یوم قرارداد کے موقع پر کویت سے اردو فلک کے لیے رومانہ فاروق کے نوک قلم سے لکھی گئی ایک دل گداز تحریر
ہمارے اندر1940ء والا جذبہ ایمانی کیسے واپس آئے گا؟اُس دو ر کے پاکستانی اور آج کے پاکستانی میں فرق کیوں آگیا ہے؟
غفلت کی چادر نہ اتاری تودشمن پھر سے ہمارے لیے غلامی کی زنجیریں تیار کرچکے ہیں
رومانہ فاروق:(کویت )
romanafarooq@hotmail.com
کانگریس کی بے جا سر گرمیوں اور دو سالہ زیادتیوں سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ یہ صرف اور صرف ہندوئوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اور جو مسلمانوںکو اپنے مطلب کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ کیونکہ حکومت نہ ملنے سے پہلے ہی سے اس جماعت کا یہ نعرہ تھا کہ ہم نے ایک ایسی حکومت کی تشکیل کرنا ہے۔ جو نہ تو کسی بھی مذہبی فرقے میں مداخلت کرے اور نہ ہی کسی کی دل آزاری پر کوئی کارروائی کی جائے گی ۔ جبکہ مسلمان اپنی سادگی اور نیک نیتی کی بنا پر ان کی شاطرانہ چالوں کو نہ سمجھ سکے اور کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی۔ لیکن جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ انہیں نہ صرف بندے ماترم کا نغمہ الاپنا پڑے گا بلکہ ودیا مندر بھی جانا پڑے گا۔ اور گائو کشی پر سزا بھی بھگتنی پڑے گی جبکہ شدھی کی مصیبت سے بھی نہ بچ پائیں گے اور جب وہ ان سب سے انکار کر یں گے تو فرقہ وارانہ مسادات کی آگ جلا کر راکھ کر دیں گی۔تبھی یہ احساس جاگا کہ حقیقتاً ایک الگ ملک کی ضرورت سے جہاں صرف اور صرف مسلمانوں کی حکومت جہاں وہ مکمل طور پر مذہبی ، اقتصادی سیاسی، معاشرتی آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
اس احساس کے بعد مسلم لیگ اور زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ سیاسی میدان میں سر گرم عمل ہوئی اور 27 اگست 1937ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں متفقہ طور پر ہر فیصلہ کیا گیا۔ کہ تمام مسلمانوں کو اکٹھا ہو کر ہندوستان میں اپنے لئے ایک الگ مقام پیدا کرنا ہوگا۔17 اور 18 ستمبر 1939ء میں جب انگریز جرمنی کے مد مقابل میدان جنگ میں آیا تو اس نے مسلمانوں کے لیڈر قائداعظم سے ہندوستانی میدان عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کی مدد طلب کی جسکا قائد نے وعدہ کیا تھا۔ دوسری طرف ال انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی نے ایک ریزویشن Resolution پاس کیا جسکا مقصد یہ تھا۔ ”آزاد ہندوستان میں ایک آزاد اور خود مختار مملکت ہونی چاہیے جس میں اپنے مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی حقوق و مفاد کی کامل حفاظت کے اطمینان کے ساتھ فرقہ اکثریت کے دوش بدوش مسلمان کی زندگی کی دوسری سر گرمیوں میں مساویاء شرکت کر سکیں ” کانگریس کا خیال تھا۔ کہ جنگ کے دنوں میں وہ اپنے مطالبات کو زیادہ بہتر طور پر منوا سکے گی لیکن سب کچھ ان کی سوچ کے برعکس ہوا۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ عظیم دوم میں انگریز نے زبردست حوصلہ مندی جرأت اور بے باکی کا ثبوت دیا۔ لیکن اس جنگ کی وجہ سے انگریزوں کی عالمی سطح پر برتری کا سورج اپنے نکتہ عروج سے ڈھلوان کی طرف مائل ہو گیا تھا۔ کیونکہ کانگریس پہلے ہی اس جنگ کیلئے اعلانیہ نفرت کا اظہار کر چکی تھی اور اسے ہندوستان کے 2،3 سیاسی محاذوں پر اکیلا ہی پڑنا پڑا۔ جبکہ کانگریس کی طوطا چشمی کی وجہ سے انگریز کا مان خاک میں ملتا جا رہا تھا۔ دوسری طرف اس جماعت کی نا انصافیوں کی وجہ سے لا تعداد مسلمانوں نے اسے خیرباد کرتے ہوئے برصغیر پاک وہند کی واحد مسلم جماعت مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جس سے ہندوئوں کا غرور تکبر ٹوٹنا شروع ہو گیا اور طلسم اس وقت چکنا چور ہو گیا۔جب مسلم لیگ نے پورے ہندوستان میں یوم نجات منایا ایسے وقت میںجبکہ کانگریسی وزارتیں بھی قائم تھیں یوم نجات منانے سے مسلم لیگ کو اور تقویت و وسعت ملی اور 1937 سے 1939تک مسلم لیگ بلوغت تک پہنچ چکی تھی جسکا اعتراف انگریزوں کو بھی کرنا پڑا۔”کہ کانگریس متعصب ہندوئوں کی ایک جماعت ہے۔”اسکے ساتھ ساتھ انگریزیہ بھی جان چکا تھا کہ گاندھی کی زبان میں مسلمانوں جیسی شیر ینی اور کر دار میں متعصب ہندو کی منافقت ہے جو اسے کامیاب بنا رہی ہے اور انگریز جیسا شاطراس حقیقت سے بھی واقف تھا کہ قول سے زیادہ فعل خطرناک ہوتاہے۔ کیونکہ قول ایک تھوری ہے اور فعل ایک عمل ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ لارڈلن لتھگوِ کا یہ بیان بھی بالکل مبہم تھا۔ جس میں ایک طرف تو وہ اعلان کر گئے کہ آزادی کی بات اور دستور کی بات اب جنگ کے بعد ہی کی جائے جبکہ دوسرے یہ کہ جنگ کے بعد جس دستور پر بات جیت ہوئی بھی تو 1935 کے ایکٹ پر ہو گی۔جس میں ترمیم کی گنجائش تو ہو سکتی ہے لیکن نیا دستور مرتب نہیں کیا جائے اور یہ اعلان مسلم لیگ کی توقعات کے عین مطابق تھا۔
22 اکتوبر 1939ء میں وائسرائے کے اس اعلان پر تبادلہ خیالات کرنے اور لیگ ریزویشن پاس کرنے کیلئے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اجلاس طلب کیا گیا۔ جس میں اس بات کی تعریف کی گئی کہ کانگریس کے ہندوستان کی واحد سیاسی و منتخب جماعت ہونے کے دعوی کو ردکر دیا گیا۔ تو دوسری طرف اس بات پر بھی رنج کا اظہار کیا گیا کہ حکومت نے نئے دستور کی تشکیل کے بارے میں اچھے ارادے ظاہر نہیں کیے۔انہی حالات کے پیش نظر 3 فروری 1940کو دہلی کے مقام پر ال انڈیا مسلم لیگ کا ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں فیصلہ کیا گیا کہ 22مارچ 1940کو لاہور میں ایک عظیم الشان جلسے کا انتظام کیا جائے جس میں ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا جائے۔ جو صرف مسلمانوں کے مختلف حقوق کے تحفظ کے پیش نظر تشکیل دی جائے۔ اس فیصلے نے ہندوئوں اور انگریزوں دونوں کو تشویش میں ڈال دیا۔ اور انہوں نے مسلم لیگ کے اس جلسے کو ناکام بنانے کی مشترکہ کو شش شروع کیں۔ انگریز جو عرصے سے آپس میں لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی پرگامزن تھا اسکے سہارے اس نے لاہور میں فساد کرانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا ۔
19مارچ 1940 کو خاکساروں نے ایک زبردست جلوس نکالا۔ انگریز یہ بھی جانتے تھے کہ خاکسار مسلمان میں اور اگر ان مسلمانوں پر زیادتی ہوئی تو لازماً مسلم لیگی مسلمان ان کی مدد کیلئے آگے بڑھیں گے۔ جب ایسا ہوگا تو ہم حالات کو اتنا بد تر بنا دیں گے اور مسلم لیگ اپنا یہ تاریخی جلسہ نہ کر سکے گی انہی ناپاک ارادوں کے بل بوتے پر انگریزوں نے جان بوجھ کر خاکساروں کے جلوس پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی اور لا تعداد خاکسار موت کی آغوش میں چلے گئے یہ نا حق اجتماعی قتل مسلمانوں کی غیرت کیلئے ایک زبردست چیلنج تھا۔ اس وقت قائد دہلی میں تھے اور جلسے میں شمولیت کی تیاری کر رہے تھے جبکہ بہت سے مسلم لیگ کے رہنما ہندوستان کے مختلف کونوں سے لاہور میں جمع تھے۔ انہوں نے متفقہ طور پر انگریز کے خلاف آواز بلند کرنے کا عزم کیا اور قائدسے رابطہ کیا لیکن آپ نے جلد بازی سے منع فرمایا اور انگریز کی شاطرانہ چال سے آگاہی کروائی کہ وہ ایسا کرنے پر جلسے کو تباہ و برباد کر دیں گے لہذا صبروتحمل سے خاکساروں کی تعزیت کے سوا کوئی قدم نہ اٹھائیں اور اس طرح قائد کی فہم و فراست سے ایک اور خونی ڈرامہ ہونے سے بچ گیا۔ قائد21 مارچ کو دہلی سے لاہور پہنچے اور اعلان کیا کہ جلوس کی صورت میں استقبال کرنے سے گریز کیا جائے لاہور میں آپ خاکساروں کی عیادت کیلئے گئے جس سے آپس کی بد گمانیاں بھی دور ہوئیں جبکہ ہندوئوں اور انگریزوں کے عزائم اور بڑھ گئے۔22 مارچ 1940کو نماز جمعہ کے بعد منٹو پارک لاہور میں ایک لاکھ سے زائد افراد کی موجودگی میں مسلم لیگ کا تاریخی جلسہ شروع ہو سر شاہنواز خان آف مدوٹ نے خطبہ استقبالیہ پڑھا جبکہ قائد نے جلسے کی صدارت کرتے ہوئے ایک موثر تقریر کی اور دوفوجی نظر یے کی وضاحت کرتے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے لئے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کر یں۔ قائد نے فرمایا۔”کہ مسلمان ہندوستان کی آزادی اس طرح چاہتے ہیں کہ وہ خود بھی اس میں آزاد ہوں۔ اگر ہندو آزاد ہوں اور مسلمان اس کے غلام بن کر رہ جائیں تو ایسی آزادی مسلمانوں کیلئے بیکار ہے۔ مسلمان ہندوستان میں ایک فرقے کی حیثیت نہیں رکھتے وہ ایک قوم کی صورت میں آباد ہیں۔ اس لئے اس مسئلے کو تحمل سے حل کیا جانا چاہیے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہندو اور مسلمان جن کا مذہب تہذیب ، فلسفہ حیات، معاشرت، نظام زندگی اور ادب بالکل منفرد ہے آپس میں مل کر نہیں ہر سکتے تاریخ بتاتی ہے کہ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوا کرتا ہے۔ اسلئے ہم نہیں چاہتے کہ ہم مذہبی، روحانی ، سیاسی اقتصادی اور سماجی اعتبار سے زیر کفالت کی زندگی گزار یں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم دونوں آزاد ہمسایوں کی طرح زندگی بسر کر یںاسلئے ہمیں ایسا دستور قطعی طور پر منظور نہیں ہوگا۔ جس میں مسلمانوں کی آزادی کی ضمانت نہ دی جائے گی۔اس شاندار کامیاب جلسے کے بعد 23مارچ1940قائداور مسلمانوں کیلئے سب سے عظیم اور سنہرا دن بنا۔ جب قائد کے چہیتے بنگال کے وزیر اعلی مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے اس قرار داد کو پیش کیاجو بعد میں قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی ،جی ہاں … اس قرار داد کی منظوری کے سات سال بعد آزاد مملکت پاکستان کے خواب شر مندہ تعبیر ہوا لیکن اب یہ ہماری بد نصیبی ہے یا حالات کی ستم ظریفی کہ جس ملک کے حصول کی خاطر ہزاروں مائوں کے کڑیل جوان تہہ تیغ کر دئیے گئے ہزاروں معصوم بچوں کو والدین کے سامنے جلا دیا گیا۔ ہزاروں مائوں اور بہنوں کی عزتیں پامال کی گئیں۔ سینکڑوں نوجوانوںکی لاشیں جنگلی جانوروں کی خوراک بنیں، اتنے کشت وخون اور مصیبتوں کے بعد ہم نے جو آزاد فضائیں اور آزاد سر زمین حاصل کی صرف اسلئے کہ ایک قوم زندہ رہ سکیں اور سیاسی اور مذہبی آزادی کے علاوہ زندگی سے وابستہ پر پہلو کی آزادی ہو۔