قدموں کے نشان

کہانی: ڈاکٹر شہلا گوندل

زندگی کی ہر صبح اپنی ترتیب میں بندھی ہوتی ہے، لیکن کچھ صبحیں اپنی بے ترتیبی میں بھی انمول ہوتی ہیں۔ آج کی صبح بھی ایسی ہی تھی، سرد، تاریک اور الجھی ہوئی۔

ساڑھے پانچ بجے الارم کی آواز نے مجھے جگایا۔ نیند کا خمار اور سردی کا سکوت لیکن سکول میں بچوں کے دلچسپ اور منفرد سوالات کے جواب دینے کی خوشی ہمت بڑھا رہی تھی۔ آج خلافِ معمول نوید کی جاب پر جلدی روانگی دل کو چھٹی کی جانب کھینچ رہی تھی۔ ذہن نے فوراً جھنجھوڑا کہ آج تو سائنس کے پراجیکٹس میں سٹوڈینٹس کی مدد کرنی ہے اور یہ دن کسی بھی طرح چھٹی کا نہیں ہو سکتا۔
اللہ کانام لے کر اٹھی، نوید کو جگایا اور اپنے ذاتی معمولات کے بعد کچن کا رخ کیا۔ نوید کے لیے ناشتہ بنایا اوروہ تقریباً ساڑھے چھ بجے گھر سے جا چکےتھے۔حالانکہ معمول کے دنوں میں وہ ساڑھے سات بجے مجھے اسٹیشن پر ڈراپ کرکے پھر بچوں کو سکول چھوڑتے ہوئے ساڑھے آٹھ بجے اپنے آفس پہنچتے ہیں۔
میں نے چاروں بچوں کو جگایا اور خود کچن میں چلی گئی۔
عائشہ، ساڑھے سات بجے والی ٹرین پکڑنےکے لیے تیارتھی۔ آج اس کے سمیسٹر کا آخری پیپر تھا اور میں نے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ اسے رخصت کیا۔
چھوٹے بچوں، حسان اور زینب، نے گلی کے دوسرے کونے پرحسنین کے گھر جانا تھا، جہاں سے آج اس کی ماما، صائمہ، نے حسنین کے ساتھ انہیں بھی سکول چھوڑنا تھا۔نوید نے رات کو ہی فون کر کے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ حسنین کے ساتھ زینب اور حسان کو بھی سکول چھوڑ دیں۔سب کو ناشتہ کروا کر اور لنچ باکسز تیار کر کے میں بھی جلدی جلدی تیار ہو رہی تھی۔

چھوٹے بچے حسنین کے گھر جا چکے تھے، اور میں جانے کے لیے تیار تھی۔ سلمان ، جس کا سکول آج نو بجے شروع ہونا تھا،کہنے لگا، “ماما، ہم اکٹھے چلتے ہیں۔ آپ ساڑھے آٹھ والی بس لے لینا، میں آپ کو بس سٹاپ تک چھوڑ کر اپنے سکول چلا جاؤں گا۔” میں نے کہا:”کیوں نہیں، اتنا پیارا ہمسفر ساتھ ہوا تو منٹوں کا راستہ سیکنڈوں میں کٹ جائے گا۔”ہم نے آٹھ بج کر آٹھ منٹ پر گھر کو لاک کیا اور پیدل روانہ ہوئے۔
تازہ پڑی ہوئی برف پر جوتوں کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے۔ حسنین کے گھر کے قریب پہنچے تو گاڑی کے ٹائروں کے نشان دیکھ کر میں نے سوچا کہ صائمہ بچوں کو لے جا چکی ہوں گی۔ لیکن سلمان نے فٹ پاتھ پر دو بچوں کےجوتوں کے نشان دیکھ کر فوراً کہا، “ماما، یہ تو حسان اور زینب کے جوتوں کے نشان ہیں۔” میں نے حیرانی سے کہا، “انہوں نے تو حسنین کی ماما کے ساتھ جانا تھا، یہ کسی اور کے نشان ہونگے۔” سلمان نے اصرار کیا، “نہیں، یہ انہی کے ہیں۔ شیروک بھی وہی ہیں، اور سائز بھی۔ وہ ہمیں آگے کہیں نظر آ جائیں گے۔”

جب ہم تھوڑا اور آگے بڑھے تو سرخ بلڈنگ والی پودوں کی دکان سے کچھ آگے، واقعی وہ دونوں ہمیں نظر آ گئے۔ وہ سکول کی طرف جانے والے برج کے پاس پیدل جا رہے تھے۔ صائمہ شاید انہیں ساتھ لینا بھول گئی تھی۔ میرے دل میں ایک پل کو دھڑکا سا محسوس ہوا، لیکن ان کے چہروں پر اعتماد دیکھ کر ایک سکون بھی آیا۔ دونوں ماشاء اللہ کتنے سمجھدار اور خود مختار ہو گئے ہیں۔ میں نے انہیں گلے لگایا، ان کی تعریف کی، اور ہم نے چاروں کی ایک یادگار تصویر بنائی۔ آٹھ بج کر بائیس منٹ پر زیبرا کراسنگ سے گزر کرحسان اور زینب اپنے سکول کی طرف جانے والی سڑک پر مڑ گئے، جبکہ میں اور سلمان سٹی سینٹر کی جانب بڑھے۔

