فرض کس کا ہے ۔

فرحان منہاج
اوسلوfarhan
ہر حکومت کی آئینی ذمہ داری رہی ہے کہ وہ ریاست میں تعلیم کے بہتر انتظامات کرے ۔ ہماری حکومتیں حق حکمرانی تک آئین کاراگ الاپتی ہیں اور اس سے آگے ان کا آئین شروع ہی نہیں ہوتا ۔ تعلیم کسی بھی قوم کے مستقبل کے رستے کا تعین کرتی ہے ۔ تعلیم قوم میں شعور پیدا کرتی اور شعور قوم کو ریاست کے نظام کو نظم میں چلانے میں کام آتا ہے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں آنے والی ہر حکومت چاہے وہ جمہوری ہو ، نیم جمہوری ہو یا پھر آمرانہ ہو ان کی ترجیحات میں تعلیم کبھی نہیں رہی ۔
پاکستان میں عام رواج ہے کہ جب کسی بھی چیز کا متبادل آجائے تو لوگ اصل کی طرف توجہ کم دیتے ہیں اور متبادل کے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔ لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا جب آغاز ہوا تو عوام نے متبادل ذرائع کی طرف رجوع کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ متبادل پر سب کی توجہ ہوگئی ۔ یو پی ایس ، سولر ، جنریٹر جسیے متبادل کی بھر مار ہوگئی اور عوام کی زبان پر لوڈ شیڈنگ کا شکوہ کم متبادل کی قیمتوں ، کوالٹی اور کمی کا شکوہ زیادہ ہوگیا ۔ اور حکومت نے جب دیکھا کہ عوام متبادل ذریعوں پر ہل گئی ہے تو حکومت نے بھی نعروں پر ہی قوم کو ٹرکھانا شروع کردیا ۔
صحت کی سہولتوں کا انتظام کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کا تو سب کو معلوم ہی ہے ۔ لیکن اس پر زیادہ شور شرابہ اور حکومت کی توجہ اس لیے نہیں ہ کیونکہ تقریباََ ہر علاقے میں اس کے متبادل پرائیوٹ کلینک، اسپتال اور ڈسپینسریز موجود ہیں ۔ اور سونے پر سہاگہ کئی تنظیمات ، اور این جی اوز بھی اس ضمن میں کام کر رہی ہیں ۔ ریاست میں اس کا متبادل موجود ہونے کی وجہ سے کسی بھی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی ۔ اور نا ہی پرائیوٹ سیکٹر پر نظر رکھی اور این جی اوز تو ویسے ہی مادر پدر آزاد ہوتیں ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پرائیوٹ سیکٹر میں پرائیوٹ اسپتال ایک مافیا بن چکاہے اور حکومت اس کے سامنے بے بس ہے۔ عوام کا اعتماد پرائیوٹ اسپتالوں پر زیادہ اور سرکاری اسپتالوں پر کم ہے ۔
بلکل اسی طرح تعلیم کے سیکٹر میں ہوا ہے ۔ ایک وقت تھا جب پرائیوٹ اسکول برائے نام ہوا کرتے تھے ۔ گورنمنٹ اسکولز ریاست کی تعلیمی ضروریات مکمل طور پر تو نہیں مگر احسن طور پر پوری کررہے تھے ۔سیاسی دور شروع ہوا جس میں اساتذہ کو سیاسی طور پر بھرتی کیا گیا جس میں میرٹ کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں جب سیاسی وابستگیاں عروج پر آئیں تو اسکولز میں تعلیمی معیار گرنا شروع ہوگیا اور یہ وہ وقت تھا جب پرائیوٹ سیکٹر نے اسکول کھولنے شروع کردیے اور پھر چند ہی سالوں میں شہر شہر پرائیوٹ اسکولوں کا ایک جال پھیل گیا ۔ گورنمنٹ اس پوری صورتحال سے مطمئن تھی کہ تعلیم کیونکہ ریاست کے لیے اشد ضروری ہے اور اس کام میں پرائیوٹ سیکٹر میں لوگ سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں اور ریاست کی ضرورت کو پورا بھی کر رہے ہیں ۔ ایک پرائیوٹ ادارے میں 200کے قریب طلبہ و طالبات اگر زیر تعلیم ہے ۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ان 200بچوں کی تعلیم کا وزن اس پرائیوٹ ادارے نے اٹھا لیا ہے جس کی ذمہ داری ریاست پر تھی ۔ ریاست ان 200بچوں کو عمارت مہیا کرتی ،فرنیچر مہیا کرتی اور اسٹاف کا بندوبست کرتی اس کے لیے بجٹ بنتا ۔ریاست کو اس سے بڑھ کر کیا چاہیے کہ 200بچوں کو تعلیم بھی مل رہی ہے اور اس کا خرچ بھی نہیں ہورہا ۔ اس لیے گورنمنٹ نے پرائیوت سیکٹر کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیا ۔ اور ادھر دوسری طرف پرائیوٹ سیکٹر میں یہ ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر گیا لوگ اسے کاروبار کے طور پر بھی لینے لگے جس سے پرائیوٹ سیکٹر میں اس کے معیار میں کمی آئی لیکن کمی آنے کے باوجود اب بھی گورنمنٹ سیکٹر سے زیادہ اس پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔پرائیوٹ سیکٹر کو آزاد چھوڑنے کا ریاست کو نقصان بھی ہوا کئی کالی بھیڑوں نے تعلیم کو ذہن سازی کے لیے استعمال کیا ہماری آئندہ نسلوں کو انتہاپسندی اور جدت پسندی کی بحث میں الجھا کر ان کے ذہنوں کو منتشر کیا ۔ ہر مکتبہ فکر نے اپنی مرضی کا نصاب بنایا ہر گروہ نے اپنی مرضی سے نئی نسل کو اپنا ایجنڈا پڑھایا اور اپنے لیے نظریاتی فورس تیار کی جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اوت آئندہ بھگتیں گے نصاب کے متعلق کسی اور وقت تفصیلی کالم تحریر کروں گا ۔
اس ماہ پورے پاکستان میں پرائیوٹ سیکٹر کی جانب سے فیسیز بڑھانے کا شور ہے جس پر ہمارے وزیر اعظم پاکستان نے یہ ارشاد فرما کے نوٹس لیا کہ معیاری تعلیم ہر شخص کا حق ہے اس لیے پرائیوٹ ادارے اپنی فیسیز کا فیصلہ واپس لیں۔ خادم اعلی نے نوٹس لے کر سخت فیصلہ کیا سندھ حکومت نے 10%اضافی کی منظوری دی کمشنرز نے میٹنگز شروع کردی چینلز پر ٹاک شوز شروع ہوگئے ۔ شور و غل سا مچا دیا گیا ۔ میرا سادہ سا سوال ہے کہ کیا پرائیوٹ اداروں نے پہلی بار فیس بڑھائی ؟ اور دوسری بات اگر آپ فیس جمع کرو ا نہیں سکتے تو آپ اپنا بچہ وہاں داخل کروائیں جس کی فیس آپ جمع کروا سکتے ہیں ۔ یا پھر آپ سرکاری اسکول میں داخل کروائیں اور اس کے معیار کو بہتر کر وانے میں کردار ادا کریں ۔
میں اب وزیر اعظم پاکستان سے سوال پوچھتا ہوں کہ آپ نے بجا فرمایا کہ معیاری تعلیم تمام پاکستانیوں کا حق ہے تو کیا گورنمنٹ اسکولز میں پاکستانی نہیں پڑھتے کیا ؟ ان کا معیار کیوں نہیں بہتر کرتے ؟ اور آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں ان کو معیاری بنانے کے لیے ؟ آپ کو کیڈیٹس کالجز کی فیسیز کا علم ہے ؟ کیا وہاں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اپنا بچہ وہاں پڑھا سکتے ہیں ؟ جناب وزیر اعظم معیاری تعلیم دینا آپ کا فرض ہے آپ اپنا فرض پورا کریں ۔ایک نوٹس ا پنے خلاف بھی لیں ۔۔۔
فرحان منہاج
03003156203

اپنا تبصرہ لکھیں