یکن کیا آج ہم پاکستان کو ایساہی دیکھتے ہیں ؟یا پھر یہ کہ کیا یہ ویسی ہی دھرتی ماں ہے جسکا خواب اقبال نے دیکھا تھا اورجسکے حصول کیلئے قائد اور دیگر رہنمائوں نے ہزار ہا کاوشیں کیں جو کروڑوں مسلمانوں کے د ل کی آواز تھی اور جس کی بنیادوں کو خون سے سینچا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے خود ساختہ لیڈروں نے دوران حکمرانیت زبان کی شیرینی دکھائی مگر کر دار ہندو متعصب جیسا رکھاہواہے۔ اپنے اپنے دور میں اپنی مرضی کی بولی لگائی اور اپنے دست وبازو مفاد پرستی میں جکڑرکھے ہیں۔ مذہب اور سیاست کے نام پر ہونے والی دہشت گردی میں ہم سے ہمارا یقین چھین لیا گیا ہے۔ ہم پر خوف کا سایہ طاری کر دیا یہی نہیں بلکہ صوبائیت پر ستی کی آگ کو بڑہاوا دیا جارہا ہے جبکہ اسلامی قانون کی بجائے انگریزی قانون چل رہا ہے۔ایوانوں میں محب وطن کم اور غدار زیادہ نظر آتے ۔ حیاکم اور بے حیائی ہی بے حیائی کا راج نظرآتا ہے۔ مسجدیں ویران اور کلب آباد، دوست کم اور دشمن زیادہ ، سچ ناپید اور جھوٹ کا بول بالا ،دولت کی فروانی اور ایمان کی قلت ہے۔ ثروت کی قدر سے اور انسان بے قدرہوچکا ہے۔ سرحدوں پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں، دشمن لومڑی کی چالیں چلتا ہوا ہم میں مدضم ہونے کیلئے پر تول رہا ہے اور بنسے کی طرح گول گول آنکھیں گھما گھما کرہم میں سے ہی ضمیر فروشوں کو تلاش کر رہا ہے۔آج اگر پاکستان کی باہر بیٹھ کر منظرکشی کی جائے تو اقربا پروری، چور بازاری بد عنوانی اور رشوت ستانی کا بازار گرم نظرآتا ہے اور بدقسمتی سے یہ سب کچھ ہمارے ملک میں موجود ہے اور ہورہا ہے جسے کوئی روکنے کی جسارت نہیں کررہا ،مگر آخر کب تک ؟ کب تک یہ سب کچھ ہوتا رہے گا، کیوں آپ نے اور سب نے اپنے آپ کو پڑھنے اور لکھنے کی حد تک محدود رکھا ہوا ہے۔ کیوں ہم قلم کا سہارالے کر اپنی نفرت اور کڑواہٹ تو نکال لیتے ہیں مگر فعل یعنی عمل سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھا ہوا ہے؟کیوں آج اس ملت اسلامیہ کے جوان خواب غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے۔ کون ہے وہ جو ہمیں بیدار کریگا اور ہم سب کب بیدار ہونگے؟افسوس کہ ہم کسی کا انتظار کررہے ہیں حالانکہ ہم ہی ہیں جنہوں نے اپنے ملک کا نظام بدلنا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ روز حشر ہمیں نہ صرف معصوم بچوں کی دل دوز پکاروں ، مائووں کی درد بھری آہوں کا جساب اور جواب دینا پڑے تو ہم کیا جواب دینگے ؟ کیونکہ شاعر مشرق اور قائد محترم نے ہماری آزادی کیلئے اپنی زندگی کی پرواہ تک نہ کی اور ہم اپنی ہی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکے کہیں اسی سوال کے جواب میں شر مندہ نہ ہونا پڑے۔وقت آج بھی ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلا، ہم آج بھی خود کو سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں ،اگر اسی طرح غفلت کے کیپسول کھا کرسوتے رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ روز محشرمیںحساب تو شاید دیر سے دینا پڑے یہیں دنیا میں ہی مفاد پرست ہمارا وجود اور ہماری داستان کو ملیا میٹ نہ کر دیں۔کیا ہم انہیں روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔اپنی رائے ضرور دیجئے گا۔