علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان موبائل نمبر0300-6491308
اسلامی سال کے دسواں مہینہ کا نام شوال المکرم ہے ۔اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ شوال بالفتح سے ماخوذ ہے ۔جس کا معنی اونٹنی کا دم اٹھانا ہے ۔اس مہینہ میں بھی حرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کیلئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے ۔اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا ۔
اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے ۔جس کو یوم الرحمة بھی کہتے ہیں ۔کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے ۔اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے درخت طوبیٰ پیداکیا اور اسی دن کو اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت جبریل علیہ السلام کو وحی کیلئے منتخب فرمایا اور اسی دن میں فرعون کے جادو گروں نے توبہ کی تھی ۔(غنیة الطالبین جلد 2صفحہ18)
اور اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمة اللعالمین ۖ نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کیلئے نکلے تھے ۔اور اسی ماہ میں اُحد کی لڑائی شروع ہوئی ۔جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخر ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لئے منحوس دن تھے۔ جن میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا ۔(عجائب المخلوقات صفحہ46)
شوال کی فضیلت:یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے اسے شہر الفطر بھی کہتے ہیں ۔اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے ۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :” جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن ۔تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرشتوں پر فخر فرماتا ہے ۔پس فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے اس فریضہ کو جو ان کیلئے ذمہ لازم آتا تھا ادا کر دیا ہے ۔پھر وہ (عید گاہ کی طرف) نکلے دعا کیلئے پکارتے ہوئے او مجھے اپنی عزت و جلال اور کرم اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا ۔پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جائو میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری بدیاں نیکیوں سے بدل دیں ۔حضورِ اقدس ۖ نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہو چکی ہوتی ہے ۔” (مشکوٰة صفحہ183)
عید الفطر کے کام:عید کے روز یہ کام مستحب ہیں ۔1۔حجامت بنوانا ۔2۔ناخن تراشنا ۔3۔ غسل کرنا ۔4۔مسواک کرنا ۔ 5۔اچھے کپڑے پہننا ۔ نیا ہو تو نیا ورنہ دھلا ہوا۔ 6۔ انگوٹھی پہننا ۔7۔ خوشبو لگانا ۔8 ۔ صبح کی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا ۔9۔ عید گاہ میں جلدی جانا ۔10۔ نماز سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا جو سوا دو سیر گندم ہے ۔ 11۔ عید گاہ کو پیدل جانا ۔12۔ دوسرے راستہ سے واپس آنا ۔13۔ نماز عید کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھا لینا ۔تین یا پانچ یا سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں ۔کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھالے ۔نماز سے پہلے کچھ نہ کھا یا تو گنہگار نہ ہو گا ۔مگر عشاء تک نہ کھایا تو عتاب کیا جائے گا۔(عامہ کتب)
سیدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :” حضور نبی کریم ۖ عید گاہ کی طرف نہیں جاتے تھے عید الفطر کے روز یہاں تک کہ کچھ کھجوریں تناول فرماتے اور طاق کھجوریں کھایا کرتے تھے ۔(مشکوٰة صفحہ126)
14۔خوشی ظاہر کرنا ۔15۔ کثرت سے صدقہ دینا ۔16۔عید گاہ کو اطمینان و وقار اور نیچی نگاہ کئے جانا ۔17آپس میں مبارک دینا مستحب ہے ۔ (درمختار ،روالمختار)
مسئلہ:نماز عید سے پہلے نفل نماز مطلقاً مکروہ ہے ۔عید گاہ میں ہو یا گھر میں ۔خواہ اس پر عید کی نماز واجب ہو یا نہ ہو یہاں تک کہ عورت اگر چاشت کی نماز گھر میں پڑھنا چاہیے تو نمازِ عید ہو جانے کے بعد پڑھے اور نماز عید کے بعد عید گاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے گھر میں پڑھ سکتا ہے ۔(درمختار)
شوال کے چھ روزے:شوال میں چھ روزے رکھنا بڑا ثواب ہے ۔جس مسلمان نے رمضان مبارک اور چھ دن شوال کے روزے رکھے تو اس نے گویا سارے سال کے روزے رکھے ۔یعنی پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے ۔
سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور رحمة اللعالمین شفیع المذنبین ۖ نے ارشاد فرمایا کہ :” جس آدمی نے رمضان شریف کے روزے رکھے اور پھر ان کے ساتھ چھ روزے شوال کے ملائے تو اس نے گویا تمام عمر روزے رکھے ۔”رواہ البخاری و مسلم(مشکوٰة صفحہ179)
یہ تمام عمر والا مسئلہ اس وقت ہے جب کہ وہ شوال کے چھ روزے تمام عمر رکھے اور اگر اس نے صرف ایک ہی سال یہ روزے رکھے تو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا ۔پھر یہ چھ روزے اکٹھے رکھے یا الگ الگ ہر طرح جائز ہیں مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو متفرق طور پر رکھا جائے ۔ یہی حنفی مذہب ہے ۔(لمعات حاشیہ مشکوٰة صفحہ179)
شوال کے نفل:حدیث شریف میں ہے کہ جو مسلمان شوال کی پہلی رات یا دن میں نمازِ عید کے بعد چار رکعت نفل اپنے گھر میں پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قل ھو اللّٰہ احد۔اکیس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ،بہشت کے آٹھوں دروازے کھول دے گا اور دوزخ کے ساتوں دروازے اس پر بند کر دے گا اور اتنے تک نہ مرے گا کہ جب تک اپنا مکان جنت میں نہ دیکھ لے گا۔ دوسری روایت میں ہے کہ ماہِ شوال میں رات کو یا دن کو آٹھ رکعت نفل پڑھے اور ہر ایک رکعت میں الحمد شریف کے بعد قل ھو اللہ احد ۔پچیس مرتبہ پڑھے ۔ پھر سلام پھیر کے 70دفعہ سبحان اللہ اور ستر دفعہ یہ درود شریف پڑھے ۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلیٰ اٰلِہ وَ اَصْحَابِہ وَبَارَکَ وَ سَلَّمَ ۔تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے رحمت اور حکمت کے دروازے کھول دے گا اور اس کے لئے جنت میں ایک بڑا مکان بنائے گا کہ اس سے بڑا مکان کسی اور کا نہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس کی ستر (70)حاجتیں دنیا میں پوری فرمائے گا۔(رسالہ فضائل الشہور)
شائع فرما کر شکریہ کا موقع دیں