آٹھ بج کر اٹھائیس منٹ پر ہم بس اسٹاپ پر پہنچے۔ میری بس آٹھ بج کر اڑتیس منٹ پر آنی تھی، لیکن سلمان مجھے اکیلا چھوڑ کر سکول جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا، “ماما، آپ میرے ساتھ پل کے پار چلیں۔ اگلے سٹاپ سے بس لے لینا۔” میں ہچکچائی اور کہا کہ “میں ہر روز یہیں سے بس لیتی ہوں، یہ میرا کمفرٹ زون ہے۔”

“انسان کو کبھی کبھار اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا چاہیے۔” اس نے مجھے پل کی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔میری ہچکچاہٹ اس کے لہجے کی محبت اور یقین کے سامنے رضامندی میں بدل چکی تھی۔ ہم پل پار کر کے اگلےبس سٹاپ تک پہنچے۔ آٹھ بج کر پینتیس منٹ پر ہم وہاں کھڑے تھے۔ جلد ہی بس آگئی تو سلمان نے مجھے اطمینان سے دیکھا اور کہا، “لیں آپ کی بس آگئی اب آپ آرام سے بیٹھ سکتی ہیں نا؟” میں مسکرا ئی اور اسے اللہ حافظ کہہ کر بس میں سوار ہو گئی ۔اس نے پلٹ کربس کو دیکھا اور اپنے سکول کی طرف قدم بڑھا دیے۔

میرے سکول پہنچتے پہنچتے نو بج چکے تھے، ایک گھنٹہ لیٹ۔ لیکن آج جو کچھ دیکھا، جو محسوس کیا، وہ میرے دل پر گہرے نقوش چھوڑ گیا۔ آج کا دن میرے بچوں کی محبت، ان کی تربیت اور ان کی ذمہ داریوں کا آئینہ تھا۔

حسان اور زینب، جو ابھی بہت چھوٹے ہیں، اپنی عمر کے لحاظ سے غیر معمولی خود مختاری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ سکول کی طرف، برف پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑتے ہوئے، ایک اعتماد کے ساتھ جا رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں خوف نہیں تھا، بلکہ وہ اس قابل ہو چکے تھے کہ مشکل لمحوں میں اپنا راستہ خود تلاش کر سکیں اور فوری فیصلے کر سکیں۔ میں نے ان میں نہ صرف خود اعتمادی دیکھی بلکہ یہ بھی محسوس کیا کہ انہیں درست اور فوری فیصلے کی آزادی دینا ہمارے لیے کتنا ضروری ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ماں ہونے کے ناطے مجھے سکون ملا کہ ہم ان کے دلوں میں ہمت اور بھروسہ جگانے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔

سلمان، جو میرے ساتھ چل رہا تھا، اپنی عمر سے کہیں آگے بڑھ کر میرے لیے ایک دوست اور ہمسفربن گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک تحفظ تھا، ایک خواہش کہ میں آرام اور سکون سے اپنی منزل تک پہنچ جاؤں۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہا تھا، “ماما، انسان کو اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا چاہیے۔” اس کی یہ بات صرف ایک مشورہ نہیں تھی بلکہ اس میں وہ محبت چھپی تھی جو انسان کو اپنی ذات سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا خیال رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔

جب میں بس میں سوار ہوئی اور اس نے پیچھے مڑ کر ایک آخری بار یہ یقین کر لیا کہ میں آرام سے بیٹھ چکی ہوں، تب مجھے احساس ہوا کہ ماں اور بچے کے رشتے میں ایک خوبصورت توازن پیدا ہو چکا ہے۔ وہ جو کبھی میری توجہ اور محبت لینے کے لیے میرے قریب رہتا تھا، آج خود مجھے وہ محبت اور توجہ لوٹا رہا تھا۔

محبت اور ذمہ داری ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ محبت صرف جذبات کا اظہار نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کے لیے آسانی پیدا کریں، ان کے لیے اپنی ترجیحات بدل دیں۔ چھوٹے بچوں کی خود مختاری اور بڑے بیٹے کا خیال رکھنے کا جذبہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ہماری تربیت نے ان کے اندر وہ اقدار پیدا کی ہیں جو ایک مضبوط انسان کی پہچان ہیں۔

زندگی میں ہر لمحہ ایک سبق ہوتا ہے۔ آج کے دن نے مجھے یہ سکھایا کہ بچے جب آپ کی دعاؤں اور محبت کے سائے میں پروان چڑھتے ہیں تو وہ آپ کی محبت کو نئی شکل میں لوٹاتے ہیں۔ وہ خود مختار ہو جاتے ہیں، لیکن اس خود مختاری میں آپ کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوتی۔ وہ آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، جیسے آپ نے انہیں قدم قدم چلنا سکھایا تھا۔

یہ صبح جو ابتدا میں الجھی ہوئی اور پریشان کن لگ رہی تھی، ایک حسین یاد بن گئی۔ محبت، اعتماد، اور ذمہ داری کے ان چھوٹے چھوٹے لمحات نے میری زندگی کو اور بھی بھرپور کر دیا۔ میں نے یہ سیکھا کہ ماں ہونے کا مطلب صرف بچوں کی رہنمائی کرنا نہیں، بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب بچے آپ کی رہنمائی کرتے ہیں، آپ کا خیال رکھتے ہیں، اور آپ کی محبت کا قرض اپنی توجہ سے چکاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں