قرارداد پاکستان پاس مگر ہم فیل

قرارداد پاکستان پاس مگر ہم فیل

قراردادپاکستان ”پاس ”ہوگئی، مگر ہم” فیل ”ہوچکے ہیں۔


ہمارے اندر1940ء والا جذبہ ایمانی کیسے واپس آئے گا؟اُس دو ر کے پاکستانی اور آج کے پاکستانی میں فرق کیوں آگیا ہے؟
غفلت کی چادر نہ اتاری تودشمن پھر سے ہمارے لیے غلامی کی زنجیریں تیار کرچکے ہیں

رومانہ فاروق:
23مارچ1940قائداور مسلمانوں کیلئے سب سے عظیم اور سنہرا دن بنا۔ جب قائد کے چہیتے بنگال کے وزیر اعلی مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے اس قرار داد کو پیش کیاجو بعد میں قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی ،جی ہاں … اس قرار داد کی منظوری کے سات سال بعد آزاد مملکت پاکستان کے خواب شر مندہ تعبیر ہوا لیکن اب یہ ہماری بد نصیبی ہے یا حالات کی ستم ظریفی کہ جس ملک کے حصول کی خاطر ہزاروں مائوں کے کڑیل جوان تہہ تیغ کر دئیے گئے ہزاروں معصوم بچوں کو والدین کے سامنے جلا دیا گیا۔ ہزاروں مائوں اور بہنوں کی عزتیں پامال کی گئیں۔ سینکڑوں نوجوانوںکی لاشیں جنگلی جانوروں کی خوراک بنیں، اتنے کشت وخون اور مصیبتوں کے بعد ہم نے جو آزاد فضائیں اور آزاد سر زمین حاصل کی صرف اسلئے کہ ایک قوم زندہ رہ سکیں اور سیاسی اور مذہبی آزادی کے علاوہ زندگی سے وابستہ پر پہلو کی آزادی ہو۔یکن کیا آج ہم پاکستان کو ایساہی دیکھتے ہیں ؟یا پھر یہ کہ کیا یہ ویسی ہی دھرتی ماں ہے جسکا خواب اقبال نے دیکھا تھا اورجسکے حصول کیلئے قائد اور دیگر رہنمائوں نے ہزار ہا کاوشیں کیں جو کروڑوں مسلمانوں کے د ل کی آواز تھی اور جس کی بنیادوں کو خون سے سینچا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے خود ساختہ لیڈروں نے دوران حکمرانیت زبان کی شیرینی دکھائی مگر کر دار ہندو متعصب جیسا رکھاہواہے۔ اپنے اپنے دور میں اپنی مرضی کی بولی لگائی اور اپنے دست وبازو مفاد پرستی میں جکڑرکھے ہیں۔ مذہب اور سیاست کے نام پر ہونے والی دہشت گردی میں ہم سے ہمارا یقین چھین لیا گیا ہے۔ ہم پر خوف کا سایہ طاری کر دیا یہی نہیں بلکہ صوبائیت پر ستی کی آگ کو بڑہاوا دیا جارہا ہے جبکہ اسلامی قانون کی بجائے انگریزی قانون چل رہا ہے۔ایوانوں میں محب وطن کم اور غدار زیادہ نظر آتے ۔ حیاکم اور بے حیائی ہی بے حیائی کا راج نظرآتا ہے۔ مسجدیں ویران اور کلب آباد، دوست کم اور دشمن زیادہ ، سچ ناپید اور جھوٹ کا بول بالا ،دولت کی فروانی اور ایمان کی قلت ہے۔ ثروت کی قدر سے اور انسان بے قدرہوچکا ہے۔ سرحدوں پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں، دشمن لومڑی کی چالیں چلتا ہوا ہم میں مدضم ہونے کیلئے پر تول رہا ہے اور بنسے کی طرح گول گول
آنکھیں گھما گھما کرہم میں سے ہی ضمیر فروشوں کو تلاش کر رہا ہے۔آج اگر پاکستان کی باہر بیٹھ کر منظرکشی کی جائے تو اقربا پروری، چور بازاری بد عنوانی اور رشوت ستانی کا بازار گرم نظرآتا ہے اور بدقسمتی سے یہ سب کچھ ہمارے ملک میں موجود ہے اور ہورہا ہے جسے کوئی روکنے کی جسارت نہیں کررہا ،مگر آخر کب تک ؟ کب تک یہ سب کچھ ہوتا رہے گا، کیوں آپ نے اور سب نے اپنے آپ کو پڑھنے اور لکھنے کی حد تک محدود رکھا ہوا ہے۔ کیوں ہم قلم کا سہارالے کر اپنی نفرت اور کڑواہٹ تو نکال لیتے ہیں مگر فعل یعنی عمل سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھا ہوا ہے؟کیوں آج اس ملت اسلامیہ کے جوان خواب غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے۔ کون ہے وہ جو ہمیں بیدار کریگا اور ہم سب کب بیدار ہونگے؟افسوس کہ ہم کسی کا انتظار کررہے ہیں حالانکہ ہم ہی ہیں جنہوں نے اپنے ملک کا نظام بدلنا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ روز حشر ہمیں نہ صرف معصوم بچوں کی دل دوز پکاروں ، مائووں کی درد بھری آہوں کا جساب اور جواب دینا پڑے تو ہم کیا جواب دینگے ؟ کیونکہ شاعر مشرق اور قائد محترم نے ہماری آزادی کیلئے اپنی زندگی کی پرواہ تک نہ کی اور ہم اپنی ہی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکے کہیں اسی سوال کے جواب میں شر مندہ نہ ہونا پڑے۔وقت آج بھی ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلا، ہم آج بھی خود کو سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں ،اگر اسی طرح غفلت کے کیپسول کھا کرسوتے رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ روز محشرمیںحساب تو شاید دیر سے دینا پڑے یہیں دنیا میں ہی مفاد پرست ہمارا وجود اور ہماری داستان کو ملیا میٹ نہ کر دیں۔کیا ہم انہیں روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

2 تبصرے ”قرارداد پاکستان پاس مگر ہم فیل

  1. I have been exploring for a little for any high quality articles or weblog posts on this sort of house . Exploring in Yahoo I eventually stumbled upon this web site. Studying this info So i’m happy to exhibit that I have an incredibly good uncanny feeling I came upon exactly what I needed. I such a lot certainly will make certain to don?t omit this site and give it a glance regularly.

اپنا تبصرہ لکھیں