فتنہ گر مولویوں کا بائیکاٹ ضروری

آصف پلاسٹک والا
محرم الحرام مسلمانوں کا نیا سال ہے اس مہینے میں امام حسن حسینکی شہادت بھی ہوئی۔ مسلم علاقوں میں مجلس وعظ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ دور دراز سے مولانا تشریف لاتے ہیں ۔ دس روز مجلس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کا دعوت نامہ دے کر لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے مگر جب وعظ سننے ملت اسلامیہ کے لوگ جمع ہوتے ہیں دو گھنٹے کے وقت ایک گھنٹہ نعت شریف پڑھنے میں گزار دیا جاتا ہے پھر نعرے تکبیر کی آواز گونجتی ہے۔ مولانا تشریف لاتے ہیں، مولانا کے کان میں پہلے ہی پھونک دیا جاتا ہے ، بریلوی جماعت کی آبادی ہے ، مولانا اپنا رنگ دکھانا شروع کردیتے ہیں ، جماعتی مسلک کو مذاق بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ میںنے مولانا کا بیان سُنا فرماتے ہیں کل کی فکر مت کرو ،ہم سے کہتے ہیں کل کی فکر مت کرو اور خود دس دن کے وعظ کا لاکھ روپے لے کر پورے سال کا راشن بھر لیتے ہیں ان کی کیسٹ بکتی ہے وہ الگ کمائی کرتے ہیں یہ اتنی بڑی رقم لے کر ہمارے محلے والوں کے بیچ پھوٹ ڈالنے آتے ہیں فلاں مسجد میں نماز مت پڑھو اس مسلک کا آدمی مرجائے جنازے میں شریک مت ہو ان کے بچوں سے رشتہ طے مت کرو ایسی باتیں قرآن و حدیث میں کہاں لکھی ہوئی ہیں البتہ وعظ کا اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ کسی کی لڑکی بھاگ جاتی ہے ، کسی کا لڑکا اسٹنٹ کرتے ہوئے ایکسیڈنٹ میں مرجاتا ہے ۔کسی کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے ، شادی ٹوٹ جاتی ہے، گلی محلے کے گٹر میں دو فٹ کا قبضہ کرلیا جاتا ہے جس سے ہر کسی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دس سال کا بچہ دس دن تک سبیل کا چندہ فقیروں کی طرح گھر گھر جاکر مانگتا ہے۔کتنے شرم کی بات ہے۔ یوں کہا جائے تو ٹھیک ہوگا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ جیسے جیسے مولانا تقریر کرتے گئے حادثے ہوتے ہی ہیں کیوں کہ مولانا کے سامنے قرآن و حدیث کی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے نزدیک صرف مسلک ہوتا ہے ۔وہ اسلام کی بات نہیں مسلک کی بات کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ کہ مولانا کو تو نہ کربلا کی شہادت کی معلومات ہے نا ان کو معاشرے کی اصلاح کی فکر ہے مولانا صرف اپنی روٹی پر بوٹی کے چکر میں تشریف لاتے ہیں۔ جب مولانا ہی صفر ہیں تو سننے والے بھی صفر اور نتیجہ بھی صفر ہی رہتا ہے۔ آپ لوگوں کو شہادت کربلا کا ذکر کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے، مگر آ پ لوگ جس جگہ ذکر کرتے ہیں وہیں کربلا کا میدان بنانے آجاتے ہیں ۔وہ دن دور نہیں جب مسلکی مولانا کے بیانات سے مسلکی لڑائی چھڑ جائے گی ۔مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا ہو جائے گا۔
ملت اسلامیہ کو چاہیے اگر مجلس کمیٹی وعظ کا انتظام کرتی ہے اور مولانا اگر اصلاح معاشرے اور قرآن حدیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں تو ٹھیک ہے اگر مسلک کو لے کر بیان بازی کریں ، محلے والوں کی بھائی چارگی میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کریں اسلام کی بجائے مسلک پیش کریںتو ملت اسلامیہ کو چاہیے کہ ایسے مولانا کا بائیکاٹ کریں اور ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جائیں اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ یاد رکھیں ایسی مجلس جس میں مسلمانوں کو لڑانے کی بات کی جائے ۔اس سے ثواب کے بجائے عذاب ہی نازل ہوگا اور وہ ہم مشاہدہ کرہی رہے ہیں کہ ہم پر ہر طرف سے عذاب نازل ہورہا ہے ۔آج ہماری حالت مغضوب قوم سی ہو گئی ہے ۔ہمیں چاہئے کہ کچھ ہم بھی آگے بڑھیں خود بھی قرآن و حدیث کی معلومات حاصل کریں ہمیں اپنے کاروبار روز مرہ کے حالات جاننے کے بارے میں فرصت ہے ،لیکن کیا ہم روز ایک گھنٹہ اللہ کی کتاب (قرآن مجید)کو ترجمہ کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے جس سے ہمیں اللہ کی مرضی معلوم ہو اور اوپر ذکر کئے گئے مولویوں کی فتنہ پروروی سے بچنے کا راستہ بھی معلوم ہو۔
آصف پلاسٹک والا
ربانی ٹاور، آگری پاڑہ، ممبئی11-
9323793996

اپنا تبصرہ لکھیں