غلامی کی طرف ایک اور قدم
مسعود انور
سب سے پہلے دو خبریں جن کا تذکرہ پاکستانی میڈیا پر یا تو آیا نہیں اور اگر آیا بھی تو اتنا
دبا ہوا تھا کہ کسی نے اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔دیکھنے میں ان خبروں کا تعلق پاکستان
کے ساتھ کوئی نہیں ہے مگر ان کو تفصیل کے ساتھ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کا تعلق
نہ صرف پاکستان کے ساتھ ہے بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے ساتھ ہے۔
سب سے پہلی خبر: امریکی صدر اوباما کا ہیلتھ کیئر بل جس پرانہوں نے 2010ء میں
دستخط کرکے اس کو قانون کی شکل دی تھی، اس برس 23 مارچ سے رو بہ عمل
ہوجائے گا۔ اس قانون کے تحت امریکی شہریوں کے الٹے ہاتھ کی پشت پر ایک مائیکرو
چپ لگائی جائے گی۔ اسchip کے لگتے ہی مذکورہ شخص کا رابطہ ایک مرکزی نظام
سے جڑ جائے گا۔ اس بل میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے امریکی شہریوں کی قیمتی جان
بچانے میں مدد ملے گی۔ اس چپ میں اس شخص کا سارا ڈیٹا ہوگا۔ جیسے ہی اس شخص
کی صحت میں کوئی خرابی رونما ہونی شروع ہوئی یعنی اس کے دل نے گڑ بڑ شروع
کردی یا اس کا شوگر لیول اوپر نیچے ہوا، فوری طور پر قریبی ریسکیو سسٹم ازخود
خبردار ہوجائے گا اور اس کو فوری طور پر مدد فراہم کردی جائے گی۔ شروع میں جب یہ
بل منظور ہوکر قانون بنا تھا ، کہا جارہا تھا کہ اس چپ کو جسم میں نصب کرنا لازمی
ہوگا اور نومولود امریکی بچوں کو اسپتال سے ہی لگا کر گھر روانہ کیا جائے گا۔ تاہم اب
بتایا گیا ہے کہ اس چپ کی تنصیب لازمی نہیں ہے بلکہ یہ رضاکارانہ ہے۔ تاہم وقت کے
ساتھ ساتھ اس کے ساتھ ایسی شرائط عائد کردی جائیں گی کہ اس کو لگوانا لازمی ہی
ہوجائے گا۔ جیسا کہ اس کے بغیر ڈرائیونگ لائسنس نہیں دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
اب دوسری خبر: برطانوی حکومت نے کتوں کے مالکان کو ہدایت کی ہے کہ ایسی ہی
chip وہ اپنے پالتو کتوں میں لگوالیں ۔ اگر تین سال میں وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو
ان کو پانچ سو پاؤنڈ اسٹرلنگ کا بھاری بھرکم جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔یہاں پر کہا گیا ہے
کہ اس سے ان کے عزیز کتوں کی گمشدگی کی صورت میں پولیس کے لیے ان کو تلاش
کرنا آسان ہوگا اور اس سے پولیس کے اخراجات میں بھاری بچت بھی ہوگی۔
کہا کچھ بھی جائے مگر یہ واضح ہے کہ مذکورہ مائیکرو چپ جس کو Radio-
frequency identification یا مختصرا RFID کا نام دیا گیا ہے ، اصل میں ٹریکرہے۔
جس جسم میں یہ لگا ہوگا، پولیس کے لیے نہ صرف اس کی جسمانی حرکات کو مانیٹر
کرنا ممکن ہوگا بلکہ وہ مذکورہ شخص کے خیالات مثلا غصہ یا ٹینشن سے بھی آگاہ
ہوسکے گی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ جرم ہونے سے پہلے ہی مجرم کو گرفتار
کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔
یہ تو شروع کے معاملات ہیں۔ اب ذرا چند برسوں کے بعد کا تصور کیجیے۔ مائیکرو چپ
کے بغیر بیرون ملک سفر پر پابندی ہے، آپ بنک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے، بچے کو
اسکول میں داخلہ نہیں ملے گا، نوجوان کو ڈرائیونگ لائسنس نہیں ملے گا وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح ہر شخص مجبور ہے کہ وہ اس چپ کو اپنے جسم میں implant کروائے۔ اس
چپ میں ابھی سے بنک اکاؤنٹ سے لے کر بچوں کی تعداد تک کی ذاتی معلومات شامل
ہیں، بعد میں کیا کچھ نہیں ہوگا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب شخصی آزادی جتنی بھی تھی، ختم ہوئی۔ اب ہم ایک ایسے دور
میں داخل ہورہے ہیں جس میں غلامی براہ راست ہوگی۔ اب ایک عالمگیر حکومت کے قیام
کے داعیوں کے بیانات اور بلیو پرنٹ دیکھیے اور اس ٹکڑے کو اس معمے میں رکھنے
کی کوشش کریں۔
ایک آدمی مسٹر ایکس مجھے پسند نہیں ہے یا میرے خیال میں وہ آدمی ریاست یا ایک
عالمگیر حکومت کا مخالف ہے۔ بس ایک بٹن ہی تو دبانا ہے اور اس آدمی کا دل کام کرنا
بند کردے گا۔ لیجیے آرام سے جان چھوٹ گئی۔
آبادی کو کنٹرول کرنا ہے۔ نمبر دبادیے، کمپیوٹر نے ازخود ان لوگوں کو بتدریج موت کے
گھاٹ اتارنا شروع کردیا۔ کتنے بچے درکار ہیں، کس عمر کے کتنے لوگوںکو زندہ رہنا
چاہیے۔ کس ٹریڈ میں کتنے ورکر اور کہاں پر ضروری ہیں اور کہاں پر نہیں، یہ سب اب
مسئلہ ہی نہیں رہا۔ انسانی قوت کو پہلے سے ہی human resource قرار دے دیا گیا ہے
یعنی یہ بھی سونے چاندی کی طرح کی ایک جنس ہے۔ اب اس جنس کو دیگر اجناس ہی
کی طرح کنٹرول کیا جائے گا۔
اب آپ کی ذاتی زندگی یا پرائیویسی کاتصور ہی ختم ہوگیا۔ آپ کے بیڈروم کی زندگی سے
لے کر آپ کے منتشر خیالات تک سرکار کے کمپیوٹر پر ریکارڈ ہورہے ہیں۔
جس طرح انٹر نیٹ کے ذریعے آپ کے ذاتی اور تمام محکماتی وحکومتی معاملات اب
دجالِ وقت کے علم اور دسترس میں ہیں
ایک مرتبہ پھر جان لیجیے، ایک عالمگیر حکومت کے قیام کا مقصد اس کرہ ارض پر
انسانوں کو شیطان کا غلام بنانا ہے۔ اس سازش سے خود بھی خبردار رہیے اور اپنے آس
پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
مسعود انور