عین الیقین یا علم الیقین
امین ترمذی ڈیلس امیریکہ
چاند یوں تو ہر سال بارہ مرتبہ نکلتا ہے لیکن اس پر گفتگو صرف رمضان اور عید کے موقع پر ہوتی ہے۔ مختلف اختلافات، مباحثے ، کمیونیٹی میں تفرقہ عید پر ہوتا ہے ۔ دو عید یں ہر سال ہوتی ہیں ۔ جانے کیوں؟ گو کہ اس میں ہمیں متعدد مقامات پر مذاق کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔میرے پاس آسٹریلیا سے ایک ای میل آئی جہاں کسی شہر میں مسلمانوں کی کثیر تعداد آباد ہے وہاں لوگوں نے شہر کے میر سے درخواست کی کہ عید کی آفیشل چھٹی ہونی چاہئے جس پر میر کا جواب تھا کہ پہلے آپ لوگ عید کے دن کا تو فیصلہ کرلیں ۔
بچّے اپنے اسکول میں بتاتے ہیں کہ شاید کل یا پرسوں ہمارا مذہبی تہوار ہے جس کی ہمیں چھٹی چاہئے تو ٹیچر حیرت سے پوچھتی ہے کہ کیا؟ کل یا پرسوں یہ تو بڑی فنی بات ہے اور بچّہ سوچنے لگتا ہے کہ ممّی کا مذہب بڑا فنی ہے۔
عید کی نماز کا انتظام کرنے کے لئے کنونشن سینٹر یا بڑے ہال کا انتظام کرنے کے لئے ہمیں دو دن کے پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں ۔
سیکیورٹی کے انتظام کے لئے پولیس کا انتظام کرنے میں دوہری فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔
ایک شخص دوسرے سے گلے ملنا چاہتا ہے تو دوسرا روک دیتا ہے کہ میری عید کل ہوگی یہ کل یا پرسوں کی کِل کِل آخر کب تک ؟
کوئی پانچ سال قبل امریکہ کی ایک بہت بڑی اسلامی تنظیم”اکنا” جس میں کئی درجن ڈاکٹریٹ ، عالم ، محققین ،دانشور شامل ہیں ۔ انہوں نے محکمہء موسمیات ، فلکیات اور دینا کی سب سے بڑی سیّارگان کی نقل و حرکت کی مستند لیبارٹری “ناسا ” کے محققین کے مشورے سے چاند کی نقل و حرکت اور ہلّٰہ کے ہلال اور پھر چاند بننے کے مدارج کی تفصیل جاننا چاہی اور پھر اجتماعی طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا ایک طے شدہ حساب ہے۔ جس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے اور پھر انہوں نے اس علم کی بناء پر چاند کے ظہور کی مستند تاریخ کا اعلان کردیا اور گذشتہ پانچ سال سے کئی مساجد اُن کے بتائے ہوئے ہوئے دن عید یا رمضان کا اعلان کردیتے ہیں اورہم ایک بہت بڑی دشواری سے بچ گئے ہیں لیکن ابھی بھی ایک بڑی تعداد اس سے اتفاق نہیں کرتی اور ہر سال ایک چپقلش رہتی ہے اُن کا زور اس بات پر ہے کہ حدیث شریف ہے کہ چاند دیکھ کر عید کرو۔ ہمیں اس سے اختلاف نہیں ہے لیکن ہمارا کہنا ہے کہ دیکھنے کا تعلق صرف آنکھ سے نہیں ہے دنیا کی بہت سی چیزوں کا وجود ہیں علم سے حاصل ہوتا ہے اور ہم اس پر یقین کرتے ہیں ۔ خدا کو آنکھ سے نہیں دیکھا لیکن علم ہمیں اس کے وجود کا پتہ دیتا ہے علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ فلاں جگہ طوفان آنے والا ہے دس بارہ فٹ تک کی اونچی لہریں اُٹھیں گی اور شہر جل جل تھل ہو جائے گا تمام لوگ سارے کام چھوڑ کر نقلِ مکانی اختیار کرتے ہیں کوئِ نہیں کہتا کہ میں لہریں آنکھ سے دیکھ کرجاوں گا کیونکہ اس میں جان کا خطرہ ہے اور کوئی شخص جان کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا یہاں ہم علم کی بالا دستی پر یقین کرتے ہیں ۔
