی انکے ساتھ شامل ہوئے،انہوں نے اس سلسلے میں بڑی اچھی مثالیں دیں انہوں نے بتایا کہ گھڑی کے ایجاد سے پہلے سورج اور سایوں کے گھٹنے بڑھنے سے نمازوں کے اوقات کا تعیئن ہوتا تھا گھڑی کی ایجاد یا استعمال کے بعد یہ متروک ہوگیانمازوں کے اوقات اب گھڑی کے
حساب سے ہیں اسی طرح اس جدید سائنسی دور میں ہم بخوبی جانتے ہیں کہ آج نیا چاند طلوع اور غروب ہوگا لیکن جو لوگ اپنی آنکھ سے چاند دیکھنے پر اصرار کرتے ہیںوہ ان دلائل کے قائل نہیں ہیں پاکستان میں رویئت ہلال کمیٹی چاند کا اعلان کرتی ہے جسکو کبھی بھی پختونخواہ والے تسلیم نہیں کرتے ہمیشہ وہ ایک روز پہلے روزہ رکھتے ہیں اور ایک روز پہلے عید مناتے ہیں ہمارے بچپن میں اور اب بھی یہی طریقہ کار ہیامریکہ اور کینیڈا میں اکثر اسکول والے کافی پریشاں ہوتے ہیں اور والدین کو بھی کافی خجالت ہوتی ہے جب انکو مختلف دنوں کے عیدین کا علم ہوتا ہے اور اسکے حساب سے بچوں کو چٹھیاں دیتے ہیں اسطرح ایک ھی شھر میں ایک گھر میں عید اور ایک میں روزہ ہوگا عربی لوگ زیادہ تر سعودی عرب کے ساتھ مناتے ہیں ترمزی صاحب بالکل درست فرمارہے ہیں مختلف ھال اور کنونشن سنٹر وغیرہ کی بکنگ کرنی پڑتی ہے اور اگر عید ویک اینڈ پر ہو تو دوسرے مشاغل کی بکنگ بھی کی جاتی ہے اکثر تفریح گاہوں وغیرہ کو مسلمانں کے لئے بک کردیا جاتا ہے اسطرح ریستوران وغیرہ اگر مسلمانوں
کے ہوں تو وہ اس مسئلہ سے بخوبی واقف ہوتے ہیں
لیکن کافی مسائل اور جگ ہنساء ہوتی ہے- ہم تو انمیں سے ہیں کہ جب سنا کہ عید منائی جارہی ہے تو ضرور مناتے ہیں اور پنے اہل خانہ کو بھی اصرار کرواتے ہیں کیونکہ عید !کے روز شیطان کا روزہ ہوتا ہے-
والسلام