فیشن اسٹائل اور آپ کی شخصیت
خوشبخت جہاں
آٹھویں کلاس کی طالبہ شانیا صبح وقت کی کمی کی وجہ سے بھاگم بھاگ اسکول چلی گئی۔ذرا دیر ہو جاتی تو اسکول کی بس نکل جاتی یا پھر اسکول سے فائن ہو جاتا۔اس نے جلدی سے ایک ٹوسٹ پر مکھن اور جیم لگا کر آدھا دودھ کا گلاس غٹا غٹ چڑھایا اور گھر سے باہر بس اسٹاپ کی جانب اسکول بیگ کے ساتھ لپکی جہاں اسکول بس پہلے سے جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔وہ بھاگ کر بس میں چڑھ گئی اور شکر کیا کہ بس مس نہ ہوئی۔پہلے پیریڈ میں انگلش کا ٹیسٹ تھا۔شانیا نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی انگلش میں فسٹ کلاس نمبر لیے۔وہ راولپنڈی میں وقارلنساء اسکول میں پڑہتی تھی اور اسکا شمار کلاس کی ذہین طالبات میں ہوتا تھا۔فری ٹائم میں لڑکیوں نے اسے فسٹ آنے پر سراہا اور اسکے خوبصورت ہیر اسٹائل کی بھی تعریف کی۔آج شانیا بہت خوش تھی ظاہر ہے ٹیسٹ میں فسٹ آنے کی خوشی کسے نہیں ہوتی لیکن اسے حیرانی اس بات کی تھی کہ لڑکیاں نہ صرف اس کی انگلش کی بلکہ اس کے ہیر اسٹائل کی تعریف بھی کر رہی تھیں اور ساتھ ہی یہ بھی پوچھ رہی تھیں کہ اتنے خوبصورت بال کہاں سے سیٹ کروائے ہیں۔اس کے بال اسٹیپس میں کٹے ہوئے تھے۔جو کچھ براؤن شیڈ لیے ہوئے تھے۔شانیا کے بال اسکے کندھوں تک تھے اوپر سے سیدھے اور نیچے سے بڑے بڑے گھونگر پڑے رہتے تھے۔مگر وہ سوچ میں پڑ گئی کہ وہ کیا جواب دے اس نے بال کہاں سے سیٹ کروائے تھے؟ کیونکہ آج تو اس نے بھاگم بھاگ اسکول بس پکڑی تھی اور اسے اس وقت بہت ہنسی آئی جب اسکی کلاس فیلو صبوحی نے اس سے اصرار کرتے ہوئے پوچھا کہ مجھے بھی بتاؤ بال کہاں سے سیٹ کروائے ہیں؟ میں نے آج ایک پارٹی اٹینڈ کرنی ہے میں بھی وہیں سے بال سیٹ کرواؤں گی۔یہ سن کر شانیا ہنستے ہوئے بولی بال کیا سیٹ کرواتی میں نے تو آج کنگی ہی نہیں کی۔یہ سن کر سب لڑکیاں ہنسنے لگ گئیں۔دراصل ان کی کٹنگ ہی اس اسٹائل میں ہوئی تھی کہ وہ کنگی کے بغیر بھی سیٹ ہی نظر آتے تھے۔
اس روز تو حد ہی ہو گئی جب درزی نے شانیا کا خوبصورت سبز اور گلابی جارجٹ کے سوٹ کا لہنگا ا الٹی سائڈ سے سی دیا۔اس نے جب درزی سے سوٹ لیا اس کے دو گھنٹے بعد شام کو ایک تقریب عروسی اٹینڈ کرنا تھی۔جارجٹ کے لہنگے کے نیچے سنہری رنگ ک لائننگ تھی جبکہ جارجٹ پر سنہری تلے کی تاروں سے ڈیزائن بہت دلکش لگ رہا تھا۔لیکن الٹی جانب سے سینے کی وجہ سے اس کے کنارے کے دھاگے باہر کو نکلے ہوئے عجیب لگ رہے تھے۔ شانیا نے غصہ سے کہا یہ مجھے ٹھیک کر کے دو ابھی اسی وقت۔یہ تو چار گھنٹے کا کام تھا۔درزی بڑی منت سماجت سے بولا باجی جی مہربانی کر کے آج یہ پہن لیں میں کل ضرور ٹھیک کر دوں گا۔ مگر وہ کل کبھی نہ آئی اور نہ ہی اس لباس کی مرمت کی نوبت آئی اس لیے کہ جب رات کی تقریب عروسی میں شانیا نے وہ لباس پہنا وہ محفل میں اپنے لباس کی وجہ سے سب کی نگاہوں کا مرکز بن گئی تھی۔کیونکہ الٹی جانب سے ڈیزائن کے باہر کو نکلے ہوئے دھاگے جو روشنیاں منعکس کر رہے تھے وہ جگنوؤں کی مانند چمک رہی تھیں۔اس لیے اس نے لباس مرمت کروانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔اس کے بعد کئی لوگوں نے الٹے کپڑ کے لباس سلوائے یہاں تک کہ کارخانہ داروں نے بھی اسی ڈیزائن کے کپڑے تیار کرانے شروع کر دیے۔یہ تو تھا اچانک غلطی سے ڈیزائن بننے کا قصہ لیکن ہر ڈیزائن ایسے نہیں بنتا۔بلکہ ڈیزائنر بہت محنت سے سالانہ رنگ اور ڈیزائن نکالتے ہیں پھر یہ ڈیزائن ٹیکسٹائل ملیں خریدتی ہیں جو ہٹ ہو جائے وہ خوب بزنس کرتا ہے۔جو ڈیزائنر ہٹ ہوں انکا نام چلتا ہے یوں فیشن کی دنیا میں روزی اور روزگار کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
فیشن اور ڈیزائن کس طرح بنتے ہیں اور انہیں روزمرہ زندگی میں کیسے لایا جاتا ہے یہ جاننے کے لیے ملاحظہ کریں اگلا حصہ
جاری ہے۔۔۔۔