کبھی کسی مریض کر بالکل الگ جگہ منتقل کردیا جاتا ہے کہ اس کے پاس ایسے جراثیم ہیں جو دوسرے لوگوں کے لئے جان کا خطرہ ہیں ۔ اس کے پاس تیمارداری کرنے اور نرس و ڈاکٹر مختلف احتاطی لباس اور تدابیر کے بعد جاتے ہیں ۔ اُس مریض کے جسم سے کوئی جراثیم اُڑتے ہوئے نہیں دکھائی دیتے ہیں کوئِ ایسی مختلف چیز آپ کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن علم ہم کو اُن کے وجود کا پتہ دیتا ہے ۔ تو کیا ہوا علم کی آنکھ کے دیکھنے پر برتری۔
علم ہمیں بتاتا ہے کہ فلاں ایریا یا علاقہ ریڈیو ایکٹیو ہے اور وہاں پر فلاں قسم کے لوگوں کا جانا نقصان دہ ہے اُس علاقے میں ہمیں کوئی لہریں ، کوئی چمک ، کوئی رنگ نظر نہیں آتا لیکن علم ہمیں اس کا پتہ دیتا ہے اور ہم اس سے پرہیز کرتے ہیں ۔
پس ثابت ہوا کہ علم الیقین عین الیقین پر حاوی ہے اور علم کی بالا دستی مستند ہے اور اگر علم ہمیں آج شام چاند کے ظہور کی اطلاع دیتا ہے تو ہمیں یقین نہیں ہے ۔
روزہ جو کہ فرض ہے اور مقررہ وقت پر کھولا جاتا ہے کہ جب سورج غروب ہو تو روزہ افطار کرلو ۔ہم میں سے کتنے لوگ سورج کو غروب ہوتا ہوا دیکھتے ہیں ایک فیصد بھی نہیں اور سب اس چارٹ کو دیکھ کر روزہ کھولتے یا شاید توڑ دیتے ہیں جو ہمارے پنساری نے چھپواکر بھیجا ہے یہاں ہم سورج کو ڈوبتا ہوا کیوں نہیں دیکھتے ؟ کہ ہمیں علم کی بالا دستی تسلیم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ وقت درست ہے ۔ یہاں امیریکہ میں ہر مسجد میں ایک چارٹ لگاہوتا ہے جس میں سال بھر کے نماز کے اوقات درج ہوتے ہیں کوئی نہیں کہتا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ اگلے سال جون کی بارہ تاریخ کو سورج ساڑھے آٹھ بجے طلوع ہوگا اور ساڑھے آٹھ بجے غروب ہوگا۔ یہاں علم کی بالا دستی تسلیم ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کلامِ الہٰی “قرآن مجید ” کیا کہتا ہے جو بہر حال کلامِ الہٰی ہونے کے سبب حدیث شریف سے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس کی کوئی سطر کوئی لفظ ضعیف نہیں ہے ۔سورۃ رحمٰن کی پانچویں آیت میں آتا ہے کہ “والشمس و والقمرُ بہ حُسبان ” یعنی چاند اور سورج کا ایک حساب مقرر ہے اور قرآن کے لفظ بحُسبان کا مطلب ہے “حساب” اور حساب کبھی تبدیل نہیں ہوتا کبھی دو اور دو پانچ نہیں ہو سکتے نہ اِس سال نہ آئندہ سال ۔ تو آخر ہم اُس علم پر کیوں توجہ نہیں دے رہے جس کا اقرار قرآنِ کریم کررہا ہے۔ اور اگر کچھ دینی علماء دوسرے محققینِ علم سے استفادہ کرتے ہوئے اُس حساب کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں تو آمنّہ و صدّقنہ کہنا چاہئے اور ایک ایسی چیز کو ختم کرنا چاہئے آپس کے اختلاف کو ختم کرکے ایک ہم آہنگی،دوستی اور برادری کا بیج بونا چاہئے ۔ اُمید ہے تمام اہلِ ایمان کھلے دل سے میری بات پر غور کریں گے اور اتفاق اور محبت کی صورت پیدا ہوگی شکریہ ۔
—