فیکٹری لگائیں
تحریر شازیہ عندلیب
زندگی میں خوشیاں اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے فیکٹری لگانا بہت ضروری ہے۔آپ گھبرائیں نہیں۔اس کے لیے سرمایہ ذیادہ نہیں چاہیے۔بس اپنے ارادے ذرا مضبوط کریں۔اور ہمت سے کام لیں اگر ارادے مضبوط ہوں تو انسان اپنی ہمت سے پہاڑ تک اکھیڑ ڈالتا ہے،طوفانوں کا رخ اور دریائوں کے دھارے تک موڑ دیتا ہے۔پھر صرف تین فیکٹریاں لگانا کون سی بڑی بات ہے۔ اور پھر میں ہوں آپ کے ساتھ۔ویسے بھی صنعت و حرفت تو ہمارا خاندانی پیشہ ہے۔فیکٹریاں،یا صنعتیں کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار اداکرتی ہیں۔پاکستان جیسے ذرعی ملک کے مالیاتی امور میں اور عوام کی خوشحالی میں مقامی صنعتیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔پاکستان میں فیصل آباد سب سے بڑا صنعتی شہر رہ چکا ہے۔وہاں چھوٹی بڑی ہر قسم کی ٹیکسٹائل کی صنعتیں لوگوں کو رزگار فراہم کرتی رہی ہیںپاکستان کا مانچسٹر کہلانے والا یہ شہر بیرون ملک بھی اپنی پراڈکٹس کے لیے پہچانا جاتا ہے ۔اس دور اتلاء میں جب کہ یہاں کی انڈسٹری حکومت کے ہاتھوں سسک رہی ہے آج بھی اسکی پراڈکٹس کی مانگ بیرون ملک ہے۔بلکہ ناروے جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی فیصل آباد کی ٹیکسٹائل پراڈکٹس امپورٹ کی جاتی ہیں۔اس طرح حکومت کو پنجاب بھر میں سب سے ذیادہ ٹیکس اور زر مبادلہ اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے۔گو کہ ناروے کی مالیات کا انحصار سمندر سے نکلنے والے معدنی تیل پر ہے مگر مقامی صنعت یہاں بھی ہے۔ یہاں کی بڑی صنعتوں میں بحری جہاز بنانے والی انڈسٹری اور مچھلی کی صنعت ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی قسم کی صنعتیں موجود ہیں جو مقامی طور پر خوراک اور دوسری اشیائے صرف کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔شروع میں یہاں بسنے والے پاکستانیوں نے انہی فیکٹریوں سے اپنا روزگار حاصل کیا اور خوشحالی سے ہمکنار ہوئے۔ویسے یورپ میں معیاری اور مضبوط گاڑیاں ٹریکٹر اور مشینیں بنانے کا جو سہرا جرمنی کے سر پہ سجا وہ سہرا کوئی دوسرا ملک نہ سجا سکا۔گو کہ عالمی منڈی میں امریکہ اسے مات دے چکا ہے جرمن پراڈکٹس آج بھی معیاری ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میںمہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں۔اسی طرح پاکستان می ںٹیکسٹائل پراڈکٹس کی جو خصوصیات ڈیزائن معیار اور جدت کراچی اور سندھ کو حاصل ہے وہ بات فیصل آد کی پراڈکٹس میں کہاں!!پھر وسطی پنجاب کے گرم میدانوں سے نکل کر جب شمال کی جانب ٹھنڈی مست خرام ہوائوں کے دوش پہ سفر کریں تو پوٹھو ہار کا علاقہ اپنے چٹیل پہاڑوں کے ساتھ آپکا استقبال کرے گا۔یہاں راولپنڈی کا علاقہ مختلف صنعتوں سے پر ملے گا۔کسی زمانے میں یہاں صابن کی فیکٹریوں کا جال بچھا ہوتا تھا۔صنعتکاروں نے اس پیشے میں خوب دولت اور پیسہ کمایا۔سیانے پیسے کو ہاتھ کا میل کہتے ہیں مگر لوگ اس میل کو جمع کرنے کے نت نئے طریقے دریافت کرتے رہے اور صابن ساز ہاتھوں کپڑوں اور برتنوں کا میل صاف کرنے کے نت نئے صابن بناتے رہے۔ہر جانب خوشبودار اور بدبو دار صابنوں کے اشتہارات نظر آتے رہے۔بڑے بڑے بورڈز پہ ماڈلز منہ دھو دھوکے اشتہار بازی کرتی نظر آتیں ٹی وی پہ یہی فنکارائیں چہک چہک کر صابنوں کے گیت گاتی نظر آتیں۔غرض یہ کہ ہر کوئی ہاتھ دھو کے کپڑے اور منہ دھونے والے صابنوں کی صنعت سازی میں جت گیا۔پھر وقت و حالات نے انگڑائی لی۔اب صابن کی جگہ نت نئے پائوڈرز نے لے لی۔اب پائوڈرز کی صنعتیں لگنا شروع ہو گئیں۔اب ہر جگہہ واشنگ پائوڈر اور ،ٹیلکم پائوڈر،سے لے کر منجن پائوڈر اور ہیروئن کے پا ئوڈر تک دستیاب ہونے لگے۔غرض یہ کہ بازار میں ہر طرح کے پائوڈر ملنے لگے ۔لیکن اگر نہ ملا تو دل اور نیت صاف کرنے کا پائوڈر نہ ملا۔ایسا پائوڈر کہیں بھی دستیاب نہ تھا جس سے انسان کا دل اسکی نظر اسکی نیت صاف ہو جائے ۔ایسی کوئی فیکٹری نہ لگی جو انسان کی کاردگی پر satisfactory کی مہر لگا سکے۔جس میں بننے والا پائوڈر ہمارے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے دلوں کا میل نیتوں کا میل صاف کر کے انکا دھلا دھلایا اجلا صاف شفاف وجود ظاہر کر دے۔تاکہ سب باہمی پیار و محبت اور خلوص سے مل جل کر رہیں۔کوئی فرقہ وارانہ فساد اور علیحدگی پسند تحریک نہ ہو کوئی کسی کا حق غصب نہ کرے۔لیکن اگر کوئی ایسی فیکٹری نہ لگا سکا تو کیا ہوا کیوں نہ یہ فیکٹری آپ اور میں لگا لیں ۔اور ایک بھی نہیں پوری تین فیکٹریاں۔ایک آئس فیکٹری،دوسری شوگر فیکٹری اور تیسری لو (Love) فیکٹری۔جی ہاں آئس فیکٹری دماغ میں شوگر فکٹری زبان پہ اور (Love) لو فیکٹری دل میں۔دماغ کو آئس فیکٹری سے ٹھندا رکھیں۔زبان کو شوگر فیکٹری سے میٹھا رکھیں اور دل کو (Love) لو فیکٹری سے گرمائے رکھیں۔پھر دیکھیں نفرت اور ناکامی کیسے آپ سے دور بھاگیں گے اور محبتیں کامیابیوں کے ساتھ آپ کے ہاتھ چومیں گی۔پھر ان تین فیکٹریوں کے لگانے کے بعد ہو گی آپ کی کارکردگی بھی satisfactory ۔ اور ہاں یہ بات میں نے نہیں بلکہ ٹی وی اینکر عامر لیاقت نے کہی ہے تو پھر آپ کب لگا رہے ہیں یہ تینوں فیکٹریاں۔ہاں عامر لیاقت سے کسی کو اختلاف ہو یا نہ ہو مگر ان کی اس بات سے تو کوئی بیوقوف ہی اختلاف کر سکتا ہے کیا خیال ہے آپکا؟؟؟؟
G han Factory laganey ka idea acha hai aap ka. Albata ham logon ne dil o dimagh ko zang alod kar dia hai sirf aik zuban hai jo ham qainchi ki manind chalatey hain. kehtey hain dilon mein hirs o hawas ke bais zangar charh jata hai to dil aainey ki tarha ho jatey hain jab un mein jhankein to sirf apna aap hi dikhai deta hai. aisey mein nidamat ke ansoo is pe girain to ye zangar dhul key saf ho jata hai aur dil shesha ban jata hai aur sara jahan nazar aaney lagta hai.Mere khaial mei aik factory toba ke sath aankh se aansoo jari karne ki bhi honi chahiye takey baqi tamam factorian Sahih kam karti rahein.
Thanks Regards
Raja Muhammad Attique Afsar
AOA,
Attique sahab,Ji ap sahi kehtai hain hmarai dil zang alood ho chukai hain or inhai toba hi dho sakti hai.Khush rahain
shukriya
Shazia
Shazia in a light way u point out v serious problem of life .smajne wale smj lete hn keep it up
AOA,Pyari Mussarrat Api,
Comments ka bai had shukriya.
Shazia