حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہترین نمونہ اور تربیت کی اعلیٰ مثال تھے۔انسان ہونے کی حیثیت سے ان سے غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہوئیں،مگر وہ غلطی پر اسرار کرنے کے بجائے ہمیشہ اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے تھے اور فوراً اصلاح احوال کی فکر کرتے تھے۔اپنی غلطی کو چھپانے کے بجائے کھلے عام اس کا اعتراف اور اپنے موقف سے رجوع رضی اللہ عنہ کا وطیرہ تھا۔رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ کیا تو اس پر سبھی مسلمان ظاہرے طور نا خوش اور مایوس ہوئے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر رسوللہ کے سامنے کچھ سوالات بھی پیش کیے۔جن کا ذکر حضرت کثیر نے اپنی تفسیر میں تفصیل سے لکھا ہے۔بعد میں حضرت عمر کو احساس ہوا تو ر سول اللہ ﷺ سے معافی مانگی اور پھر زندگی بھر اس واقعہ پراستغفار کرتے رہے۔)صفحہ ۴۷(
اقتباس شہیدالمحراب
عمر بن الخطاب عمر تلمسانی
ترجمہ حافظ محمدادریس
آج ہم اس واقعہ کی روشنی میں خود کو دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