’’قدیم کویتی روایت میں گزرے چند یادگار لمحات‘‘

صحرا میں لگے کیمپ دیکھ کرمحسوس ہوا کہ جیسے حقیقت میں ریت پر شہرآباد کیا گیا ہے
شاندار کھانے اور اعلیٰ انتظامات نے جہاں بے حد سکون اور خوشی بخشی، وہیں اپنے ملک کے حالات نے اُداس بھی کیے رکھا
رومانہ فاروق:(کویت )
romanafarooq@hotmail.com

کویت کی معروف لکھاری اور سفرنگار رومانہ فاروق کے ساتھ صحرا کی سیر کی دلچسپ روداد۔۔۔۔
دوسرا حصہ

جواب کو انشاء ا للہ تک محدود رکھا۔ لیکن خدا بھلے کرے ہمارےHRڈائر یکٹرکا نہ جانے اُس نے کون سے جادو کی چھڑی گھمائی اور ہمارے اور ہم جیسے کتنے ہی اور ہونگے اردوں کو بھانپ لیا اور ایک سرکلرای میل کردیا جو ہمارے لئے کسی ڈراؤن حملے سے کم نہ تھا، جس نے ہماری خوشی اور پلان کو بالکل ا سی طرح غارت کر دیا جس طرح موجودہ قیادت نے پاکستانی عوام کا سکون و چین غارت کیا ہوا ہے۔یعنی الضمیہ الربیعی سے غائب ہونے کی صورت میں ایک دن کی تنخواہ کی کٹوتی ہوگی۔ کیا میری طرح آپ بھی یہی سوچتے ہیں کہ یہی وہ واحد ہتھیار ہے جسکو HR والے اپنی ہر بات منوانے کیلئے ہتھوڑے کی طرح مارتے ہیں۔ اور یوں ہمارے دل کے ارمان آنسو ؤں میں بہہ گئے۔
مرتے کیا نہ کرتے ۔۔۔آخر اس سوچ سے دل کو مطمئن کیا کہ جب سب ہو نگے تو یقیناًمزہ آئے گا۔ اسی امید کے بل بوتے پر اہل خانہ کو تمام

پروگرم سے آگاہ کیا جسے سنتے ہی بنا کوئی پل ضائع کیے مجازی خدا نے کسی انتہائی ضروری کام کی آڑ میں ہمیں اکیلا چھوڑ دیا بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کے صدر مشکل وقت میں عوام کو تن تنہا چھوڑ کر بیرون ملک دو روں پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ پرُامید نظروں سے بر خور داروں کی طرف دیکھا تو انہوں نے کرکٹ کو چنک کی وجہ سرخ جھنڈی دکھادی اور مجبوراًجھنجھلا کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ویسی ہی کو چنگ جس نے ہمیں کھیل کے میدان میں ذلیل وخوار کر دیا ہے۔ چاہے وہ ہاکی ہو یا کر کٹ۔ بس اس مشکل وقت میں ہماری صاحبزادی نے ہمارا ساتھ دیا۔ اب ہم نے نہ صرف اپنے تیور بدلے بلکہ اپوزیشن لیڈروں کی طرح یہ بات بھی پلو سے باندھ لی کہ موقع ملنے پر بدلہ لئے بغیر نہیں رہیں گے۔ امن وسکون کی فضا کو بگڑتے دیکھ کر ہمارے شوہر نامدارنے مالی امداد سے ہمارے دکھیا حالت اور بگڑتی فضا کو سنبھالنے کی کوشش کی جسے ہم نے رائیگاں نہ جانے دیااور بالکل اپنے سر براہان کی طرح اس سنہری موقع سے پورا پورا فیض حاصل کیا۔ 6مارچ وقت مقررہ پر آفس پہنچے تو HR ڈائر یکٹر کا ایک اور حکم صادر ہوا کہ بسوں کا انتظام ہوگیا ہے، گاڑیاں آفس ہی چھوڑ کر روانگی ہو گی۔ حکم ادولی تو کسی کیلئے بھی ممکن نہ تھی کیونکہ سزا سے سب واقف تھے لیکن آپ یہ ہر گز مت سوچیئے گا کہ دھنیگامشتی شروع ہو گئی ہو گی یا کھچا کھچ بھری ہو گی۔ ایسا نہیں تھا بلکہ سب بہت آرام وسکون سے بیٹھے کیونکہ 6بسوں کا انتظام تھااور بسیں بھی کل آف لگژری تھیں اور پہلی بارHR کا کوئی فیصلہ اچھا لگا۔
تقریباً45 منٹ کے بعد ہم شہری حدود سے نکل کر صحرائی حدود میں داخل ہوئے عربی موسیقی ہنسی مذاق اور بات چیت میں وقت کا اندازہ ہی نہ ہوااور ٹھیک ڈیڑگھٹنے کے بعد ہم صحرا میں پہنچے جہاں ریت ہی ریت اور اس میں دبے ٹائروں سے اسکی حد بندی کر رکھی تھی جس میں بہت سے خیمے اور جا بجا بنچ ، جھولے موجود تھے۔ سب سے پہلے سب نے خیموں کا رخ کیا تاکہ کچھ آرام کے بعد آگے کی کارروائی دیکھی جائے۔ اتنے پیارے لوگوں میں میں اکلوتی پاکستانی تھی تو کیاانجوائے نہیں کیا ہوگا؟بلکہ خوب انجوائے کیا اپنی لبنانی ساتھی مرِنا کے ساتھ ان دونوں میاں بیوی نے بھرپور کمپنی دی۔ یہاں جب بھی مختلف قوموں کے لوگوں کا تذکرہ ہوا تو ہمیشہ سے لبنانی لوگوں کی تعریف سنی اور پھر فلسطینی کی ۔لیکن اس دن واقعی ان دونوں نے ثابت کر دیا کہ لبنانی بظاہرخوبصورتی کے ساتھ ساتھ اخلاقی خوبصورتی کے بھی مالک ہوتے ہیں۔

جاری ہے

،

2 تبصرے ”’’قدیم کویتی روایت میں گزرے چند یادگار لمحات‘‘

  1. رومانہ آپ کے ساتھ صحرائی سیر کا بہت مزہ آرہا ہے۔آپکی تحریر پڑھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے میں بھی آپکے سنگ سنگ ریتلے صحراء میں خیمہ زن ہوں ۔بہت خوب امید ہے آپ اسی طرح ہمیں سیر کراتی رہیں گی۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں