غیر ملکیوں اور نارویجنوں سے یکساں توقعات
ہمیں تارکین وطن سے بھی وہی توقعات وابستہ کرنی چائیں جو ہم نارویجنوں سے کرتے ہیں۔اس بات کا تعلق ناروے میں برابری کے حقوق اور برابری کی پریکٹس سے ہے۔یہ بات بچوں او برابری کے حقوق کے شعبہ کے اسٹیٹ سیکرٹری شیتل آندریاس نے کہی۔ہر جوڑا کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔کئی غیر ملکی تین سالہ قانون سے مستفید ہو رہے ہیں۔مشیر برائے حکومت انگا میٹا نے یہ جرآت مندانہ قدم اٹھایا ہے کہ ایسے مسائل اسمبلی میں بحث کے لیے موضوع گفتگو ہوں۔بچوں کے ساتھ تشدد کا سلوک کرنے والے نزدیکی رشتہ داروں کا تدارک کرنا چاہیے۔اس کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ بچوں کے ساتھ ان افراد کے تعلقات بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جائے۔اسی لیے ہمیں اپنی توجہ آنے والے وقت پر مرکوز کرنی چاہیے۔برابری کے حقوق دینے والا معاشرہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر جانبدارانہ سلوک کی مکمل چھٹی دے دی جاتی ہے۔عورتیں بچے اور مرد سب اپنے قریبی عزیزوں کے نا مناسب اور جارحانہ سلوک کا نشانہ بن سکتے ہیں۔آدمی اور عورتیں دونوں ان سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔حقائق بتاتے ہیں کہ عورتیں ذیادہ تر اپنے شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی یہ دیکھا گیا ہے کہ عورتیں ہی ذیادہ تر تشدد کے واقعات میں ملوث ہوتی ہیں جو وہ بچوں پر کرتی ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ برابری کے حقوق میں صنف کی جانب سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔نارویجن حکام تارکین وطن کے مختلف گروہوں سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو کہ نارویجنوں سے کرتے ہیں۔یہ نارویجن معاشرے میں برابری کے حقوق کا حصہ ہے۔یہ نارویجن اسٹیٹ کا مقصد ہے کہ تارکین وطن خواتین میں تشدد کے جو واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں انہیں ختم ہونا چاہیے۔ہم سب کو مل کر برابری کے حقوق کے لیے کوشش کرنی چاہییاور اپنے فرائض و حقوق سے سب کو آگاہ کرنا چاہیے۔