غزل اس نے چهیڑی مجهے ساز دینا….

صدف مرزا

فیض محل پر قلم کشائی کے فیض سے جناب سید سلطان عباس کے نیاز حاصل ہوئے اور ان کے ساتھ گفت و شنید نے وہ خوبصورت یاداشتیں عطا کیں جو کہیں کتابوں میں نہ مل سکیں گی.

انہوں نے 1955 کے خیرپور کی فصائوں سے چن چن کر گوہر تابدار کی جهلک پیش کی.
ان کی اپنی تعلیم مشہور سکول ناز حئی سے ہوئی.
اس وقت خیر پور ریاست کے والی میر علی احمد خان تالپور
اور ریاست کے وزیر ممتاز حسین قزلباش تحصیلِ علم اور ترسیل علم کے دلدادہ تھے.

ممتاز کالج خیرپور کو ان کے جزبے اور جنون کی وجہ سے ملک گیر شہرت حاصل ہوئی.
انہوں نے صرف معیار کی بنیاد پر ملک بهر سے تراشیدہ جواہر منتخب کیے.

1955 میں یہاں پانچ پی ایچ ڈی اساتذہ موجود تهے جن میں

ڈاکٹر اظہر حسین

پروفیسر کرار حسین

جیسی جید شخصیات شامل تهیں جہنوں نے اپنے شاگردوں کے دلوں میں ڈگریوںاور عہدوں کی نہیں حصولِ علم کی جوت جگائی.

ان کا کہنا ہے کہ انفرادی طور پر شاگردوں کے زوق و شوق پر نظر رکهنا ان کی حوصلہ افزائی کرنا ان اساتذہ کے جسم میں لہو کے ساتھ گردش کرتا تها.

سید سلطان عباس واقعات سناتے جا رہے اور میں دم بخود زہنی طور پر ان زریں دنوں کو اپنے سامنے تصور کے پردے پر جیسے

سلائیڈ شو کی صورت دیکھ رہی تهی.

اساتذہ کی روشنیاں بکهیرتی دم بدم بڑهتی کہکشاں اور سندھ کے قرب و جوار سے تشنگانِ علم اس چشمئہ حیات کے کنارے جمع ہو رہے تهے.

اذہان کی آبیاری ہو رہی تهی اور مستقبل کے معمار تیار ہو رہےتهے.

اس زمانے میں خیرپور کتب خانے میں بهی ایک دنیا آباد تهی.

لوگوں کا زوق- مطالعہ انہیں کشاں کشاں کتابوں کے جہان میں لے جاتا اور علم و ادب پر ہزارہا کتابیں موجود تهیں جو زبان بے زبانی سے زندگی کے بہترین اسباق پڑهانے میں مشغول تهیں.

خود سید سلطان عباس نے آٹهویں جماعت سے اردو ادب کا مطالعہ شروع کیا.

لائبریرین سے کتاب مانگی تو اس نے امتحان لینے کے انداز سے کہا ..

کہ منٹو کے افسانوں کی کتاب لے جا رہے ہو..
جب واپس کرو گے تو اپ سے کہانیوں کے نام پوچهوں گا.

شوقِ مطالعہ کو اس تقاضے نے مہمیز کیا اور کتاب واپس کرتے ہوئے وہ اس آزمائش سے بخوبی گزر گئے

دسویں جماعت کے بعد دو کتابیں لینے کی اجازت ہوتی سو اس طرح دو ڈهائی مہینے میں دو تین سو کتب کے مطالعے کا موقع مل گیا.
گفتگو کے دوران موجودہ زمانے کی درس و تدریس کا ذکر چلا…آج کے معیار تعلیم کا تذکرہ بهی ہوا اور مایوس کن کارکردگی اور صورتِحال پر تاسف بهی ہوا کہ اب محض تعلق داریاں ‘ نسبتیں اور سفارشات کی وجہ سے ملازمتیں اور مناصب بانٹے جاتے ہیں.

اپنا تبصرہ لکھیں